ایک دن سپاہی کے ساتھ …

امتیاز بانڈے  اتوار 5 مارچ 2023

سوچتا ہوں کہاں سے شروع کروں، کیونکہ جب ایک ایسے شخص کے بارے میں لکھنا ہو جس سے کام تو سارے جہاں کا کروایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود شاید ہی کسی افسر نے اسے گلے لگا کر جادو کی جپھی دی ہو۔

میں اپنے 32 سالہ تجربے کی بنیاد پر پولیس کے سپاہی کی زندگی کا ایک تجزیہ کرنے بیٹھا ہوں اور سوچتا ہوں کہیں لکھنے میں اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو جائے ، جیسا کہ اس کے ساتھ محکمہ پولیس میں ہوتی رہتی ہے۔ ایک سپاہی کی نوکری بظاہر بارہ گھنٹے کی ہوتی ہے لیکن اس بارہ گھنٹے کی نوکری کے لیے اسے چودہ سے پندرہ گھنٹے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

سپاہی کی قانونی ذمے داری یوں تو باوردی رہ کر لاء اینڈ آرڈر کا قیام اور جرائم کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں حصہ لینا ہے لیکن پولیس رولز کے تحت اس کی ذمے داریوں کے علاوہ اسے کچھ ’’ افسرانہ رولز ‘‘ پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے۔

روزانہ کی ڈیوٹی لسٹ کیمطابق ایک سپاہی کو سنتری ڈیوٹی، موبائل گشت یا موٹر سائیکل گشت کرنا ہوتی ہے لیکن اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ جب وہ نوکری پر پہنچے تو حکم ملتا ہے کہ فوراً بڑے صاحب کے گھر چلے جاؤ ( ان بڑے صاحبوں میں ایس ایچ او سے لے کر اوپر تک کے تمام صاحبان شامل ہیں)، یا پھر، بڑے صاحب کی اسکارٹ میں ایک جوان کم ہے، فوراً جا کر رپورٹ کرو ، ڈاک لے کر فلاں دفتر میں فوراً پہنچا دو وغیرہ وغیرہ۔ اور چونکہ انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے تو اسے جانا پڑتا ہے، اگر انکار کر دے تو پھر اسے دن بھر میں کوئی رگڑا بھی لگ سکتا ہے۔

جہاں اسے بھیجا جاتا ہے وہاں اس اعلیٰ افسر کی مرضی ہے کہ اس سے کس طرح کا کام لے اور کب اسے چھٹی دے۔ یہی سپاہی ، اعلیٰ افسران کی فیملی کے ساتھ بھی مستقل گارڈ ڈیوٹی ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ جس میں گھر کا سودا سلف لانا ، بچوں کو اسکول اور کالج پہنچانا اور حد تو یہ ہے کہ گھر کی صفائی تک کروائی جاتی ہے۔

میں نے ایک ایسا سپاہی بھی دیکھا جو ایک اینٹی انکروچمنٹ میں بھرتی ہونے والے سب انسپکٹر کے ساتھ نتھی کر دیا گیا کیونکہ وہ سب انسپکٹر ایک ایڈیشنل آئی جی کا بھتیجا تھا ، جب کہ پولیس رولز یا ضابطہ فوجداری ایسی کسی بھی غیر ضروری ڈیوٹی کے بارے میں خاموش ہے۔

یہ زیادتی یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اگر کسی اعلیٰ افسر کے دوست کو ضرورت پڑ جائے تو بھی یہی سپاہی بناء کسی تحریری آرڈر کے اس دوست کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے جہاں عموماً دیکھا گیا ہے کہ ایسے افراد ان سپاہیوں سے اپنے ذاتی کام بھی کروا رہے ہوتے ہیں۔ جیسے بینک بھیج دینا ، اپنے دفتر میں کسی کام پر لگا دینا ، اگر دوست آگئے ہوں تو ان کے لیے کھانا لانے کا ذمے بھی اسی سپاہی کا ہوتا ہے۔

میں نے خود ایسے دو کانسٹیبل سے بات کی جو جیکب آباد ، پولیس ہیڈ کوارٹرز میں متعین تھے لیکن انھیں اس وقت کے ایس ایس پی، جیکب آباد نے، بنا کسی تحریری آرڈر کے، اپنے ایک ایسے بلڈر دوست کے پاس کراچی بھجوا دیا تھا جس کی شہرت لوگوں کا مال دبا لینے والے کی ہے۔ جس کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی تو وہ ضمانت کروا کر ان دو باوردی پولیس کانسٹیبلز کے ساتھ ہی انویسٹی گیشن جوائن کرنے پہنچا۔

مقصد صرف پولیس والوں کو اپنا بھرم دکھانا تھا اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی حد دیکھیں کہ جس ایس ایس پی کے حکم سے وہ کراچی آئے تھے خود اس کا بھی جیکب آباد سے تبادلہ ہو چکا تھا ، لیکن اس کے باوجود بھی یہ کراچی میں اس بلڈر کے ساتھ نوکری انجام دے رہے تھے۔ ان کانسٹیبلز نے یہ بھی بتایا کہ صاحب ہم اپنے گھر سے اتنا دور اپنی مرضی سے نوکری نہیں کر رہے لیکن اب کہیں تو کس سے کہ جس افسر کے حکم سے یہاں بھیجا گیا تھا ان کا تبادلہ ہو گیا اور یقیناً ہیڈ کوارٹرز کے منشی میں اتنی ہمت نہیں ہو گی کہ وہ ایک جانے والے افسر کی ’’چغلی‘‘ نئے آنیوالے افسر سے کرے۔

یہ سپاہی ہی ہے جو جب فیلڈ میں گشت پر مامور ہوتا ہے تو سب سے پہلے کسی جرائم پیشہ کی گولی کا نشانہ بھی بنتا ہے ، لیکن پھر بھی بعض افسران اس کی تذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حال ہی میں سوشل میڈیاپر ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں دو سپاہیوں کو ہتھکڑی لگا کر ڈی پی او کے حکم پر بار آفس میں وکیلوں کے سامنے پیش کیا گیا اور اطلاعات کیمطابق معافی بھی منگوائی گئی۔

مان لیں کہ ان سپاہیوں نے کوئی غیر اخلاقی یا غیر قانونی حرکت کی بھی ہو تو قانون کی کونسی کتاب میں ایسی سزا تجویز کی گئی ہے کہ انھیں ہتھکڑی لگوا کر سرعام معافی منگوائی جائے؟ قانون موجود ہے، انضباطی کارروائی کے رولز موجود ہیں جس کے تحت ان کی سرزنش کی جاسکتی تھی اور کوئی سزا بھی دی جاسکتی تھی لیکن صرف وکیلوں کو خوش کرنے کے لیے یہ سارا ڈراما رچایا گیا، توکیا کبھی کسی وکیل سے اس پولیس افسر یا ملازم سے معافی منگوائی گئی جس پر اس نے سرعام عدالت کے احاطے میں تشدد کیا اور ہاتھ اٹھایا؟

جب دن بھر کا تھکا ہارا یہی سپاہی رات گئے اپنے گھر واپس پہنچتا ہے تو پھر اسے اپنے گھر کے معاملات کو بھی وقت دینا پڑتا ہے۔ یہ جب صبح گھر سے جاتا ہے تو بچے سو رہے ہوتے ہیں اور جب رات گئے دیر سے گھر پہنچتا ہے تب بھی بچے سو چکے ہوتے ہیں۔

ہفتے میں اگر ایک چھٹی مل جائے تو اسے اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع مل جاتا ہے لیکن اکثر اوقات اس چھٹی والے دن بھی اسے کسی نہ کسی ایمرجنسی ڈیوٹی کے لیے بلا لیا جاتا ہے، جو تنخواہ ان دنوں ایک سپاہی کو ملتی ہے اس میں سے وہ بمشکل اپنے گھر کا کرایہ ، بجلی اور دیگر بلز، بچوں کی فیسیں ہی ادا کر پاتا ہے اور اگر کہیں خود یا اس کی فیملی کا کوئی فرد بیمار پڑ جائے تو اس صورت میں ڈاکٹر کی فیس اور دواؤں کے اضافی اخراجات بھی پورے کرنے پڑتے ہیں جو یقیناً تنخواہ سے تو پورے نہیں ہو پاتے جس کی وجہ سے اسے بہت سی اشیائے ضرورت ادھار بھی لینا پڑتی ہیں۔

اسے اچھی وردی پہننے کا حکم تو دے دیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں سوچا جاتا کہ اسی محدود تنخواہ کے پیسوں سے وہ اپنے لیے وردی اور جوتے کس طرح خرید سکتا ہے۔ اسے اپنے گھر سے جائے تعیناتی تک آنے اور جانے کا انتظام بھی اسے خود ہی کرنا ہے۔ میں نے ایسے سپاہی بھی دیکھے ہیں جو اپنا کھانا گھر سے باندھ کر لاتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دوران چیکنگ لوگوں کو تنگ کرنے اور پیسہ بٹورنے کی شکایات بھی ا نہی سپاہیوں کی عام ہیں۔

سپاہی وہ طبقہ ہے جس کی اگر کوئی افسر صرف پشت تھپتھپا دے تو وہ کسی بھی مشکل وقت میں اس افسر کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کو عزت دیں اس لیے کہ یہ آپ کی عزت کی حفاظت کرتا ہے اور پولیس کی بہادری کے جو کارنامے مشہور ہیں ان میں سب سے بڑا کردار اسی سپاہی کا ہوتا ہے جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنے افسران کے حکم پر ہمہ وقت دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد سے لڑنے کے لیے تیار رہتا ہے۔

اور جن پرائیویٹ افراد کو یہ سپاہی ان کی حفاظت کے لیے دیے گئے ہیں ان کے لیے میرا پیغام ہے کہ اگر اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ سے انھیں پولیس گارڈ مل بھی گئی ہے تو اسے پولیس گارڈ ہی سمجھا جائے، اپنے باپ کا نوکر نہ سمجھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔