تعلیم یافتہ اور باشعور عورت

ایاز مورس  اتوار 5 مارچ 2023
 محفوظ اور مستحکم معاشرے کی ضمانت خاندانی و سماجی ترقی میں عورت کا کردار انتہائی اہم ہے ۔ فوٹو : فائل

محفوظ اور مستحکم معاشرے کی ضمانت خاندانی و سماجی ترقی میں عورت کا کردار انتہائی اہم ہے ۔ فوٹو : فائل

دُنیا کی خوب صورتی اس کی تنوع میں پنہاں ہے۔ اس کائنات کو مزید خوب صورت بنانے اور نظم وضبط میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دُنیا کا ہر فرد اپنا اپنا کردار ادا کرے ۔ عورت کے بغیر کائنات، زندگی اور خوب صورتی کا تصور ناممکن سی بات ہے۔

آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں تعلیم اور تربیت یافتہ عورت کا کردار انتہائی اہم ہے۔ معاشرے کی باہمی ترقی کے لیے خاندان کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے اس لیے خاندانی مضبوطی اور ترقی میں عورت کا بااختیار اور باشعور ہونا لازم ہے ۔مارچ کے مہینے میں عورت کے حقوق اور بہتری کے لیے کافی بات کی جاتی ہے۔

اس لیے ہم نے بھی اس مرتبہ اس اہم اور توجہ طلب موضوع کو پیش نظر رکھا ہے۔ بنیادی طور ہمیں اپنے معاشرے کی ترقی کی بنیادوں کو مضبوط اور پائیدار بنانے کے لیے عورت کے کردار اور مقام پر بحث کرنے کی بجائے قابل عمل نکات پر توجہ دینی ہے۔

عورت کسی بھی روپ میں ہو، کسی بھی رشتے میں اور مقام پر ہو اس کا مقام اور وقار اُسے منفرد بناتا ہے۔ عورت کے بارے میں سوچ اور رویے بنیادی طور پر گھر وں کے ماحول اور تربیت سے تقویت پاتے ہیں۔

آج کے دور میں کسی بھی خاندان اور معاشرے کی ترقی کا انحصار عورت کی کارکردگی اور قابلیت پر ہوتا ہے۔ یہ ہی نکات ہمارا موضوع ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں کیسے عورت کو تعلیم یافتہ، ہنر مند، کارآمد، باوقار اور بااختیار بنا سکتے ہیں۔

میری ذاتی زندگی میں خواتین کا کردار نہایت کلیدی رہا ہے، جنہوں نے میری زندگی کے ہر شعبے اور ہر موڑ پر اپنا نمایاں حصہ ڈالا ہے۔ میری ماں، پھپھو، خالہ، بہن، بیوی اور بیٹی نے عورت کے بارے میں میری سوچ اور تصور کو ہمیشہ ایک لیڈر، مددگار اور تخلیق کار کے طور پر ترتیب دیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمیں پاکستانی معاشرے میں عورت کو عزت اور برابر مقام دینا ہے تو ہمیں اپنے گھروں کے ماحول کو بہتر بنانا ہوگا اور مردوں کی ذہنی، تعلیمی اور نفسیاتی تربیت کرنی ہوگی۔ ایک عورت معاشرے میں مثبت اور موثر حصہ اُس وقت ہی ڈال سکتی ہے جب اُس کو شروع سے ہی خوداعتمادی اور بھروسے کا تحفظ ملا ہو ۔

موجودہ دُور کے چیلینجز سے نمٹنے کے لیے لڑکیوں کی تربیت ان نکات کے مطابق کرنی ہوگی تاکہ وہ اپنی قدرتی صلاحیتوں کا بہتر ین انداز میں اظہار کرسکیں۔

پاکستانی خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا عالمی سطح پر منوا کر یہ بات ثابت کردی ہے کہ اگر انہیں مناسب ماحول، تعلیمی سہولیات اور مدد ملے تو وہ کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔

عورت یعنی ماں فرد اور خاندان کی ترقی کی سب سے اہم ستون ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ماں خاندان کی تربیت، ذہنی، اخلاقی اور نفسیاتی پرورش میں سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ گھر میں ایک ماں کا باشعور، بااختیار اور ذمے دار ہونا خاندان کی اجتماعی ترقی کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ماں کا کردار انتہائی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ معاشی، سماجی اور نفسیاتی مسائل کی وجہ سے وہ اپنی ذمے داریاں بخوبی نبھانے سے قاصر ہے۔ جب تک ہمارے معاشرے اور خاندانوں میں ماں باشعور اور بااختیار نہیں ہوگی معاشرہ ترقی نہیں کرسکے گا ۔

موجودہ دُور معاشی ترقی کا دور ہے جس میں باشعور، ہنرمند اور بااختیار عورت کے بغیر ایک متوازن، خوش حال، پرُسکون اور مضبوط معاشرے کا تصور ناممکن ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ہماری زندگی میں زندگی کے بارے سوچوں ، افکار اور کردار میں ماؤں کی تربیت کا نہایت کلیدی کردار ہے۔

اس ضمن میں اقوام متحدہ کی کئی رپورٹس میں زور دیا گیا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی خودمختاری اور ان کی سیاسی، سماجی، معاشی اور صحت کی حالت میں بہتری، ایک انتہائی اہم کام ہے، کیوںکہ یہ پائے دار ترقی کے حصول کے لیے ضروری ہے۔

پیداواری اور تولیدی زندگی میں عورتوں اور مردوں دونوں کی مکمل شرکت اور شراکت کی ضرورت ہے، بشمول بچوں کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے مشترکہ ذمے داریاں بھی احساس معاشرے میں اہم سمجھی جاتی ہیں۔

ہمارے ہاں یہ بھی مسئلہ ہے کہ کسی ایک فرد پر ساری ذمے داریوں کا بوجھ ڈال کر ہم خود آزاد ہو جاتے ہیں۔ اس لیے دُنیا کے کئی معاشروں میں، خواتین کو کام کے زیادہ بوجھ اور اختیار اور اثر و رسوخ کی کمی کے نتیجے میں اپنی زندگی، صحت اور تن درستی کو خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر مائیں اپنی اولاد کی خاطر اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کی قربانی دیتی ہیں جو کہ اُن کی اپنی ذات اور معاشرے کی اجتماعی بہتری کے لیے کوئی مثبت بات نہیں ہے۔

دُنیا کے زیادہ تر خطوں میں، خواتین مردوں کے مقابلے میں کم رسمی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور خواتین کو اپنے علم، صلاحیتوں اور مسائل سے نمٹنے کے طریقۂ کار تک اکثر پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ہے۔

طاقت کے رشتے جو خواتین کی صحت مند اور بھرپور زندگی کے حصول میں رکاوٹ بنتے ہیں، یہ انتہائی ذاتی سطح سے لے کر اعلیٰ عوامی سطح تک معاشرے میں مختلف طریقوں سے کام کرتے ہیں۔

اس معاشرتی تبدیلی کے حصول کے لیے ٹھوس پالیسی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے جو محفوظ اور معاشی وسائل تک خواتین کی رسائی کو بہتر اور ممکن بنائیں۔

گھر کے کام کے حوالے سے ان کی ذمے داریوں کو کم کرنے سے لے کر، عوامی زندگی میں ان کی شرکت کی راہ میں حائل قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے، تک تبدیلیوں کے لیے تعلیم اور ابلاغ عامہ کے موثر پروگراموں کے ذریعے سماجی بیداری کو عام کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ، خواتین کی حالت کو بہتر بنانے سے زندگی کے تمام شعبوں، خاص طور پر تولید کے شعبے میں ہر سطح پر ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ آبادی میں کمی کے پروگراموں کی طویل مدتی کام یابی کے لیے بھی یہ سب ضروری ہے۔

کیوں کہ آبادی گھٹانے کے منصوبے اور ترقیاتی پروگرام اس وقت زیادہ موثر ہوتے ہیں جب خواتین کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بیک وقت اقدامات کیے جائیں۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں جس قدر خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے اس تناسب سے اُن کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک عام مثال پبلک ٹرانسپورٹ ہے، جہاں خواتین تعداد میں برابر ہونے کے باوجود سہولیات سے محروم رہ جاتی ہیں۔

اقوام متحدہ نے اپنے ترقی یافتہ اہداف کی فہرست میں خواتین کی ترقی کو شامل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی کے عمل میں مکمل طور پر حصہ لینے کے لیے ضروری علم، ہنر اور خوداعتمادی کے ساتھ خواتین کو بااختیار بنانے کا سب سے اہم ذریعہ تعلیم ہے۔

40 سال پہلے، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں زور دیا گیا تھا کہ ’’ہر کسی کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے۔‘‘ 1990 میں، تھائی لینڈ میں تعلیم پر عالمی کانفرنس میں حکومتوں نے اپنے آپ کو بنیادی تعلیم تک عالمی رسائی کے ہدف کے لیے پابند کیا تھا۔ اس سلسلے میں ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن دُنیا بھر کے ممالک کی قابل ذکر کوششوں کے باوجود جنہوں نے بنیادی تعلیم تک رسائی کو قابل تعریف طور پر بڑھایا ہے، دُنیا میں تقریباً 960 ملین ناخواندہ بالغ افراد ہیں، جن میں سے دو تہائی خواتین ہیں۔

دُنیا کے ایک تہائی سے زیادہ بالغ افراد، جن میں سے زیادہ تر خواتین، کو طباعت شدہ علم، نئی مہارتوں یا ٹیکنالوجیز تک رسائی حاصل نہیں ہے جو ان کی زندگی کے معیار کو بہتر بناسکیں اور انہیں سماجی اور معاشی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنے میں مدد فراہم کرسکیں۔ 130 ملین بچے ایسے ہیں جو پرائمری اسکول میں داخل نہیں ہیں اور ان میں 70 فی صد لڑکیاں ہیں۔

ممالک کو خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے اور مردوں اور عورتوں کے درمیان عدم مساوات کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔ اس ضمن میں چند نکات پر راہ نمائی کی گئی ہے۔

ان نکات میں ہر کمیونٹی اور معاشرے میں سیاسی عمل اور عوامی زندگی کی تمام سطحوں پر خواتین کی مساوی شرکت اور مساوی نمائندگی کے لیے میکانزم کا قیام اور خواتین کو اپنے تحفظات اور ضروریات کو بیان کرنے کے قابل بنانا، تعلیم، ہنرمندی اور روزگار کے ذریعے خواتین کی صلاحیتوں کو فروغ دینا، خواتین میں غربت، ناخواندگی اور خراب صحت کے خاتمے کو بنیادی اہمیت دینا، خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کرنا؛ خواتین کو ان کے حقوق قائم کرنے اور ان کا احساس کرنے میں مدد کرنا، بشمول وہ حقوق جن کا تعلق تولیدی اور جنسی صحت سے ہے۔

خواتین کی روایتی پیشوں سے ہٹ کر آمدنی حاصل کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانا، معاشی خودانحصاری حاصل کرنے اور لیبر مارکیٹ اور سماجی تحفظ کے نظام تک خواتین کی مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کرنا شامل ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کا خاتمہ، امتیازی سلوک کو ختم کرنا، قوانین، ضوابط اور دیگر مناسب اقدامات کے ذریعے خواتین کے لیے بچے پیدا کرنے، دودھ پلانے اور بچوں کی پرورش کے کردار کو افرادی قوت میں شمولیت کے ساتھ جوڑنے کو ممکن بنانا بھی ان نکات کا حصہ ہے۔

صنفی مساوات ایک بنیادی انسانی حق ہے اور یہ ایک پرامن، خوش حال دُنیا کے لیے بھی بنیادی قدم ہے۔ اس ساری قانون سازی اور آگاہی کے باوجود لڑکیوں اور خواتین کو پوری دُنیا میں اہم چیلینجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو اختیار اور فیصلہ سازی کے کرداروں میں عام طور پر کم نمائندگی دی جاتی ہے۔

انہیں مساوی کام کے لیے غیرمساوی تنخواہ ملتی ہے اور انہیں اکثر قانونی اور دیگر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کام پر ان کے مواقع کو متاثر کرتی ہیں۔

ترقی پذیر دُنیا میں، لڑکیوں اور عورتوں کو اکثر لڑکوں کے مقابلے میں کم قیمتی دیکھا جاتا ہے۔ اسکول بھیجنے کے بجائے۔

ان سے اکثر گھر کا گھریلو کام کرایا جاتا ہے یا بالغ ہونے سے پہلے ان کی شادی کردی جاتی ہے۔ ہر سال تقریباً 12 ملین کم عمر لڑکیوں کی شادی کردی جاتی ہے۔ اگرچہ دُنیا کے مختلف حصوں میں کچھ پیش رفت ہو رہی ہے، لیکن صنفی عدم مساوات کے مسائل کو ٹھیک کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے گھروں سے ایسے سازگار ماحول کا آغاز کرنا چاہیے جہاں جنس کی بنیاد پر تفریق نہ ہو بلکہ لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی خوداعتمادی اور آگے بڑھنے کا بھرپور موقع ملے۔

خاص طور پر آج کے دور میں والدین کو لڑکیوں میں خوداعتمادی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرے اور عملی زندگی میں درپیش مسائل کا مقابل کر سکیں۔ والدین کو صنفی تفریق گھر سے ختم کردینی چاہیے اور تعلیم کے ساتھ تربیت کو لازم بنانا چاہیے۔

اس حوالے سے لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کی تربیت اور رجحان سازی پر توجہ دینی چاہیے۔ موجودہ دُور میں لڑکیوں کو ذہنی ونفسیاتی مسائل سے آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی نجی، ازدواجی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کسی سے پیچھے نہ رہ سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ خواتین ہماری سماجی اور معاشی ترقی کی سفیر اور وکیل بن سکتی ہیں۔

اگر ہم اُنہیں معاشی خودانحصاری اور خوداعتمادی کے ساتھ کمیونیکیشن اور انسانی روابط کو مضبوط بنانے کے لیے تربیت اور مواقع دیں۔ یہ تمام اہداف اس وقت ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں جب ہم عورت کو قائدانہ کردار میں قبول کرنے اور موقع دینے کے لیے تیار ہو ں گے۔

یاد رکھیں کہ یہ دُنیا جس تیزی سے ترقی کررہی ہے اس میں خواتین کا کردار انتہائی اہم ہوتا جا رہا ہے، اگر ہم نے اپنی خواتین کو قابل اور بااختیار نہیں بنایا تو ہم دُنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

یہ حقیقت ہے اور ہمیں تسلیم کرنی ہوگی کہ یہ دُنیا میری اور آپ کی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ معاشی اُصولوں پر چلتی ہے جس میں خواتین کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا ہم مرد خود کو سمجھتے ہیں۔ خواتین کو مواقع دیں، یہ خاندان، سماج اور دُنیا کی ترقی کا رُخ اور چہرہ بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔