بلوچستان، مفاہمت اور سیاسی حل

سلمان عابد  منگل 30 مئ 2023
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

بلوچستان کا مقدمہ سیاسی نوعیت کا ہے۔ اسے محض انتظامی ، قانونی اور طاقت کی بنیاد پر حل کرنا مسئلہ کا حل نہیں بلکہ اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ ریاست کو جو بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان میں ایک اہم اورتوجہ طلب مسئلہ بلوچستان کے حالات بھی ہیں۔

ملک میں انتہا پسندی ،دہشت گردی ، محرومی کی سیاست یا ریاست سے ناراض طبقہ کا جو مسئلہ ہے ان میں بلوچستان سرفہرست نظر آتا ہے۔

اسی طرح بلوچستان میں خارجی ، علاقائی یا بھارت کی مداخلت کے معاملات بھی حالات کے بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔جو لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہم بلوچستان کا مسئلہ سیاسی بنیادوں کے بجائے طاقت کی بنیاد پر حل کرلیں گے ان کو بھی کئی محاذوں پر ناکامی کا سامنا ہے۔

پاکستان کی قومی ترقی اور بالخصوص علاقائی ترقی جس میں سی پیک جیسا معاہدہ بھی شامل ہے اس کی جڑت بھی بلوچستان کے سازگار حالات سے ہی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ ایسے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں جو وہاں کے حالات کو بہتر بنانے میں مدد دے سکیں۔

حالیہ دنوں میں بلوچستان میں کالعدم تنظیم ’’بلوچ نیشنل آرمی ‘‘کے سربراہ گلزار امام شنبے نے خود کو ریاست کے سامنے سرنڈر کردیا ہے اس میں یقینی طور پر ہماری سیکیورٹی فورسزاور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار اہم ہے ۔

بلوچ نیشنل آرمی کے سربراہ گلزار امام شنبے نے چار اہم باتیں کی ہیں۔ اول، ان کے بقول ریاست کے خلاف لڑائی کا راستہ یا مسلح جدوجہد غلط تھی اور بلوچستان کے مسائل کاحل یا ان کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں سیاسی اور آئینی راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ مسلح جنگ مسائل کو گھمبیر بناتی ہے اور اس سے ہمیں گریز کرنا ہوگا۔

دوئم، کچھ داخلی، علاقائی یا عالمی طاقتیں ہمیں یا بلوچ قوتوں کو پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں اور ان کے سامنے ہمارے حقوق یا اہداف کے مقابلے میں اپنے مفادات کی زیادہ اہمیت ہے اور اس کا نقصان بلوچ لوگوں کا ہی ہو رہا ہے۔

سوئم، بلوچ نوجوان مسلح جدوجہد کے استعمال سے گریز کریں اور اپنا وقت ضایع نہ کریں اور بلوچستان کی تعمیر نو یا ترقی میں حصہ ڈالیں۔ چہارم، ہم مسلح جدوجہد میں ہونے والی ہلاکتوں پر شرمندہ ہیں، معافی مانگتا ہوں اور ہمیں پوری امید ہے کہ موجودہ حالات میں ریاست مخالف رویہ کے بعد ریاست ہمیں دیانت داری اور سنجیدگی سے اصلاح کا موقع فراہم کرے گی۔

بلوچ کالعدم تنظیم کے سربراہ کا ریاست کے سامنے سرنڈر کرنا اور خود کو سیاسی اور آئینی جدوجہد تک محدود کرنے کا عزم لائق تحسین ہے۔ اس کی ہر سطح پر پذیرائی ہونی چاہیے۔یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ریاست عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات اور ایسے ماحول کو جنم دیتی ہے۔

جہاں مسلح جدوجہد کرنے والے اپنے راستے کو غلط اور ریاستی رٹ کو تسلیم کرنے کو درست سمجھتے ہیں۔یہ امر اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ صلاحیت رکھتی ہیں کہ وہ انتہا پسندی ، دہشت گردی اور مسلح سطح کی جدوجہد سے نمٹنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے سیکیورٹی اداروں نے جو کمال بہادری دکھائی وہ بھی قابل تعریف ہے ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں بلوچستان کے معاملات میں زیادہ سنجیدگی دکھانی ہوگی ۔

ماضی کی غلطیوں سے جو بھی خود کو علیحدہ کررہا ہے ان کو نہ صرف اصلاح کے مواقع فراہم کرنے ہونگے بلکہ ان کو دیانت داری کے ساتھ قومی ترقی کے سیاسی ومعاشی دھارے میں بھی شامل کرنا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ بالخصوص ناراض بلوچ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جاتی سطح پر ساتھ جوڑنا ہوگا ۔

ان ناراض نوجوانوں کو نہ صرف معاشی اور سماجی سرگرمیوں کا حصہ بنانا ہوگا بلکہ ان سے مکالمہ کرنا ہوگا اور جو بھی ان میں غلط فہمیاں ہیں ان کو دور کرنا بھی حکومت کی بنیادی ترجیح ہونی چاہیے۔

جو بھی دشمن ہے وہ ہر صورت میں بلوچستان کے حالات میں بگاڑ پیدا کرکے مجموعی طور پر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔کیونکہ یہ کسی بھی طور ممکن نہیں کہ جو لوگ مسلح جدوجہد کررہے ہیں ان کو کسی دوسرے ملک کی حمایت حاصل نہ ہو۔بیرونی مداخلتوں کی کڑی نگرانی اور جوابدہی کے نظام کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے داخلی مسائل اور بالخصوص محرومی کی سیاست کو ختم کرنا بھی ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔

کیونکہ جب قومی سطح پر مسلح جدوجہد کرنے والے یا ان کی حمایت کرنے والوں کو اپنے مسائل کا حل آئینی ، قانونی اور سیاسی راستے سے ملے گا اور ان کو اپنے حقوق ملتے ہوئے نظر آئیں گے تو اس کا نتیجہ مسلح جدوجہد کو کمزور کرنے کے طو رپر سامنے آتا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو باہر بیٹھے افراد جو مسلح جدوجہد یا ریاست سے ٹکراؤ کا درس دے رہے ہیں یا ان کو عملی طور پر میدان میں اتارہے ہیں۔

ان نوجوانوں میں جو محرومی کی سیاست کی بنیاد پر غصہ یا نفرت پیدا کی جارہی ہے اس کا ریاستی سطح پر سدباب ہونا چاہیے۔جو لوگ بھی مسلح جدوجہد سے انکار کررہے ہیں ان کو ساتھ ملا کر ہی آگے بڑھنے کی حکمت عملی سود مند ہوگی۔

اسی طرح ریاستی محاذ پر ہمیں بلوچستان میں موجود عملی گورننس کے نظام کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ ہم وہاں کیا کچھ لوگوں کو دے رہے ہیں۔ بالخصوص ان کے بنیادی نوعیت کے حقوق جن میں تعلیم ، صحت ، روزگار،انصاف، بولنے کی آزادی، نقل و حمل ، سیکیورٹی یا تحفظ جیسے امور ان میں حکومتی نظام کے بارے میں لاتعلقی کو پیدا کرنے کا ہی سبب بنتا ہے ۔ ایک اچھا گورننس یا حکمرانی کا نظام جو مقامی سطح پر خود مختار بھی ہو ، با اختیار بھی ہو اور کچھ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو تو اس کی مدد سے لوگوں کو ریاستی اور حکومتی نظام سمیت گورننس کے نظام یا حمایت کی طرف لایا جا سکتا ہے۔

اس کے لیے خاص طور پر ہمیں خود مختار مقامی حکومتوں کا نظام درکار ہے جہاں شہریوں کی مثبت شراکت کی مدد سے مقامی حکمرانی کو منصفانہ اور شفاف بنانے میں مدد ملے گی۔ یہ ہی نظام بلوچستان میں موجود لوگوں میں ریاست کے بارے میں مثبت ساکھ کو قائم کرنے میں مدد بھی فراہم کرے گا۔ ہم قومی سطح پر کھڑے ہوکر بلوچستان کے مسائل سے خود کو علیحدہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی بلوچستان کے مسائل کا حل کسی سیاسی تنہائی سے جڑا ہوا ہے ۔

یہ نقطہ کہ کچھ باہر کی قوتیں بشمول بھارت بلوچستان کے حالات کو خراب کرنا چاہتا ہے یا اس کی ترجیح میں کمزور پاکستان یا عدم استحکام ہی جڑا ہوا ہے۔

لیکن اس کے لیے بھی بنیادی شرط یہ ہی ہے کہ ہم یقیناً بھارت سمیت دیگر ممالک اور ان کی حکمت عملیوں پر تنقید کریں لیکن اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ داخلی نظام کا پوسٹ مارٹم یا سرجری ہے۔ جب تک ہم اپنے بلوچستان سے جڑے داخلی مسائل یا معاملات کا خود سے سیاسی ، انتظامی ، قانونی اور آئینی حل تلاش نہیں کریں گے اس وقت تک ہم خود بھی وہاں کے داخلی مسائل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔