اتحادی مگر مفاداتی حکومت

محمد سعید آرائیں  پير 20 مارچ 2023
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

اس بات میں تو شک نہیں کہ مختلف منشوروں اور منفرد پالیسیوں کی حامل سیاسی پارٹیوں نے گزشتہ سال اپریل میں آپس میں متفق ہو کر عمران خان کی حکومت آئین کے تحت ختم کرنے کے لیے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی اور تحریک کو پی ٹی آئی کے ڈپٹی اسپیکر نے غیر قانونی طور پر مسترد کر کے عمران خان کی ہدایت پر عمل کیا تھا اور بعد میں سپریم کورٹ نے تحریک مسترد کرنے کا فیصلہ غلط قرار دیا تھا۔

جس کے بعد تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش اور منظور ہوئی اور تحریک کی حامی پارٹیوں کی تحریک انصاف کی انتقامی حکومت سے جان چھوٹی اور عمران خان کی جگہ مسلم لیگ (ن) کے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف وزیر اعظم بنے تھے اور اتحادی حکومت قائم ہوئی تھی۔

پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کی ضرورت عمران خان کو ہٹانا تھا کیونکہ وہ خود کو جمہوری وزیر اعظم کے بجائے سویلین وزیر اعظم بلکہ بادشاہ سلامت بنے ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی اپوزیشن کو کچلنے اور سیاسی مخالفین کو گرفتار کرانے کا ملک میں نیا ریکارڈ قائم کر رکھا تھا جس سے تنگ آ کر قومی اسمبلی میں موجود اور باہر کی پارٹیوں کو عمران خان کے انتقام سے بچنے کے لیے متحد ہو کر ایسا کرنا پڑا تھا۔

عمران خان قومی اسمبلی کے رکن تو منتخب ہوتے رہے تھے مگر انھیں کوئی یوسی چلانے کا تجربہ اور یوسی چیئرمین جیسا اختیار استعمال کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھا وہ کرکٹ میں کیپٹن کی حیثیت میں اپنی چلانے کے عادی تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے ملک کو ذاتی آمریت اور من مانی سے چلایا وہ اگر اپنے محسنوں کے کہنے پر بھی چلتے اور اپنی پارٹی کے سنجیدہ لوگوں کی ہی مان لیتے تو آج بھی اقتدار میں ہوتے اور ان کے سیاسی مخالفین کو انھیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کا موقعہ نہ ملتا۔

وزارت عظمیٰ سے آئین کے مطابق ہٹائے جانے کی رسوائی ملک کے کسی بھی وزیر اعظم کے حصے میں نہیں آئی تھی اور وہ 75 سالوں میں ملک کے واحد وزیر اعظم کہلائیں گے جنھیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا اور ملک میں پہلی بار وسیع الجماعتی حکومت قائم ہوئی جو کہنے کو اتحادی مگر اجتماعی طور پر مفاداتی حکومت ہے۔

عمران خان کو پہلی بار ہی حکومت کرنے کا پونے چار سال کا موقعہ ملا جب کہ 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ جمالی کو پہلی بار وزیر اعظم بننے پر نہیں ملا تھا جو عمران خان کو پہلی بار ہی میں دیا گیا مگر اپنے محسنوں سمیت انھوں نے کسی کی نہیں سنی اور پہلی بار اپنی مخالف دو بڑی پارٹیوں کے تمام بڑوں اور سابقہ وزرائے اعظم کو گرفتار کرا کر قید کرانے پر دلی تسکین انھوں نے ضرور حاصل کی۔

موجودہ حکومت کو عمران خان کے بعد سوا سال تک اقتدار میں رہنے کا حق تھا اور اتحادی حکومت 11ماہ گزار چکی ہے مگر عمران خان اپنی معزولی کے بعد سے ہی اتحادی حکومت کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی جلد بازی کے باعث ان کے اکثر ارکان قومی اسمبلی سے استعفے دینے پر پچھتا رہے ہیں اور واپس قومی اسمبلی جانے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔

اتحادی حکومت نے ملک میں پہلی بار سب سے بڑی کابینہ بنانے کا ریکارڈ ضرور قائم کیا ہے جس میں اتحادی پارٹیوں کے درجنوں رہنماؤں کو وزیر، وزرائے مملکت، مشیر اور معاونین خصوصی بنا کر سرکاری عہدوں سے نواز رکھا ہے اور صرف 16نشستوں والی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی کے اصل سربراہ آصف زرداری نے اپنے صاحبزادوں بلاول بھٹو اور مولانا اسد محمود کو خارجہ اور مواصلات کی اہم وزارتیں دلا رکھی ہیں۔

نگران حکومت میں مولانا فضل الرحمن کے سمدھی کو کے پی کا گورنر بنایا گیا ہے جو نگران وزیر اعلیٰ کے اختیارات بھی استعمال کر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ کے پی میں جے یو آئی کے پسندیدہ اعلیٰ افسر مقرر کیے گئے ہیں ۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی ساڑھے 14 سالوں سے بااختیار حکومت ہے اور پی پی نے وفاق میں وہ وزارتیں لے رکھی ہیں جن کا عوام سے کم ہی واسطہ ہے اور اس کے وزیر خارجہ بلاول زرداری نے عالمی دوروں کا ضرور ریکارڈ قائم کردیا ہے جن پر جو اخراجات آتے ہیں۔

ان کے لیے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ یہ ذاتی طور پر برداشت کر رہے ہیں حکومت یہ اخراجات نہیں دے رہی۔دو اہم حکومتی حلیفوں ایم کیو ایم اور بی این پی مینگل کو سندھ و بلوچستان کی گورنری اور متعدد وفاقی وزارتیں ملی ہوئی ہیں مگر لگتا ہے کہ وہ پھر بھی مطمئن نہیں۔

وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ (ن) لیگ کے وفاقی عہدیدار تنخواہیں نہیں لے رہے مگر اہم عہدوں پر آ کر انھیں تنخواہ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ میڈیا پر چہرہ شناسی اور سرکاری وسائل کے استعمال اور ان کی سرکاری حیثیت ہی ان کے لیے کافی ہے اور سرکاری مفادات اور پروٹوکول انھیں مل رہا ہے اور پنجاب میں نگران حکومت کے بعد انھیں اب کسی پریشانی کا سامنا نہیں اور (ن) لیگ کی چیف آرگنائزر کو بغیر سرکاری عہدے کے بھی فل میڈیا کوریج اور پروٹوکول حاصل ہے اور سب کو مفادات مل گئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔