کیا عام انتخابات پر ہم متفق ہوسکیں گے ؟

سلمان عابد  منگل 21 مارچ 2023
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

سیاست اور جمہوریت یا ادارہ جاتی سطح پر ڈیڈ لاک پیدا ہوجائے تو اس سے باہر نکلنے کا ایک جمہوری راستہ نئے انتخابات ہی کی صورت میں ہوسکتا ہے۔

کیونکہ سیاسی غیر یقینی ، محاذ آرائی، ٹکراؤ سمیت تناؤ کے ماحول میں کوئی بھی عمل مفاہمت کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔

اس کا نتیجہ سیاست اور جمہوریت سمیت معیشت کی مزید بدحالی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں انتخابات مسائل کا حل نہیں ان کے پاس بھی کوئی متبادل راستہ نہیں اور نہ ہی اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ انتخابات سے گریز کرکے ہم سیاست اور معیشت کو درست سمت میں لے جاسکتے ہیں۔

نئے انتخابات بنیادی طور پر جہاں غیر یقینی سیاست یا صورتحال کے خاتمہ کا بڑا سبب بنتے ہیں وہیں نیا مینڈیٹ، نئی قیادت ہی آگے کی طرف کوئی راستہ نکالتے ہیں۔

انتخابات سے فوری طور پر کوئی بڑا انقلاب نہیں آتا اور نہ ہی اس سے فوری طور پر سیاسی اور معاشی بحران ختم ہوسکے گا۔ لیکن انتخابات اگر شفافیت کی بنیاد پر ہوتے اور شفافیت کی ساکھ کو قائم کرتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں موجودہ غیر یقینی کی سیاست میں کمی آسکتی ہے ۔

پاکستان کو اگر آگے بڑھنا ہے تو اس کے لیے جہاں سیاسی استحکام درکار ہے وہیں غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ بھی کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس وقت ہم معیشت کو درست کرنا چاہتے ہیں مگر معیشت کی درستگی کا علاج بھی سیاسی استحکام اور غیر یقینی صورتحال کے خاتمہ سے ہی جڑا ہوا ہے ۔ عالمی دنیا اور عالمی مالیاتی ادارے سمیت برادر اسلامی ممالک بھی اس وقت تک ہماری مالی امداد میں گرم جوشی نہیں دکھائیں گے جب تک ہم اپنی داخلی سیاست سے جڑے معاملات کو درست نہیں کریں گے۔

جو لوگ سیاست ، سیاسی استحکام اور اس سے جڑی محاذ آرائی کو ختم کیے بغیر معیشت کی درستگی کی بات کررہے ہیں یا انتخابات کو مسئلہ کا حل نہیں سمجھتے وہ غلطی پر ہیں ۔میثاق معیشت پر بڑا زور دیا جاتا ہے مگر یہ معاہدہ بھی میثاق سیاست سے ہی جڑا ہوا ہے اور اس مرض کا علاج کیے بغیر ہم کسی بھی سطح پرصحت مند نہیں ہوسکیں گے ۔کیونکہ جو سیاسی بداعتمادی یا سیاسی دشمنی یا سیاسی عدم قبولیت کا ماحول ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

موجودہ سیاسی منظر نامہ میں انتخابات کا موضوع زیر بحث ہے۔ قومی سیاست اس نقطہ پر کھڑی ہے کہ ہمیں انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے یا انتخابات سے گریز کی پالیسی ہی ہمارے مفاد میں ہے۔ ایک بڑا ابہام دو صوبائی اسمبلیوں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کے حوالے سے موجود ہے۔ دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90روز میں صوبائی انتخابات ہونے ہیں۔

پنجاب کا انتخابی شیڈول آگیا ہے اور 30اپریل کو انتخابات ہونے ہیں جب کہ خیبرپختونخوا کا انتخابی شیڈول آنا ہے ۔ وفاقی حکومت اور دونوں صوبائی نگران حکومتیں انتخابات کے لیے تیار نہیں ۔ ایک وجہ سیکیورٹی ، دہشت گردی ، مالی بحران ، نئی مردم شماری ہے تو دوسری بڑی وجہ عام انتخابات سے قبل دو صوبوں کے انتخابات سے پیدا ہونے والی سیاسی پیچیدگیاں ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد ، سمیت کئی سیاسی پنڈت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بجائے عام انتخابات کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس طبقہ کے بقول مسائل کا حل دو صوبائی انتخابات نہیں بلکہ ہمیں عام انتخابات کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے ۔

عمران خان نے بھی عام انتخابات پر بات چیت کا اعلان کیا ہے اور ان کے بقول وہ سب سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور ان کی بنیادی شرط عام انتخابات پر اتفاق کی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی مفاہمت کی بات کررہے ہیں جب کہ وزیر قانون اعظم نذیر تاڑر اور فواد چوہدری نے بھی مفاہمت پر زور دیا ہے ۔ ایسے میں کیونکر مفاہمت نہیں ہورہی اور دو صوبائی انتخابات کے مقابلے میں عام انتخابات پر اتفاق رائے کیوں نہیں ہورہا ۔

کیا حکومت اور حزب اختلاف خود سے ایک ہوکر بیٹھ کر بات چیت اور کچھ اتفاق رائے پیدا کرسکیں گے یا ان کو کسی اور نے بٹھانا ہے۔یہ بحران سیاسی نہیں ریاستی ہے اس لیے صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ دیگر ریاستی فریقوں کو بھی مل بیٹھ کر کوئی ایسا راستہ نکالنا ہوگا جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔انتخابات پر اگرمئی کے آخری ہفتہ یا جون کے پہلے ہفتے پر اتفاق ہوجائے تو دو صوبائی اسمبلیوں میں جو انتخابات ہونے ہیں ان سے ٹلا جاسکتا ہے۔

اس کے لیے وفاقی حکومت کو اپنی حکومت کی قربانی دے کر چند ماہ پہلے نگران حکومت کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی ۔ اگر اتفاق ہوتا ہے تو پھر نئے انتخابات کی شفافیت ، سازگار ماحول اور مداخلت کو ختم کرکے ہم شفاف انتخابات کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں ۔انتخابات اگر اکتوبر کے بجائے مئی یا جون میں ہوجائیں تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔

اگر حکومت بضد رہتی ہے کہ وہ انتخابات اکتوبر میں ہی کروائے گی تو پھر آئینی ضرورت کے تحت دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے فرار کے تمام راستے نئے سیاسی اور قانونی یا آئینی بحران کو جنم دیں گے اور حکومت توہین عدالت کی مرتکب ہوگی ۔

جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انتخابات سے پہلے عمران خان کو گرفتار کرنا ، نااہل کرنا اور جیل میں ڈالنا سمیت دیوار سے لگانے کی پالیسی کارگر ہوسکتی ہے تو وہ غلطی پر ہیں۔حکومت نے عمران خان کو اب تک جتنا دبانے کی کوشش کی یا اس کے گرد گھیرا تنگ کیا تو اس کا سیاسی فائدہ بھی عمران خان کو ہی ہوا ہے۔

عمران خان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ جہاں ان کے بیانیہ کی جنگ میں کامیابی ہے وہیں حکومتی معاشی پالیسی کی ناکامی اور سیاسی بیانیہ کی عدم موجودگی ہے۔ عمران خان کے خلاف اٹھائے جانے والی تمام حکومتی حکمت عملیاں ان کو مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں اور خود ان حکمت عملیوں پر عمل کرکے حکومت مشکل صورتحال میں پھنس گئی ہے ۔

اگر حکومت عام انتخابات سے گریز کرتی ہے تو دونوں صوبائی انتخابات کی حکمت عملی ان کے خلاف بڑا ردعمل پیدا کرے گی ۔

ایسی صورت میں اگر دو صوبائی انتخابات میں ان کو شکست ہوتی ہے توپھر عام انتخابات میں بھی حکومتی اتحاد کو کچھ نہیں مل سکے گا۔حکومت جتنی دیر عام انتخابات کے فیصلے میں کرے گی اتنا ہی اس کی سیاسی اور معاشی مشکلات بڑھیں گی ۔حکومت نے اگر دو صوبائی انتخابات سے بچنا ہے تو اسے عدالتی فیصلوں کی تائید درکار ہے اور جو موجودہ صورتحال میں آسان نہیں ہوگی ۔ عمران خان کا مقابلہ سیاسی انداز میں ہی کیا جانا چاہیے اور اگر عمران خان نے اپنے دور حکومت میں غلطیاں کی ہیں تو ان تجربہ کار جمہوری حکمرانوں کو ان سے گریز کرنا چاہیے۔

حکمران اتحاد کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ان کی جانب سے اس وقت سیاسی حکمت عملی کے تحت انتخابات سے گریز، اداروں پر دباؤ ڈال کر اپنے حق میں فیصلوں کی پالیسی ، عمران خان پر دہشت گردی ، ملکی دشمنی ، ریاستی بغاوت جیسے مقدمات یا ان کو انتخابی مہم سے دور رکھنے کی کوئی بھی حکمت عملی کارگر نہیں ہوسکے گی ۔

عمران خان کا مقابلہ سیاسی میدان میں ہی ممکن ہے۔ قومی مفاہمت کی ضرورت صرف سیاسی فریقوں کی ہی نہیں بلکہ ادارہ جاتی سطح کی بھی ہے کہ کسی بھی طور پر بحران یا ٹکراؤ کے ماحول کو نہ بڑھنے دیں ۔ ماضی میں بھی کسی کو لانے اور کسی کو نکالنے کی پالیسی کارگر نہیں ہوسکی اور نہ ہی اب یہ ممکن ہوسکے گی۔مسئلہ کا حل فوری طور پر نئے انتخابات اور اس سے جڑے رولزآف گیمز سے ہے اور اسی پر اتفاق کرکے ہم بڑے سیاسی اور معاشی بحران سے باہر نکل سکتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔