بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال


—فائل فوٹو

کہانی بول پڑتی ہے ۔۔۔ پوپ کہانیاں
مصنفہ: ڈاکٹر رضیہ اسماعیل، قیمت:300 روپے، صفحات:136
ناشر:بک ہوم،مزنگ روڈ،لاہور (03014568820)



ادب زندگی ہے، یہ زندگی کے تاروپود بناتا ہے، حالانکہ یہ غیر مادی شے ہے، معاشرے میں پائے جانے والے رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے، غلط اور درست میں فرق کرتا ہے، خیالات کو مثبت سمت عطا کرتا ہے۔ کہانی ادب کی ایسی صنف ہے جو ہمارے اردگرد بکھرے ہوئے موضوعات کو بیان کرتی ہے۔

کہانی طویل بھی ہو سکتی ہے اور مختصر بھی بلکہ اب تو اتنی مختصر کہ دو سطریں بھی کہانی بیان کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، اس مختصر پن کی وجہ وقت کے بدلتے رجحانات ہیں، آج کے انسان کے پاس وقت بہت کم ہے یا شاید وہ خود ہی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام نبٹانے کے چکر میں رہتا ہے اسی چیز نے ادب میں بھی مختصر کہانی کی صنف متعارف کرائی، پھر ایک نئی صنف ' پوپ کہانی ' بھی متعارف ہوئی جو زندگی کے کسی ایک پہلو کو آشکار کرتی ہے مگر ہے کہانی ہی وہ بھی مختصر، اسی لیے اسے جلد از جلد پڑھا جا سکتا ہے اور تحریر کا مزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔

سادگی سے بیان کی گئی کہانی قاری کو اپنے ساتھ چپکائے رکھتی ہے اور یہی کامیاب پوپ کہانی کی نشانی ہے۔ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی پوپ کہانیاں بھی ایسی ہی ہیں۔ معروف ادیب حیدر قریشی کہتے ہیں '' کنگ وینکلس کی دو کہانیوں کے بعد ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اپنی بارہ کہانیاں شامل کی ہیں ۔

ان کی پہلی کہانی '' تھرڈ ورلڈ گرل'' کے اختتام تک پہنچا تو ایسا لگا کہ سچ مچ کوئی گونگی کہانی بول پڑی ہے۔ '' ایئر فریشنر ''صرف برطانیہ ہی کی نہیں اب تو یورپ بھر کے پاکستانیوں کی مجموعی فضا کی ترجمانی کر رہا ہے۔ اور '' آنر کلنگ'' پڑھتے ہوئے ایسا لگا کہ کہانی صرف بول نہیں پڑتی بلکہ بعض اوقات چلاتی بھی ہے۔

قبل از اسلام کے مکہ میں زندہ گاڑ دی جانے والی بیٹیوں کے چیخنے چلانے کی آوازیںبھی اکیسویں صدی کی انوکھی آنر کلنگ میں شامل ہو گئی ہیں۔ مجموعی طور پر ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی یہ کہانیاں اردو افسانے کے سفر کا تسلسل ہیں۔''یہ پوپ کہانیاں ادب میں خوبصورت اضافہ ہیں، ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔

کھوج
مصنف: حیات عبداللہ، قیمت:1500روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔ رابطہ:03000515101



اگلے روز ایک سرکاری کالج میں اردو پڑھانے والی نوجوان لیکچرر کی تحریر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ انھوں نے مضمون میں عظیم المرتبت شاعر علامہ اقبال کا ایک شعر نقل کیا جس میں ایک لفظ دائیں سے بائیں ہوا پڑا تھا۔

عرض کیا کہ علامہ اقبال عالم برزخ میں کھڑے آپ کی طرف شعلہ بار نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ بھلا کرے مضمون نگار کا، بات سمجھ گئیں، نادم ہوئیں اور آئیندہ زیادہ احتیاط برتنے کا وعدہ کیا۔

نوجوان نسل میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنی اصلاح پر جلد آمادہ ہوتے ہیں لیکن بڑی عمر کے لوگوں کے بارے میں عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ چونکہ بڑے ہوتے ہیں۔

اس لیے آسانی سے غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔اگر وہ عمر میں بڑے ہونے کے ساتھ ہی ساتھ دانش ور بھی ہوں تو ان کی غلطی کی نشان دہی سے بعض اوقات لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ اللہ اپنی حفظ و امان میں رکھے زیر نظر کتاب کے مصنف کو، انھوں نے ایک بڑا کام کیا بلکہ اردو لکھنے، بولنے والوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ کلاسیکل شعرا کے اشعار کی صحت کو بگڑنے سے پہلے بچا لیا ہے۔

مصنف لکھتے ہیں:'نو آموز قلم کاروں کو کیا دوش دیں کہ ہمارے بزرگ صحافی بھی اکثروبیشتر اپنے کالموں میں نہ صرف غلط اشعار لکھتے ہیں بلکہ ان ہی غلط اشعار کو اپنی تحریروں میں دہراتے بھی رہتے ہیں۔کلاسیکل شعرا کے کلام پر جس طرح ستم ڈھایا جا رہا ہے، اس سے ادب کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔

حضرت علامہ اقبال کے وہ اشعار بھی غلط لکھ دیے جاتے ہیں، جو زبان زدعام ہیں'۔مصنف ایک قومی روزنامہ سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں،گاہے گاہے اشعار کی صحت پر بھی کالم لکھتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ایسے ہی 22 کالموں کا مجموعہ ہے۔

ان کالموں میں انھوں نے کسی قسم کی مصلحت و مداہنت سے کام نہ لیا، صاف صاف لکھ دیا کہ فلاں معروف شخصیت نے اپنی تحریر میں فلاں شعر غلط لکھا ہے۔ مصنف نے یہ بھی نہ سوچا کہ غلط شعر لکھنے والی کوئی حسیں صورت ہے، کہ اسی بنا پر صرفِ نظر کرلیا جائے، اس کے برعکس بیچ چوراہے ان کی غلطی کی بے دھڑک نشان دہی کر دی۔

مصنف کسی بھی شعر کی تشخیص دو بنیادوں پر کرتے ہیں۔ اوّل: متعلقہ شاعر کے اپنے مجموعہ سے، دوم:کسی بھی شعر کے شاعر کی اپنی زبان سے(آڈیو، ویڈیو کی صورت)۔ انہی بنیادوں پر مصنف نے اپنے کالموں میں سینکڑوں اشعار بہترین صحت کے ساتھ پیش کیے۔کتاب کے آخر میں دو ضمیمے بھی شامل کیے گئے ہیں۔

ایک میں چند ضرب الامثال اشعار مکمل صحت کے ساتھ شامل کیے ہیں جبکہ دوسرے میں ایک ایسے شعر کی بابت بتایا گیا ہے، جسے عمومی طور پر آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ وہ سیماب اکبر آبادی کا ہے۔ افسوس کہ یہ شعر ہمارے ہاں میٹرک کے نصاب میں بھی شامل ہے، جہاں شاعر کا نام بھی غلط اور شعر بھی تحریف زدہ ہے۔تحریف زدہ شعر یہ ہے:

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

جبکہ اصل شعر میں پہلا مصرع کچھ یوں ہے:

عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن

میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب ہر لکھنے، بولنے والے کے لیے زاد راہ کا درجہ رکھتی ہے۔اس اعتبار سے ہمیں مصنف کا ممنون احسان ہونا چاہیے۔ ( تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)

سرمایہ افتخار
مصنف : عقیل یوسف زئی، نظرثانی، تدوین وترتیب:ساجد خان باتور
قیمت: ایک ہزار روپے، ناشر: این زیڈ پرنٹرز توحید مارکیٹ، محلہ جنگی،پشاور



''سرمایہ افتخار'' ہماری ایک ایسی معروف سیاسی شخصیت کی زندگی اور جدوجہد کا احاطہ کرتی ہوئی کتاب ہے جو شخصیت تمام مظلوم و محکوم انسانوں کا افتخار ہے جو محروم طبقات اور قوموں کا افتخار ہے۔''سرمایہ افتخار'' کے نام سے جس کتاب کا ذکر مقصود ہے،یہ خیبر پختون خوا کے ایک نامی گرامی کہنہ مشق صحافی،کالم نویس، اینکر اور افغان امورکے ماہر عقیل یوسف زئی نے لکھی ہے اور یہ بھی ایک ایسا جانا پہچانا نام ہے۔

جس سے ملک اور بیرون ملک کے صحافی اچھی طرح آشنا ہیں،عقیل یوسف زئی صوبے کی سیاسی اتارچڑھاؤ کے ساتھ ساتھ تاریخ پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں،قبل ازیں ان کی لکھی ہوئی چارکتابیں قارئین کو اپنا گرویدہ کر چکی ہیں۔

زیر نظر کتاب کی نظرثانی و تدوین اور اہتمام اے این پی پنجاب کے سیکرٹری ثقافت ساجد خان باتور نے کیا ہے، مذکورہ کتاب میں میاں افتخارحسین کے بچپن سے لے کر تاحال تمام ضروری اور اہم پہلو کو بہت خوب صورت انداز و بیان میں اُجاگر کیا گیا ہے۔

چوںکہ کتاب کے مندرجات اتنے دلچسپ،چشم کشا اور معلوماتی ہیں کہ پڑھنے والا جب ایک بار اس کا مطالعہ شروع کر دیتا ہے تو پہلی سطر ہی اسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور قاری کا تجسس بڑھتا جاتا ہے، عقیل صاحب ان صحافیوں کی فہرست میں سب سے اول درجے پر آتے ہیں جو میاں افتخار حسین کے بہت ہی قریب رہے اور ان کی پوری زندگی، جدوجہد، عادات اور مزاج سے گہری واقفیت رکھتے ہیں جس کی روشنی میں انھوں نے میاں صاحب کی شخصیت کے ان پہلووں کو بھی آشکار کیا ہے جو اب تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ عقیل یوسف زئی کا اپنا ایک مخصوص انداز بیان ہے، ہر باب کی پہلی سطر سے لے کر آخر تک ایسا تسلسل برقرار رکھا ہے جسے فکشن کی زبان میں ''وحدت تاثر'' کہا جاتا ہے کیوںکہ اگرکسی بھی باب کا مطالعہ کرتے وقت ایک لفظ یا ایک سطر بھی ادھر ادھر ہو جائے تو تسلسل اور تاثر کی پوری عمارت جھولنے لگتی ہے، عقیل یوسف زئی کی نہ تو یہ پہلی کتاب ہے اور نہ پہلا تجربہ ہے کہ موصوف اس سے قبل بھی چار کتابوں کے مصنف ہیں خصوصاً حالیہ کتاب ''وار زون'' کو سند قبولیت مل چکی ہے۔

وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی کتاب کیوں،کیسے، کس لیے اور کس کے لیے لکھنی چاہیئے اور ایک اچھے کامیاب لکھاری کی سب سے بڑی خوبی اور پہچان بھی یہی ہے کہ وہ ان وجوہات اور ضروریات سے بخوبی واقف ہو،لہذا مذکورہ کتاب کی ضرورت کیونکر پیش آئی اور اس میں کیا کچھ شامل ہے؟ اس حوالے سے صاحب کتاب عقیل یوسف زئی رقم طراز ہیں کہ '' زیر نظرکتاب میں میاں افتخارحسین کی ذاتی سیاسی زندگی اور جدوجہد کا ممکنہ حد تک احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بہت سے صحافتی، سیاسی اور عوامی حلقے عرصہ دراز سے میاں افتخار اور ان کے قریبی دوستوں سے ایسا کرنے کا مسلسل اصرار کرتے آرہے تھے تاہم میاں افتخار بوجوہ اس کو نظرانداز کرتے رہے، مسلسل اصرار نے ان کے انکار کو اقرار میں بدل دیا تو ان کے علاوہ دیگر دوستوں اور میرے سینئرز کی خواہش رہی کہ یہ کام میں کروں۔

گفتار سے کوئی مرد نہیں بن سکتا جب تک کردار سے اپنی مردانگی ثابت نہ کردے، میاں افتخار حسین کو اب سب لوگ ''غازی میاں افتخار '' کے نام سے لکھتے اور پکارتے ہیں کہ انہوں نے یہ نام اور مقام اپنے صاف ستھرے اُجلے کردار ہی کی بدولت حاصل کیا ہے،کتاب میں میاں صاحب کی ایک پشتو نظم بھی اردو ترجمہ کے ساتھ شامل ہے جو انہوں نے اپنے اکلوتے شہید صاحب زادے میاں راشد حسین کے فراق میں لکھی ہے، اسی طرح میاں صاحب کا لکھا ہوا ایک پشتو افسانہ ''سور سائیکل'' (سرخ سائیکل) بھی شامل ہے جو انہوں نے دوران اسیری لکھا ہے۔

''سرمایہ افتخار'' بہت بڑا سرمایہ ہے، اسے پڑھنا اور اپنی لائبریری کی زینت بنانا چاہیے۔

تجلیات نبوت ( نیو ایڈیشن )
مصنف : مولانا صفی الرحمن مبارک پوری مرحوم ، صفحات : 295
قیمت : 1795روپے ، ناشر : دارالسلام انٹر نیشنل لوئر مال ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ ، لاہور




پیش نظر کتاب '' تجلیات نبوت '' دارالسلام کی خوبصورت ترین کتابوں سے ایک ہے۔ اس کتاب کے تعارف میں اتنا ہی لکھ دینا کافی ہے کہ اس کے مصنف ممتاز محقق، عالم اسلام کے معروف عالم دین اور سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارک پوری ہیں جو کہ '' الرحیق المختوم '' جیسی کتاب کے بھی مصنف ہیں۔

سیرت نگاری ایک اہم ترین موضوع ہے۔ اس کا مطالعہ بالعموم ہر انسان اور بالخصوص ہر مسلمان کے لئے از حد ضروری ہے۔ تاریخِ انسانی میں انبیاء علیھم السلام کی سیرت کا اس عہد کے ظلمات میں سب سے روشن اور منور کردار رہا ہے لیکن مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے ان پیکرانِ صدق و صفا کی صورت گری اور تصویر کشی میں کچھ ایسے افراط و تفریط سے کام لیا ہے کہ یہ سیرتیں چیستان بن کر رہ گئی ہیں۔

اس میں واحد استثنا رسولِ اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی ہے کہ جن کی حیاتِ مقدسہ اور خدماتِ جلیلہ کے تذکرے کو کم و بیش پانچ لاکھ سوانح نگاروں نے کسی نہ کسی شکل میں محفوظ رکھا ہے۔ سیرتِ طیبہ کا موضوع اتنا متنوع ہے کہ ہر وہ مسلمان جو قلم اٹھانے کی سکت رکھتا ہو، اس موضوع پر حسبِ استطاعت لکھنا اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ دارالسلام اب تک عربی اور انگریزی زبان میں سیرتِ رسول ﷺ پرمختلف عالمی زبانوں میں 90 سے زائد کتب شائع کر چکا ہے۔

تاہم نوجوان نسل کو تفاصیل میں لے جائے بغیر سیرتِ طیبہ سے آگاہ کرنے کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہوئے عصرِ حاضر کے عظیم سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ سے درخواست کی گئی کہ عربی زبان میں نوجوانوں اور بطورِ خاص میٹرک تک کے طلبہ کے لیے ایک مختصر مگر جامع کتاب سیرتِ رسول پر لکھیں جو عام فہم اور صحیح واقعات پر مبنی ہو اور اس کا انداز اتنا دلکش ہو کہ نوجوانوں کے دلوں میں رسول اللہﷺ کی محبت اور سیرت نقش ہو جائے۔

انھوں نے اس التماس کو شرفِ قبولیت بخشا اور تھوڑے ہی عرصہ بعد ''روضۃ الا نوار فی سیرۃ النبی المختار'' کے نام سے کتاب کا مسودہ تیار کر دیا۔کتاب شائع ہوئی تو سعودی عرب کے متعدد تعلیمی اداروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ زیرنظرکتاب'' تجلیات نبوت'' اسی کا اردو ترجمہ ہے۔

فاضل مصنف نے کمال ہنرمندی سے ''تجلیاتِ نبوت'' میںسیرت کے تمام تر وقائع کو ایک ایسی نئی ترتیب اور تازہ اسلوب کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اس کے مطالعے سے دل و دماغ پر ایک پاکیزہ نقش قائم ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سیرت نگار کو ایک پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔ کتاب کو ایک نظر دیکھتے جائیے، اس میں دعوتِ اسلامی کے تمام مراحل اور اس کی پیش آمدہ دشواریوں کا مناسب تذکرہ موجود ہے۔

تکالیف اور مصائب کے طوفانوں میں وحیِ الٰہی کس طرح سے نصرتِ الٰہی کے راستے پیدا کرتی ہے، اس کا ایمان افروز بیان ملتا ہے۔ واقعاتِ سیرت کی صحت میں مصنف نے مستند ماخذوں تک رسائی حاصل کی ہے اور اس تلاش و جستجو کا یہ نتیجہ ہے کہ ان کے ہاں اصولِ دین سے متصادم کوئی واقعہ نہیں ملتا۔سیرت نگاری کے اس فن میں صحتِ واقعات کی تلاش میں یہ احتیاط اور ضبط لائقِ تحسین ہے۔ دارالسلام جسے دینی اور دعوتی لٹریچر کو عالمی سطح پر جدید اسلوبِ طباعت کے ساتھ پیش کرنے کا شرف حاصل ہے، اس نے''تجلیاتِ نبوت'' کے اس نئے ایڈیشن کو نہایت معیاری طباعت کے ساتھ پیش کیا ہے۔

کتاب میں چہار رنگوں پر مشتمل تین شجرے بھی شامل کئے گئے ہیں۔ پہلا شجرہ بنوعدنان سے شروع ہوتا ہے، دوسرا شجرہ بنو قحطان کے بارے میں ہے جبکہ تیسرا شجرہ امام الانبیاء علھیم السلام کے بارے میں ہے۔

ان شجرات نے کتاب کوچار چاند لگا دیے ہیں۔ اس طرح سے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اپنے تحقیقی مواد اور لوازم، عام فہم اسلوب اور موزوں واقعاتی ترتیب کے باعث یہ تالیف ِ سیرت ان شاء اللہ العزیز نوجوانوں او ر عامۃ المسلمین میں قبولِ عام کا درجہ حاصل کرے گی۔ کتاب درج ذیل ایڈریس دارالسلام 36 لوئر مال روڈ نزد سیکرٹریٹ سٹاپ لاہور پر دستیاب ہے یاکتاب براہ راست حاصل کرنے کیلئے درج ذیل فون نمبر 042ا37324034 پر رابطہ کیاجا سکتا ہے۔

حیرت بھری آنکھ میں چین
مصنفہ:سلمیٰ اعوان


چین ہمارے خطے کا وہ ملک ہے جو کئی حوالوں سے بے مثال حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں غربت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ چین ایسا ملک ہے جس کی سرحدیں 14 ملکوں کے ساتھ ملتی ہیں یوں یہ سب سے زیادہ ہمسائے رکھنے والا ملک ہے۔

اس کی وسعت اتنی ہے کہ ملک کے طول و عرض میں آپ کو پانچ ٹائم زون ملیں گے۔ چین دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے جو دریائے زرد 'Yellow Revir' کے کناروں پر پروان چڑھی۔ موجودہ نسل انسانی کا وجود چین میں ایک لاکھ 25 ہزار سے 80,000 برس قبل سے ثابت ہے۔

وہ تہذیب جس نے زمانے کو کاغذ اور چھاپے خانے جیسی انقلابی ایجادات سے روشناس کرایا اور سب سے بڑھ کر رسول اکرمؐ کی وہ حدیث کہ ''علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے'' اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ چین کے ساتھ علم کا تعلق ضرور قائم رہے گا۔

چین نہ صرف پاکستان کا قریبی ہمسایہ ملک ہے بلکہ ایسا ہمسایہ ہے جس کے ساتھ پاکستان کے تزویراتی مفادات پر مبنی قریبی تعلقات قائم ہیں۔ یہ تعلق اور راوبط سرکار سے لے کر عوام تک ہر سطح پر پھیلتے چلے جا رہے ہیں اور اس میں چینی حکومتوں کی پالیسیوں کے تسلسل نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان میں چین اُن چند ممالک میں شامل ہے جنہیں عوامی سطح پر مخلص دوست ملک کی حیثیت حاصل ہے اور پاکستان کے حوالے سے چین کے عالمی کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کا اظہار تخلیقی سرگرمیوں میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

گزشتہ برس جولائی کے مہینے میں محمد کریم احمد کی کتاب 'چین سے چین تک' شائع ہوئی تھی۔ محمد کریم احمد ریڈیو پاکستان لاہور میں سینئر پروڈیوسر ہیں اور 2015 سے 2018 تک بیجنگ میں چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل میں بطور ماہر امور خارجہ تعینات کئے گئے تھے۔ انہوں نے چین میں اپنے تین سالہ قیام کے دوران جو تجربات حاصل کئے، چینی معاشرے کے بارے میں جو محسوس کیا اسے کتاب کی شکل دے دی جو اپنی جگہ پر چین سے شناسائی حاصل کرنے میں بہت مددگار ہے۔

اس حوالے سے حال ہی میں ایک اور کتاب شائع ہو کر سامنے آئی ہے جو ملک کی معروف مصنفہ اور سفرنامہ نگار محترمہ سلمٰی اعوان کے چین میں گزرے دنوں کا احوال بیان کرتی ہے۔

اس سے پہلے سلمیٰ اعوان کے ''روس کی ایک جھلک'' کے نام سے شائع ہونے والے روس کے سفرنامے کو غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کا چین کا سفرنامہ بھی اپنے دلچسپ انداز بیان کے لحاظ سے اُسی معیار کا ہے جیسا ان کا پہلا سفرنامہ تھا۔ سلمیٰ اعوان کے انداز تحریر کا خاص وصف ان کا بے ساختہ پن ہے۔

وہ عام دیسی انداز میں بات کرتی ہیں جس میں تصنع اور بناوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اس سفرنامے کو پڑھتے ہوئے وہ کرب اور دکھ بھی جابجا محسوس ہوتا ہے جو کم و بیش آگے پیچھے آزادی حاصل کرنے والے چین اور پاکستان کے مابین ترقی اور کامیابیوں کے فرق کو دیکھتے ہوئے ہر محب وطن پاکستانی کے دل میں پیدا ہونا لازمی ہے۔

اس کتاب میں چین کے عالمی شہرت یافتہ سیاحتی مقامات کی سیاحت، اہم چینی شخصیات سے ملاقاتوں کا احوال، چینی کھانوں، ثقافت، روایات اور دیگر اُن تمام تجربات کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے جن سے مصنفہ اپنے چین میں قیام کے دوران گزریں۔

اس کتاب کی پیشکش کا انداز شاندار ہے، مگر تصاویر کی کمی محسوس ہوتی ہے جو کسی سفرنامے میں ضرور شامل ہونی چاہیں۔ اسے بُک کارنر اقبال لائبریری روڈ جہلم 0321-5440882 00-42-544-278051 نے شائع کیا ہے۔ قیمت 250 روپے ہے۔(تبصرہ نگار: غلام محی الدین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔