کچی آبادیاں تجاوزات آپریشن اور متاثرین

نالوں پر تجاوازت کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد آج بھی دربدر ہیں


گجر نالہ آپریشن میں لگ بھگ ساڑھے سات ہزار کے قریب خاندان بے گھر ہوئے۔ (فوٹو: فائل)

چار بچوں کی ماں سونیا یعقوب ان ہزاروں متاثرین میں سے ایک ہیں جن کے مکانات تجاوزات میں شمار کرکے مسمار کردیے گئے تھے۔ سونیا یعقوب کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں وہ بچوں کا پیٹ پالیں، ان کی تعلیم کے اخراجات پورے کریں یا گھر کا کرایہ بھریں؟ یہ نوحہ صرف سونیا کا ہی نہیں بلکہ گجر نالہ تجاوزات کے ہزاروں متاثرہ خاندانوں کا ہے۔


2020 میں محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی شہر میں 484 ملی میٹر (ملی میٹر) بارش ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ 90 سال میں ریکارڈ کی گئی سب سے زیادہ بارش تھی۔ اس طوفانی بارش نے شہر کو مفلوج کردیا اور شہر میں سیلابی صورتحال تھی۔ جس کی بنیادی وجہ نالوں کی صفائی نہ ہونا قرار دی گئی۔ سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر نالوں پر تجاوازت کے خلاف آپریشن کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے۔


سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گجر نالہ کراچی کے 38 بڑے نالوں میں سے ایک ہے، جو اٹھائیس کلومیٹر طویل ہے۔ یہ نالہ نیو کراچی سے ایف سی ایریا تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ نالہ نیو کراچی، گودھرا، لیاقت آباد، بفرزون، گلبرگ، موسیٰ کالونی اور ایف سی ایریا سے گزرتا ہے۔ گجر نالے کے اردگرد بتیس ہزار گھر تعمیر تھے۔ تجاوزات کے خلاف ہونے والے اس آپریشن میں لگ بھگ ساڑھے سات ہزار کے قریب خاندان بے گھر ہوئے۔


شہری منصوبہ ساز آرکیٹیکٹ عارف حسن کا کہنا ہے کہ شہر میں بارش کے بعد سیلابی صورتحال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شہر کے آؤٹ فالز، جہاں سے پانی سمندر میں داخل ہوتا ہے، ان کو وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ محدود کردیا گیا ہے۔ چنانچہ جہاں رکاوٹیں ہیں ان محلوں میں پانی جمع ہوجاتا ہے اور نکاسی نہ ہونے کے باعث پانی نہیں نکلتا۔ عارف کا کہنا ہے کہ نالوں کی صفائی ضروری ہے لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ مکان گرادیں۔ اس سے مراد ہے کہ جو کوڑا کرکٹ وہاں جمع ہوتا ہے اسے آپ اٹھالیں تاکہ صفائی ہوسکے۔


این ای ڈی یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر ڈپارٹمنٹ کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد نے اس مسئلے کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ شہر کےلیے براڈوے سروے کی ضرورت ہے، جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ پانی کا جو مجموعی طور پر بہاؤ ہے، وہ کن راستوں سے ہے، اور ان راستوں کو لوگوں کو نقصان پہنچائے بغیر کس طرح نالوں سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔ نالوں کو محفوظ بنانے کےلیے ایسے ڈیزائن کیے جاسکتے ہیں جس کے ذریعے سے جو نالوں کی اپنی گنجائش ہے اس کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جاسکے۔ جبکہ ان پر اس نوعیت کی کورنگ کرنی چاہیے جس سے عوام کو آمدورفت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور نہ ہی ان کی جان کو خطرات لاحق ہوں۔


کیا سندھ حکومت کی جانب سے متاثرین کو کوئی متبادل یا پھر کوئی رقم فراہم کی گئی؟ اس سوال کے جواب میں سونیا یعقوب کا کہنا ہے کہ جب گجر نالے پر گھر مسمار کرنے تھے تو سپریم کورٹ نے گھر مسمار کرنے کے ساتھ ایک آرڈر دیا تھا کہ انہیں متبادل فراہم کیا جائے گا۔ متبادل پر تو اب تک عمل نہیں ہوا۔ جبکہ حکومت نے جو چیک جاری کیے وہ بھی صرف پچاس فیصد کو ملے، اور نہ ہی صحیح طریقے سے سروے کیا گیا۔


مسمار کیے گئے ایک ایک گھر کے اندر چار چار، چھ چھ خاندان رہتے تھے۔ تاہم حکومتی سروے کے دوران ایک پلاٹ پر ایک آئی ڈی لگادی گئی۔ سونیا کا سوال ہے کہ اگر ایک گھر میں چھ خاندان رہتے تھے اور ایک کو چیک مل رہا ہے تو باقی خاندان کہاں جائیں گے؟


اکتوبر 2021 میں سندھ کابینہ نے کراچی میں نالوں پر تجاوزات کے خاتمے سے متاثرہ افراد کی بحالی کےلیے سفارشات کی منظوری دی تھی اور اب جمعرات 25 مئی کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرصدارت وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں تین نالوں کے متاثرین کو آباد کرنے کےلیے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے 248 ایکڑ رقبے پر 6500 ہاؤسنگ یونٹس تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔


وزیر بلدیات ناصر شاہ نے کابینہ کو بتایا کہ متاثرہ افراد کو ماہانہ 15000 روپے کرایہ دیا جارہا ہے۔ اس منصوبے پر تقریباً 10 ارب روپے لاگت آئے گی جبکہ اس کے PC-I کی منظوری وزیراعلیٰ سندھ دے چکے ہیں۔ اس حوالے سے اربن ریسورس سینٹر کے زاہد فاروق کا کہنا ہے کہ 2021 کے بجٹ میں ان متاثرین کی بحالی کےلیے دو ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا جبکہ مالی سال 23-2022 کے بجٹ میں بحالی کے کاموں کےلیے مختص اس رقم کو بڑھا کر 9 ارب روپے کردیا گیا تھا۔


لیکن بحالی کےلیے مختص یہ رقم متاثرین پر تو نہیں خرچ کی گئی۔ متاثرین کو دو سال تک کرایے کی مد میں فی گھرانہ پندرہ ہزار ماہانہ دیے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا، تاہم یہ رقم کچھ گھرانوں تک پہنچ پائی ہے جبکہ زیادہ تر متاثرین کو ایک ہی قسط ملی ہے۔


کراچی میں سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے تحت 575 سے زائد بستیاں رجسٹرڈ ہیں، جبکہ 800 سے زائد گوٹھ 'سندھ گوٹھ آباد اسکیم' کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ لیکن کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں جھگی جھونپڑیاں، کئی کچی آبادیاں اور گوٹھ ایسے ہیں جن کے متعلق حکومتی اعداد و شمار موجود نہیں۔ اس صورتحال میں اگر دیکھا جائے تو تجاوزات کے خلاف آپریشن میں تو زیادہ تر لوئر اور لوئر مڈل کلاس ہی نشانہ بنتے ہیں۔ تو کیا اس میں لینڈ مافیا کا کردار نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟


اس سوال کے جواب میں عارف حسن کا کہنا ہے کہ گجر نالہ لیاری ایکسپریس وے سے ناردرن بائی پاس تک جاتا ہے۔ یہ بہت اہم شاہراہ بنتی ہے اور اسی واسطے تیس فٹ کی سڑکیں بنائی گئی ہیں تاکہ یہ رئیل اسٹیٹ کےلیے آگے چل کر استعمال ہوسکیں۔ ڈاکٹر نعمان احمد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن عام طور پر عوام کےلیے اور خاص طور پر غریب طبقے کےلیے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ یہاں پر غیر قانونی طور پر آباد ہیں اور ان کو ہٹاکر شاید یہ مقصد حل ہوسکے گا۔ لیکن جہاں جہاں یہ کارروائی ہوئی، وہاں اندازہ یہی ہوا ہے کہ اس کے اصل مقاصد دراصل کچھ اور تھے۔


ڈاکٹر نعمان کا کہنا ہے کہ ری سیٹلمنٹ عام طور پر ایک پیچیدہ مسئلہ ہوتا ہے اور جیسا کہ ہمارا عام ماحول ہے، اس میں دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ری سیٹلمنٹ کے بعض کیسز میں جہاں منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے، مناسب ایکشن بھی ہوتا ہے، وہاں بھی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔


لیاری ایکسپریس وے کا جو ری سیٹلمنٹ پراجیکٹ تھا، کسی حد تک اس کےلیے سرکاری کارروائی کی گئی تھی۔ متعلقہ محکمے نے اس کےلیے لسٹیں بھی بنائی تھیں، عدالت کے فیصلوں کے نتیجے میں ان لسٹوں میں تبدیلی بھی آئی۔ ان سب مراحل کے باوجود جب ری سیٹلمنٹ کا اصل کام ہوا تو یہ اندازہ ہوا کہ ری سیٹلمنٹ میں پلاٹوں کی تقسیم بھی ہوگئی اور معاوضے بھی ادا کیے گئے لیکن جو اصل متاثرین تھے، ان تک وہ رقم نہیں پہنچ سکی اور وہ بعض کیسز میں عدالتوں اور متعلقہ محکموں کے چکر کاٹتے نظر آئے۔


شہر قائد میں بسنے والوں کا ایک بنیادی مسئلہ رہائش کی عدم دستیابی ہے۔ اس حوالے سے حکومتی اداروں کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے۔ صائب ہوگا کہ متاثرہ افراد کی بحالی کےلیے نہایت شفاف نظام مرتب کیا جائے اور کسی بھی قسم کی کرپشن کی تمام راہیں مسدود کرتے ہوئے نہ صرف متاثرین کو متبادل رہائش فراہم کی جائے بلکہ اصل حقداروں کو معاوضہ بھی فراہم کیا جائے تاکہ سونیا یعقوب جیسے ہزاروں تجاوزات آپریشن کے متاثرین کو انصاف مل سکے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں