نزدیک کے سہانے ڈھول

خالد محمود رسول  ہفتہ 27 مئ 2023

آپ ٹی وی دیکھ رہے ہیں؟ جی نہیں، ہم نے جواب دیا۔ بھائی، یہاں انگلینڈ میں آج نئے بادشاہ چارلس کی تاج پوشی ہے، لائیو دکھائی جا رہی ہے؛ دوسری طرف ہمارے دیرینہ دوست سلیم سولنگی فون پر تھے۔ اوہ! مجھے معلوم تو ہے لیکن ٹی وی آن نہیں کیا، ابھی دیکھتا ہوں کہ کیا رونق ہے۔

جواب ملا؛ رونق تو خیر جو ہے سو ہے لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ تاج پوشی کی تقریب میں تمام سابق وزرائے اعظم شامل ہیں۔ کیا خوب صورت منظر ہے ، جان میجر، ٹونی بلئیر سے لے کر تمام سابق وزرائے اعظم موجود ہیں، سیاسی مخالفت کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ آسودگی سے بیٹھے ہوئے ہیں۔

مجھے یہ منظر اتنا خوبصورت لگا کہ خواہش ہوئی کہ آپ اور ہر پاکستانی یہ منظر دیکھے، سیاسی اختلاف اور مخالف نظریات کے باوجود قومی وقار کے موقعے پر سب شیر و شکر اکٹھے موجود ہیں۔

قومیں اس طرح بنتی ہیں، سیاسی اختلاف ذاتی اور جانی دشمنی کا نام نہیں کہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور شکل دیکھنے کے روادار نہ ہوں، کاش ہمارے پاکستانی سیاست دانوں میں بھی یہ احساس پیدا ہو سکے۔

ہم نے اپنے دوست سلیم سولنگی کو تسلی دی کہ اس منظر کو دیکھ کر زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں گوروں کی ایسی روایات پسند نہیں، بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ’ رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے‘ کی آڑ لے کر مخالف سیاستدان اکٹھے بیٹھ گئے۔

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ان کے دلوں میں ابھی تک سختی کا وہ مقام نہیں آیا جہاں بے اختیار دل کی ہر دھڑکن کے ساتھ یہ صدا بلند ہو کہ نہیں چھوڑیں گے، غدار ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں تو بڑی دیر سے یہ یقین تھا کہ گوروں کے ہاں دوستی اور دشمنی میں وہ پختگی نہیں ہے جو ہمارے ہاں ہے۔

ہمارے دیہاتی ہاں تو دشمن داری اور مخالفت میں چاہے زمین بک جائے، اپنا کباڑہ ہو جائے، مگر’ شریک‘ یعنی دشمن سے دشمنی نبھانا ہی سب سے بڑا اخلاقی معیار ہوتا ہے۔ اگر کہیں دشمنی کی لو مدہم پڑے تو آس پڑوس کے لوگ طعنوں سے حوصلہ جوان رکھتے ہیں۔

ہاں البتہ اگر ہمت بے سدھ ہو جائے یا مفاد کا پلڑا بہت بھاری ہو جائے تو الگ بات ہے۔ سو صاحب، ان گوروں کو ہماری طرح دشمنی نبھانی آتی ہے اور نہ دوستی۔ نہ بابا نہ، ہم دوستی دشمنی میں اپنے معیار پر ہی بھلے۔

ایک سلیم سولنگی ہی کیا بہت سے اوور سیز پاکستانی ہیں جنہیں سات سمندر پار سے بھی ہماری چھوٹی بڑی باتوں کے ڈھول سہانے نہیں لگتے جبکہ ہمیں قریب ہوتے ہوئے بھی یہ ڈھول سہانے لگتے ہیں۔

امریکا سے ایک پاکستانی نژاد ماہر معیشت بار بار یہ گلہ کر رہے ہیں کہ گو پاکستان نے ڈیفالٹ کا اعلان نہیں کیا اور لشٹم پشٹم ڈنگ ٹپاؤکام چلا رہا ہے لیکن جن وجوہات نے ڈیفالٹ کا سماں باندھا ، ان وجوہات کو درست کرنے کی کوششیں نہیں ہو رہیں۔

انہوں نے گذشتہ سال ڈیفالٹ کرنے والے دو ممالک سری لنکا اور گھانا کا موازنہ کرتے ہوئے صلاح دی کہ تیل کی قیمتیں اب بھی پاکستان میں نسبتاً کم ہیں۔ کرنسی کے بھاؤ کا یہ عالم ہے کہ ڈیفالٹ کے باوجود سری لنکا اور گھانا کی کرنسی کی ویلیو نسبتاً کم گری ہے، کرنسی سنبھالنے کے چکر میں پیداواری عمل کے لیے ضروری درآمدات کو ایل سی کنٹرول کی چھلنی کے حوالے کرنے سے ملکی پیداواری یعنی جی ڈی پی میں کمی کا خطرناک راستہ چنا گیا ہے۔

رواں مالی سال میں جی ڈی پی منفی 0.3% ہے ۔ اس سے قبل کے اعداد و شمار کے مطابق امسال بڑے پیداواری سیکٹر میں25%کمی ہوئی ۔ افراطِ زر سرکاری حساب کے مطابق 37% ہے۔ اس میں خورو نوش اشیائ، انرجی، ٹرانسپورٹ، دیہی اور شہری علاقوں میں الگ الگ اعدادوشمار دیکھیں تو دن میں تاروں کے نکلنے کا گمان ہونے لگتا ہے۔

سچی بات ہے کچھ دیر تک ہم نے بھی ان اعداد و شمار کو سات سمندر دور کی نظر سے دیکھا تومعیشت کا ڈھول سہانا نہ لگا۔ کچھ دیر پریشانی رہی لیکن پھر بھلا ہو میڈیا کا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پے در پے دو بیانات سنے تو لگا کہ معیشت بالکل درست سمت جا رہی ہے، صرف شرط یہی سمجھ آئی کہ وہ سمت اسی رخ سے دیکھی جائے جہاں سے وزیر خزانہ دیکھتے ہیں۔ اگر پھر بھی پریشانی قائم رہے تو ان کی لگاتار دو پریس کانفرنسز دیکھیں، آپ کو بھی معیشت کے تمام ڈھول نزدیک سے بھی سہانے لگیں گے۔

یہ دنیا ہے اور کسی نہ کسی پر بھروسہ کرنا ہی پڑتا ہے، اسی لیے ہم نے بھی میاں نواز شریف کی طرح اسحاق ڈار پر مکمل بھروسہ کرنا سیکھ لیا ہے۔

اس سے دل کو تشفی اور اطمینان حاصل ہو گیا ہے۔ کچھ بد خواہ جب یہ گلہ کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام ابھی تک بحال نہیں ہو سکا تو ہم انہیں صاف بتاتے ہیں کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف کو آئی ایم ایف سے بہتر سمجھتے ہیں۔ وزیر خزانہ تو اپنا کام فروری سے کر کے بیٹھے ہوئے لیکن آئی ایم ایف کے پسینے ہی خشک نہیں ہو رہے، ہر بار پاؤں پیچھے کھسکا لیتے ہیں۔

رہی یہ بات کہ اس کے باوجود ملک اپنے زر مبادلہ کی ضروریات کیسے پوری کر رہا ہے، بہت حکیمانہ نسخہ زیر عمل ہے، برادر ملک چین کے ساتھ ہماری دوستی ناپ تول کے مطابق سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی ہے اوریہ ہم انہیں بار بار باور کرا چکے ہیں۔

اب تو باہمی ذہنی ہم آہنگی کا یہ عالم ہے کہ ہم ابھی فقرہ بھی پورا نہیں کر پاتے کہ ہماری دوستی سمندر… کہ وہ کاغذ قلم سنبھال کر پوچھتے ہیں کہ کتنے ارب ڈالرز رول اوور کرنے ہیں۔

کچھ یہی ہم آہنگی برادر ملک سعودی عرب اور عرب امارات کے ساتھ ہے ۔ اِدھر ہم نے یاد دہانی کرائی کہ ہمارا آپ کا برادرانہ رشتہ… اُدھر انہوں نے فوراٌ پوچھا کتنے ملین ڈالرز ڈیپازٹ چاہییں۔ اس حسن انتظام کے ہوتے ہوئے وزیر خزانہ بالکل حق بجانب ہیں کہ اب یہ مسئلہ آئی ایم ایف کا ہے چاہے تو آئے ورنہ… ہم نے جب سے اس حق الیقین کے ساتھ معیشت کو دیکھا ہے نزدیک کا بھی ہر ڈھول سہانا ہی لگا !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔