ایک اور منی بجٹ کا سامنا

نادیہ حسین  اتوار 5 مارچ 2023
اس ملک میں کرنے کو رہ ہی کیا گیا ہے۔ بس ٹیکس دیے جاؤ بات بات پر ٹیکس۔ بس ٹیکس ہی ٹیکس۔ فوٹو : فائل

اس ملک میں کرنے کو رہ ہی کیا گیا ہے۔ بس ٹیکس دیے جاؤ بات بات پر ٹیکس۔ بس ٹیکس ہی ٹیکس۔ فوٹو : فائل

لیجیے حضرات! تازہ منی بجٹ پیش خدمت ہے۔ کچھ دل جلے منی بجٹ کو میگا بجٹ کہہ رہے ہیں۔

کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے، بجٹ کو منی کہیں یا میگا، بجٹ تو بجٹ ہوتا اور اس کا کام دنیا بھر میں چاہے کچھ بھی ہو پاکستان میں بجٹ کی واحد ذمے داری غریب اور متوسط طبقے کے لاغر جسم سے خون نچوڑ کر ملکی اشرافیہ کے حلق میں انڈیلنا ہوتا ہے اور الحمد اللہ ہمارا ہر بجٹ اپنی ذمے داری نہایت احسن طریقے سے انجام دیتا ہے۔

وطن عزیز میں جب جب بجٹ آتا ہے عوامی اور کاروباری حلقوں کی جانب سے بلاغوروخوض ہی مسترد کر دیا جاتا ہے۔ بجٹ میں عوام کے لیے سب کچھ منفی  ہوتا ہے مگر ایک چیز تو مثبت ہوتی ہے کہ جس ملک میں گھروں میں نہ بجلی آتی ہے نہ گیس آتی ہے نہ پانی آتا ہے وہاں کم ازکم ایک چیز تو ایسی ہے جو حکومت کی جانب سے نہایت مستقل مزاجی اور باقاعدگی سے عوام کے لیے آتی ہے۔

عوام کو اس کے لیے حکومت کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ وزارت خزانہ کے اہل کاروں نے راتوں کو جاگ جاگ کر عوامی بجٹ تیار کیا ہے۔ یہ بھلا کوئی سہل کام ہے، عوام کی ایک ایک معاشی رگ کو تلاش کرنا اور اس سے ٹیکس کشید کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے مگر ہماری حکومتیں یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہیں۔ اور عوام کی یہ حالت ہے کہ انتہائی محنت سے تیار کردہ بجٹ کو غیرسنجیدگی سے ہنسی مذاق میں اُڑا دیتے ہیں۔ ہم دنیا کی سب زیادہ زندہ دل قوم جو ٹھہرے۔

اب حالیہ منی بجٹ کو ہی دیکھیے۔ موصوف کے نازل ہونے سے پہلے ہر طرف شور شرابہ تھا کہ بجٹ کے بعد مہنگائی کا طوفان آئے گا بس اسی خیال سے ہم نے سوچا کہ جو تھوڑے بہت پیسے بچے ہیں ان سے کچھ اشیائے خورونوش خرید لی جائیں۔ اس سے پہلے کہ وہ بھی قوت خرید سے باہر ہو جائیں۔ بٹوے میں ایک خستہ حال ٹیپ لگا ہزار کا نوٹ پڑا آخری سانسیں لے رہا تھا۔ خستہ حالی کی وجہ سے ہر دکان دار نے ہمیں واپس لوٹا دیا۔ سوچا پہلے اس نوٹ کو بینک سے تبدیل کراتے ہیں پھر خریداری شروع کرتے ہیں۔

بینک پہنچ کر کیشیئر کو نوٹ تھما کر پوچھا اسے بدل دیں گے؟ ہم سے کوئی لے نہیں رہا۔ کیشئرصاحب نے ایک نظر ہم پر ڈالی دوسری نوٹ پر۔ پھر اسے الٹ پلٹ کردیکھا اور گویا ہوئے، بدل تو دیں گے مگر آٹھ سو دیں گے۔

ہم نے حیرت سے پوچھا وہ کیوں؟ تو بولے میڈم کل بجٹ آیا ہے نا اس وجہ سے۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنا نوٹ واپس لیتے دوسرے کیشیئر صاحب فوراً گویا ہوئے، ارے میڈم! ایسی کوئی بات نہیں یہ مذاق کررہے ہیں۔ اصل میں بجٹ نے سب کے دل و دماغ پر اثر کردیا ہے۔ اس لیے ہم خود کو ریلیکس رکھنے کے لیے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ ویسے ممکن ہے اگلے بجٹ میں کچھ ایسا ہی ہوجائے۔ یہاں حکومت سے کچھ بعید نہیں ہے۔

خیر سے اپنا نوٹ بدلوا کے گوشت کی دکان پر پہنچے اور کہا، بھائی ایک کلو قیمہ بنادو۔ قصائی نے جلدی سے عمدہ گوشت نکال کر دکھایا۔ پوچھا باجی! ٹھیک ہے نا؟ ہم نے کہا بالکل ٹھیک ہے، بس اب جلدی سے قیمہ بنادو۔ کہنے لگا، آپ نے گوشت دیکھ لیا نا، اب پہلے دیکھنے کے پیسے دیں، پھر قیمے کے الگ پیسے ہوں گے۔ ہم نے غصے سے کہا، تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے، صرف گوشت دیکھنے کے کس بات کے پیسے؟ قصائی بولا باجی! کل بجٹ آیا ہے نا، اب گوشت دیکھنے کے بھی پیسے لگیں گے۔

آپ خریدیں نا خریدیں آپ کی مرضی۔ اس سے پہلے کہ ہم خالی ہاتھ واپس ہوتے دکان کا مالک آگیا۔ کہنے لگا باجی! اس گدھے کی باتوں پر نا جائیں، اسے تو بکواس کی عادت ہے۔ اب اس کے ہاتھ بجٹ لگ گیا ہے۔ صبح سے گاہکوں سے تفریح لے رہا ہے۔ ہاں بھیا! تم بھی لے لو عوام سے تفریح۔ ہم ہی تو بے وقوف ملے ہوئے ہیں سب کو۔ ہم گوشت لے کے چلنے لگے تو قصاب نے کہا کہ باجی! ابھی تو مذاق کیا تھا، یہی حالات رہے تو اگلے بجٹ میں صرف گوشت دیکھنے کے بھی الگ سے پیسے لگیں گے، لکھ کے رکھ لیں میری بات۔ ہم نے دل میں کہا، تیرے منھ میں خاک۔

گوشت لے کے بیکری کا رخ کیا۔ ایک ڈبل روٹی اور ایک پاؤ زیرے کے بسکٹ دینا۔ دکان دار بولا اور کچھ؟ ہم نے کہا بس یہی ہے۔ کہنے لگا واٹس ایپ نمبر دیں۔ ہم نے حیرت سے پوچھا کس خوشی میں؟ کہنے لگا آپ کو بسکٹ اور ڈبل روٹی کی تصویریں بھیجنی ہیں۔ کیوں بھئی؟ باجی پھر بجٹ آگیا ہے نا چیزوں کے دام بڑھ چکے ہیں، آپ قیمت پر بحث کریں گی۔

اس لیے بہتر ہے چیزوں کی تصویروں کو ہی دیکھ کر گزارہ کرلیں۔ ہم پلٹے ہی تھے تو دکان دار بولا ارے باجی! لیتی جائیں میں مذاق کر رہا تھا۔ اچھا بھیا! تمہیں بھی ہم ہی ملے تھے مذاق کرنے کو۔ کہنے لگا، باجی ابھی تو مذاق کر رہا تھا مگر سچ بتاؤں بجٹ تک اتنی مہنگائی ہوجائے گی کہ پھر یہ چیزیں آپ لوگ تصویروں میں ہی دیکھیں گے۔ اس لیے ابھی سے عادت ڈال لیں۔

شام کو چہل قدمی کے لیے پارک پہنچے تو وہاں بھی موضوع گفتگو منی بجٹ ہی تھا۔ ایک پڑوسن کہنے لگیں کہ اب وزن گھٹانے کے لیے واک کی ضرورت نہیں۔ مہنگائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے، بہتر ہے کہ سب اپنا کھانا پینا قابو میں رکھو۔ بڑھتی مہنگائی اب کسی کا وزن نہیں بڑھنے دے گی۔ چلتے چلتے ایک صاحبہ غصے میں بولیں ارے حد ہو گئی ہے، اب تو شادی ہال کا ٹیکس اور بڑھ گیا ہے۔ شادیوں کے اخراجات پہلے ہی بے قابو تھے۔ اب مزید بڑھا دیے۔ اب کیا انسان شادی بھی نا کرے۔

اس ملک میں کرنے کو رہ ہی کیا گیا ہے۔ بس ٹیکس دیے جاؤ بات بات پر ٹیکس۔ بس ٹیکس ہی ٹیکس۔ حد ہوتی ہے آخر ٹیکس کی بھی۔ وہ محترمہ اپنے دل کی بھڑاس نکال چکیں تو دوسری گویا ہوئیں۔ حکومت بات بات پر ٹیکس لگا رہی ہے۔ میں تو کہتی ہوں کہ اب حکومت کو چاہیے کہ شادی کے لیے لڑکی دیکھنے پر بھی ٹیکس لگا دے۔

جب بھی لڑکی دیکھنے جاؤ ٹیکس دو۔ دیکھنا ایسا ہونے لگا نا تو قسم سے ملک بھر سے اتنا ٹیکس جمع ہو گا کہ ہمارا اگلا پچھلا تمام قرضہ بھی اتر جائے گا اور نیا لینے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس خیال سے سبھی نے اتفاق کیا۔ کمال ہے کہ اب تک وزارتِ خزانہ والوں کو اس کا خیال کیوں نہیں آیا۔ شادی کے لیے لڑکی دیکھنے جانا تو ہمارا قومی مشغلہ ہے۔ روز شام کو آدھی سے زیادہ قوم اسی مشغلے میں مشغول ہوتی ہے۔

اس عمل کو اگر ٹیکس جمع کرنے کا ذریعہ بنا لیا جائے تو ملک معاشی طور پر خودکفیل ہو سکتا ہے۔ بس کوئی اسحٰق ڈار کے کان میں سرگوشی کردے۔ آزمائش شرط ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔