ملک کی سیاسی صورتحال کیسے بہتر ہوگی؟

شہریار شوکت  ہفتہ 25 مارچ 2023
ملک کی خاطر لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

ملک کی خاطر لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

ملک میں سیاسی بحران کی جو صورتحال اس وقت موجود ہے یہ نئی نہیں۔ ماضی میں بھی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ایسی محاذ آرائیاں کرتی رہی ہیں۔ ملک میں اس وقت دو سیاسی دھڑے موجود ہیں، ایک عمران خان اور ان کے حماتیوں کا جبکہ دوسرا پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا، جس میں عمران خان کی مخالف تمام جماعتیں شامل ہیں۔ موجودہ دور میں سیاسی جماعتوں کے مابین محاذ آرائی کے بعد یہ کہنا انتہائی دشوار ہے کہ آئندہ چند دنوں اور چند ہفتوں میں کیا ہوگا، بس یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس بحران میں اضافہ ہوگا اور جتنا اس میں اضافہ ہوا اتنا ہی انتشار اور بدامنی میں اضافہ ہوگا۔

پی ڈی ایم حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان بڑا تنازع انتخابات ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت کی ڈیمانڈ ہے کہ ملک میں انتخابات کرائے جائیں جبکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں انتخابات کے حق میں نہیں۔ ان کا کہنا ہے انتخابات کے دوران امن خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت نے عمران خان کو مختلف مقدمات میں بھی مصروف رکھا ہوا ہے اور عمران خان کی گرفتاری کےلیے کوشاں ہیں۔ اگر عمران خان کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تو یقینی طور پر ملک کا امن خراب ہوگا۔

موجودہ صورتحال میں دونوں سیاسی قوتوں کے مابین رسہ کشی کے باعث ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہورہی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی غیر یقینی صورتحال کے باعث ملک میں پیسہ کم بھیج رہے ہیں۔ مہنگائی کی شرح میں اضافے کی وجہ سے جہاں عوام پریشان ہیں وہیں تاجروں کی جانب سے بھی نئی سرمایہ کاری سے گریز کیا جارہا ہے۔ چھوٹا کاروبار کرنے والے افراد ملکی حالات سے متاثر ہوکر کاروبار بند کررہے ہیں جس سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال سے ٹیکس کی رقم میں کمی آئے گی اور ملک کو مزید نقصان ہوگا۔

یہاں اب اس بحث کا وقت نہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ یہ وقت پاکستان کی بقا کے متعلق سوچنے کا ہے اور اس ضمن میں سب سے اہم یہ ہے کہ ملک سے احتجاج کا خاتمہ ہو، سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی بند ہو اور سیاسی کارکنان کی پکڑ دھکڑ کو بھی روکا جائے۔ سیاسی قائدین کو ایک دوسرے کی پوزیشن کو سمجھنا ہوگا۔ بلاشبہ عمران خان اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کی جماعت کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ عمران خان کی اس مقبولیت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ پی ڈی ایم کی غلط پالیسیاں اور ان کے دور میں ہونے والی مہنگائی ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو عمران خان کی گرفتاری، مقدمات درج کرانے اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو گرفتار کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ عمران خان کو بھی اس بات کو مان لینا چاہیے کہ تمام تر مقبولیت کے باوجود وہ قانون سے بالاتر نہیں، نہ ہی وہ کسی جماعت کو ملکی سیاست سے بے دخل کرسکتے ہیں۔

ماضی میں ایسی صورتحال میں نوابزادہ نصراللہ اور پیر مردان شاہ جیسی شخصیات سیاسی جماعتوں کو ایک ٹیبل پر لانے میں کردار ادا کرتی تھیں۔ افسوس کہ یہ لوگ اب موجود نہیں۔ ایسے میں ملکی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ عدلیہ، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کو مذاکرات سے ملک کے دونوں سیاسی دھڑوں کو ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولا باری اور انتقامی کارروائیوں سے روکنا ہے۔ اس انتشار کے خاتمے کےلیے ملک میں بروقت انتخابات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ ملک میں عبوری حکومت قائم کی جائے اور اس سلسلے میں ملک کی تمام بڑی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ایسے افراد پر مشتمل حکومت بنائی جائے جس سے کسی کو اختلاف نہ ہو۔

ملک میں شفاف انتخابات کےلیے تاخیری حربوں کے استعمال کے بجائے آئینی طریقہ کار کے مطابق عبوری حکومت کو تین ماہ میں انتخابات کرانے کا ٹارگٹ دیا جائے۔ بہتر یہ ہے کہ ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ کے نظام کو رائج کیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو فوج کی مدد لی جائے تاکہ انتخابات میں دھاندلی کے عنصر کو بھی ختم کیا جاسکے۔ سیاسی جماعتیں بھرپور انداز میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کریں پھر عوام جسے چاہیں اپنا مینڈیٹ دیں اور باقی جماعتیں اسے تسلیم کرکے کارکردگی دکھانے کا مکمل موقع دیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ملک کی دیگر جماعتیں منتخب ہونے والی جماعت کی مخالفت کے بجائے ملک کی بہتری کےلیے اس کا ساتھ دیں اور اپنی خدمات پیش کریں۔ اسی طرح جیتنے والی جماعت کے قائدین بھی بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتقامی کارروائیوں کی روایات کا خاتمہ کرے اور سب کو ساتھ لے کر چلے۔

ملک سے اس بحران کا خاتمہ نہ ہوا تو نتائج ہم سب کو بھگتنا ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا ملک کے ادارے یا عوام، اگر ان کی کوئی اہمیت ہے تو اس ملک سے ہے لہٰذا اس ملک میں سیاسی استحکام، قیام امن اور ترقی انتہائی اہم ہیں۔ ملک کو واپس ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کےلیے عام شہری سے لے کر سیاسی قائدین تک اور سیاسی قائدین سے لے کر ملکی اداروں تک سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ملک سے الزام و انتشار کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا اور مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی انا کو ختم کرنا ہوگا اور ملک کی خاطر لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو شاید نتائج ہماری سوچ سے بھی زیادہ خطرناک ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔