کمسن بچوں کے ساتھ خودکشی کے واقعات

محمد عارف میمن  بدھ 22 مارچ 2023
ایک باپ نے کس طرح اپنی معصوم بیٹیوں کو زہر کھاتے دیکھا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

ایک باپ نے کس طرح اپنی معصوم بیٹیوں کو زہر کھاتے دیکھا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

حضرت عمرؓ کا ایک قول ’’اگر فرات کے کنارے ایک بکری بھی ناحق مرگئی، تو میرا گمان ہے کہ روز محشر اللہ تعالیٰ مجھ سے اس کے متعلق پوچھے گا‘‘ تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ آپ نے بھی اکثر سنا ہوگا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کے نظریات بالکل مختلف ہیں۔ اگر یہاں کمسن بچے بھوک سے خودکشی کرلیں تو اس کا ذمے دار کون ہوگا؟ اس پر فیصلہ آج تک موجودہ دور کے مسلم حکمران نہیں کرپائے۔ عہدوں پر براجمان تمام حکومتی ذمے داران کو حضرت عمرؓ کے اس ارشاد سے رہنمائی لے کر ریاست میں بسنے والوں کی تکالیف اور مسائل کو حل کرنا ہوگا۔

گزشتہ دنوں سرجانی میں ہونے والے خودکشی کے اندوہناک واقعے نے ہر حساس دل شخص کو غمزدہ کردیا لیکن ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کے حکمرانوں کے پاس شاید ضمیر نام کی کوئی شے نہیں۔ ہم ایک بیمار معاشرے کے بیمار لوگ ہیں۔ ہم ایک ایسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں جس کا علاج شاید اس دنیا میں موجود نہیں۔ ہم کرپشن کی بیماری میں غرق ہوگئے ہیں، ہم چوری، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور رشوت جیسی خطرناک بیماریوں کا شکار ہیں۔ جس کا حل دنیا کے تمام یہودی ممالک کے حکمرانوں کے پاس تو ہے، مگر مسلم حکمرانوں کے پاس نہ تو کوئی علاج ہے نہ علاج کی امید۔

بے روزگاری اور فاقوں سے تنگ آکر چار اور دو سالہ بیٹیوں کو زہر دیتے وقت ماں اور باپ کے ہاتھ نہیں کانپیں ہوں گے۔ بچے تو بھوکے تھے، زہر بھی یہ سمجھ کر کھا گئے ہوں گے کہ ماں باپ نے پیٹ کا دوزخ بھرنے کےلیے کھانے کا انتطام کیا ہوگا، جسے وہ معصوم خوشی خوشی کھا گئے۔ مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ جو وہ کھا رہے ہیں وہ ان کی زندگی کا آخری نوالہ ہوگا۔ ان بچوں کی تڑپ ایک ماں نے کس طرح برداشت کی ہوگی؟ ایک باپ نے کس طرح اپنی معصوم بیٹیوں کو زہر کھاتے دیکھا ہوگا اور اس کے بعد خود کس طرح وہی زہر اپنے حلق سے نیچے اتارا ہوگا؟ کوئی باپ ایسا منظر سوچ سکتا ہے؟ کوئی ماں ایسا منظر آنکھوں کے سامنے لائے تو کیا ہوگا؟ آپ بھی والدین ہیں، آپ بھی فیملی والے ہیں۔ محض ایک منٹ کےلیے یہ سب کچھ اپنے اوپر رکھ کر سوچیے کہ کیسی بے بسی ہوگی جب کوئی اس طرح کا قدم اٹھاتا ہے۔

ابھی اس صدمے سے دل نہیں نکلا تھا کہ گزشتہ روز ایسی ہی ایک اور خبر سامنے آگئی کہ اورنگی ٹاؤن میں ایک نوجوان لڑکی نے غربت سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ 24 سالہ صوفیہ نے بھی کئی خواب آنکھوں میں سجائے ہوں گے۔ جس میں سے ایک خواب یہ بھی تھا کہ کاش کوئی ایک دن ایسا ہو جس میں پسند کا کھانا پیٹ بھر کر ملے۔ یہ ایک ایسی خواہش تھی جو شاید ہی کبھی پوری ہوپاتی۔ گھر کے حالات اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھائے، پسند کے کھانے کی تو بات ہی دور ہے۔ اس گھر میں اب بھی مزید چار بہنیں موجود ہیں، جن کی خودکشی کا ہم انتظار کررہے ہیں۔ ایک بوڑھی ماں ہے جو کینسر سے لڑ رہی ہے اور دو بھائی ہیں جو بے روزگاری کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ حکومت کے پاس ان کےلیے ذرا بھی وقت نہیں اور معاشرہ بھی بے حسی کا شکار ہے۔ لوگوں کو آٹے کی لائن میں لگا کر حکومت اپنی تمام عیاشیاں پوری کررہی ہے، اور بے وقوف عوام ان کےلیے سڑکوں پر مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اس کے ذمے دار حکمران طبقے کو سپورٹ کرنے والا ہر وہ شخض ہے جو کہتا ہے کہ موجودہ حکمران ٹھیک ہیں۔ اس کا ذمہ دار ہر اس پارٹی کا سپورٹر ہے جسے اپنے لیڈر میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ اس کا ذمے دار ہر وہ کارکن ہے جو اپنے لیڈروں کی خاطر مرنے مارنے تک پر اتر آتا ہے۔ اس کا ذمے دار ہر وہ پارٹی کارکن ہے جس نے پارٹی کی فتح کےلیے ہر جائز ناجائز کام کیے، اور اس کا ذمے دار ہر وہ جاگیر دار، وڈیرہ، تاجر اور اسٹیک ہولڈرز ہیں جو ان کے بینک اکاؤنٹ بھرتے ہیں اور یہ سب ان معصوم بچوں کے گنہگار ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھ رہا ہے کہ میں کیسے اس کا ذمے دار ہوسکتا ہوں تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ آپ جس پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں کیا وہ عوام کو سپورٹ کرتی ہے؟ کیا اس نے عوام کےلیے اپنا پروٹوکول چھوڑا؟ کیا اس پارٹی کے لیڈر نے منتخب ہوکر عوام کےلیے کوئی آسانی کا کام کیا؟ کیا اس نے مہنگائی پر کنٹرول کیا؟ کیا اس نے کبھی کسی طاقت ور کے خلاف کارروائی کی؟ یقیناً اس نے ایسا کچھ نہیں کیا ہوگا۔ تو اس کےلیے آپ ذمے دار ہیں کیوں کہ آپ کی سپورٹ کی وجہ سے وہ اقتدار میں آیا، آپ کی وجہ سے ہی وہ وہاں تک پہنچا جہاں اس نے آکر آپ کے مسائل حل کرنے تھے، مگر اس نے آپ کے مسائل کو پس پشت ڈال کر اپنے مسائل پر توجہ دی۔

آج ملک میں آٹا نایاب ہوچکا ہے، فی کلو آٹا دو سو روپے کلو تک فروخت ہورہا ہے۔ مگر حکمران طبقہ اس بات پر دھیان دیے بیٹھا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کب ہوتی ہے، میڈیا کی سرخیاں اس خبر سے بھری ہوئی ہیں کہ عمران خان گھر سے نکل کر عدالت جارہا ہے، عدالت پہنچ گیا ہے۔ میڈیا کی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ حریم شاہ کے اپنی نازیبا ویڈیو پر آنسو نکل آئے ہیں۔ میڈیا اس بات پر توجہ دے رہا ہے کہ پی ایس ایل کا فائنل کون جیتے گا۔ میڈیا قوم کو یہ بتارہا ہے کہ سینیٹ کی پچاسویں سالگرہ پر پچاس روپے کا یادگاری سکہ جاری کیا گیا ہے۔ میڈیا ہمیں یہ بتارہا ہے کہ ثناء خان کے یہاں بچے کی ولادت متوقع ہے۔ میڈیا ہمیں یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کررہا ہے کہ پنجاب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان معاہدہ طے پاگیا۔ بس اس سے زیادہ ہمارے میڈیا کے پاس کچھ نہیں۔

ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے، مگر ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کو کچھ کہیں تو توہین عدالت کا نوٹس پہلے ہی روز مل جائے گا، حکومت کو کچھ کہو تو اشتعال انگیزی کا الزام لگا کر اندر کردیا جائے گا۔ ہر ادارہ اپنی من مانیوں میں لگا ہوا ہے۔ ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے۔ گندم کے حوالے سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہونے کے باوجود پاکستانی ایک ایک گندم کے دانے کو ترس رہا ہے۔ لیکن میڈیا پر ’سب ٹھیک ہے‘ کی تکرار چل رہی ہے۔

ہم مفلوج ہوچکے ہیں۔ بے حسی ہمارے اندر سرائیت کرچکی ہے۔ ہمیں اس وقت تک کسی کی مجبوری اور بے بسی کا احساس نہیں ہوتا جب تک وہ مجبوری اور بے بسی ہم پر نہ آئے۔ ہم یقیناً ایک مردہ قوم بن چکے ہیں جن کا کوئی خواب نہیں ہوتا، جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ ہم ایک ریوڑ کی طرح بس ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ منزل کی طرف جارہے ہیں۔ لیکن یہ منزل نہیں تنزلی کی انتہا ہے۔

اب تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا، اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو معاملات کنٹرول ہوسکتے ہیں، لوگوں میں خودکشی کا رجحان کم ہوسکتا ہے۔ نہیں، اب یہ سلسلہ رکنا مشکل ہے۔ کیوں کہ کرپشن نے اپنے پنجے مکمل طورپر اس ملک پر گاڑ دیے ہیں۔ جہاں نظر گھماؤ مفادپرست ٹولہ دکھائی دیتا ہے۔ ہر کسی نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائی ہوئی ہے۔ ایسے میں ترقی کا خواب پورا ہونا ناممکن ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عارف میمن

محمد عارف میمن

بلاگر سولہ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں؛ اور ایک مقامی اخبار میں گزشتہ آٹھ سال سے اسپورٹس ڈیسک پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا ٹوئیٹر ہینڈل @marifmemon ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔