’’اے میری زہرہ جبیں‘‘

سعد اللہ جان برق  جمعـء 2 جون 2023
barq@email.com

[email protected]

پتہ نہیں آپ کیسا محسوس کررہے ہیں، ہم تو ایسا محسوس کررہے ہیں جیسے کچھ بھی محسوس نہیں ہورہاہے، بس ایک سنسنی سی ہے جو تن من میں دوڑ رہی ہے، حیرانی سی حیرانی اور پریشانی سی پریشانی ہے بلکہ ۔

پریشاں ہوں پریشانی سے پہلے
بہاجاتا ہوں طغیانی سے پہلے

یہ جو سامنے اسٹیج پر ہورہاہے ،کیاہورہا ہے، کس لیے ہورہاہے اورکون کررہاہے یاکروارہا ہے، ہمیں تو ایسا لگ رہا ہے کہ اسٹیج پر موجود سارے کردار آپس میں گھتم گتھا ہورہے ہوں، شورہے ،ہنگامہ ہے، ہڑ بونگ ہے، چیخ وپکار ہے ، ماردھاڑ ہے اور وہ سب کچھ ہورہاہے جو کرنے کا نہیں ہے۔ اس پر اکثر ہمیں ایک پرانی فلم کا ایک منظر یادآجاتاہے۔

اس فلمی سین میں اسٹیج پر گانے بجانے کاپروگرام شروع ہورہاہے، بیچ میں مائیک نصب ہے ،ایک شخص آتاہے اور مائیک میں گاتاہے ،

اے میری زہرہ جبیں……

لیکن آگے کچھ اورکہنے سے پہلے ایک اورآدمی آتا ہے اورمائیک کے قریب منہ کرکے گاتا ہے، اے میری میری زہرہ جبیں۔ اب ایک تیسرا آکر ان دونوں کے درمیان میں منہ گھسا کر یہی الفاظ گاتاہے لیکن یہ تیسرا شخص اس پر بس نہیں کرتا بلکہ ہرگانے اور بجانے والے کو ڈسٹرب کرنا شروع کردیتاہے کیوں کہ اسے شکایت ہے کہ اسے لیڈنگ رول کیوں نہیں دیا گیا۔

اس کے بعد اسٹیج پر ایک ہنگامہ مچ جاتاہے جو کوئی بھی کچھ گانے یا بجانے کی کوشش کرتاہے، وہ ناراض اور شریرکردار اسے ڈسٹرب کردیتاہے۔ کسی کا کان پیچھے سے مروڑ دیتاہے، کسی کو دھکا دے دیتا  ہے، کسی کے جسم پر چٹکی کاٹتاہے یا زورسے بے ہنگم آواز نکالتاہے۔

کافی دیر تک یہ ہڑبونگ جاری رہتی ہے اور پھر سب آپس میں گتھم گتھا ہوجاتے ہیں، کچھ دیر بعد وہ شریر شخص اس ڈھیر سے نکلتاہے، اس کے ہاتھ میںاونچی آواز کے لیے لاوڈ اسپیکر ہے، سب سے دورجاکر وہ اسپیکر میں گانے لگتا ہے لیکن دوسرے اسے کہاں چھوڑنے والے ہیں، وہ بھی اسپیکر کا ڈنڈا پکڑ پکڑ کرگانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں ۔

ذرا تصورکی نگاہ کھول کر سامنے دیکھئے، کیا وہی منظر چلتاہوا دکھائی نہیں دے رہاہے، ہمیں تو سرمو فرق بھی دکھائی نہیں دے رہاہے کہ سارے ہی ’’اے میری زہرہ جبیں‘‘ گارہے ہیں لیکن پورا نہیں کر پا رہے ہیں۔

یہ تو معلوم نہیں کہ سب کی یہ زہرہ جبیں کون ہے لیکن یہ اندازہ ضرورہوتاہے کہ جو کوئی بھی یہ زہرجبیں ہے سب کی فیورٹ ہے کیوں کہ ہرکسی کی یہی کوشش ہے کہ لاوڈ اسپیکر کو دوسروں سے چھین کر الگ لے جائے اور زہرہ جبیں کو پکارے ۔

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزوں ہی سہی

ہم نے جب اس ساری صورت حال، واقعات اور بیانات کا تجزیہ کیاتو لگاجیسے یہ تو صرف ایک فلم کی نہیں بلکہ ساری رومانی فلموں کی کہانی بنتی جارہی ہے جن کے ایک خاص مقام پر اس قسم کے ڈائیلاگ بولے جاتے ہیں ۔’’میں اس کے لیے مر بھی سکتاہوں اورماربھی سکتاہوں۔ وہ اگر میری نہیں بن سکتی تو میں اسے کسی کی بھی بننے نہیں دوں گا‘‘۔خاص طور پر وہ جو مین عاشق ہے جس نے اس ہڑبونگ کی ابتداکی ہے وہ تو اتنا پرجوش ہے کہ زہرہ جبیں میری اورصرف میری ہے کیوںکہ بابا جی ڈیموں والی سرکار نے اسے میرے نام کیا ہوا ہے۔

اب کوئی مرے یاجئیے۔ تب تک چاہے یہ اسٹیج بھی نہ رہے،سارے تماشائی ہی مرکیوں نہ جائیں، زہرہ جبیں میری ہوگی اوراگر میری نہ ہوگی تو میں اسے کسی کی بھی ہونے نہیں دوںگا،کوئی اوراسے مجھ سے چھینے، ایسا ہونہیں سکتا، وہ کسی کے پاس جائے، میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔

میکسم گورکی کاایک افسانہ ہے جس میں دو منگولسردار ایک لڑکی پر فدا ہیں اور یہ دونوں باپ بیٹا ہیں، جب بیٹا باپ سے اس لڑکی کاتقاضا کرتاہے تو باپ ایک طویل خاموشی اختیار کرلیتاہے ،کافی دیر بعد وہ بیٹے کو اپنے پیچھے آنے کااشارہ کرکے حرم سرا میں داخل ہوتاہے۔

اس لڑکی کاہاتھ پکڑ کرنکلتاہے،بیٹے کو بھی پیچھے آنے کا اشارہ کرتاہے، چلتے چلتے دریا پر پہنچ جاتے ہیں تو بڑے آرام سے لڑکی کو دریا میں پھینک دیتاہے اور بیٹے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر گھر کی طرف روانہ ہوجاتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔