پرانا اژدھا مر چکا ہے!

راؤ منظر حیات  پير 5 جون 2023
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

سوئٹزرلینڈ سے صاحب کا فون آیا۔ وڈیو کال تھی، حد درجہ پرمسرت تھے۔ بات بات پر قہقہے لگ رہے تھے۔ سمجھ نہیں آیا‘ کس بات پر اتنے خوش ہیں۔

میرا اپنا دل تو ملک کے دگر گوں حالات کی بدولت بجھ سا گیا ہے۔ صاحب کا ہمارے ملک میں مقتدر طبقے سے حد درجہ قریبی تعلقات ہیں۔ یہ رفاقت صرف اور صرف مالیاتی طرز کی ہے۔ کہنے لگے ،کہا تھا نا ، تمہارا ملک وہ خرگوش ہے جسے ہوا میں اچھال دیا گیا ہے اور نیچے بھوکے درندے جبڑا کھولے‘ خرگوش کی تکہ بوٹی کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ بالکل یاد ہے۔

میں نے جواب دیا۔ صاحب نے چند ہفتے پہلے یہ بات کی تھی مگر مجھے یقین نہیں آیا تھا۔ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اب خرگوش بھوکے جانوروں کے جبڑے میں آ چکا ہے، اس کی تکہ بوٹی ہونے والی ہے۔

خرگوش یعنی تمہارا ملک تقریباً آخری ہیچکیاں لے رہا ہے۔ امیر اور بااثر طبقات ملک کی ہڈیاں تک چبانے کی تیاری کر رہے ہیں اور یہ سارے کے سارے پاکستانی ہیں۔کوئی بھی غیرملکی نہیں ہے۔

تم سارے اس سفلی کام میں خودکفیل ہو۔ صاحب کی بات زہر لگی کیونکہ میںاپنے ملک کے ذرے ذرے سے عشق کرتا ہوں۔ مواقع ہونے کے باوجود‘ کسی اور ملک کی شہریت لینے کے لیے تیار نہیں۔ بلکہ میں نے تو اپنی تدفین کے لیے قبرستان تک منتخب کر لیا ہے۔

بہر حال صاحب کی بے موقع خوشی کی وجہ نہیں سمجھ سکا۔ میرے تذبذب کو بھانپتے ہوئے کہنے لگے ، ڈاکٹر! ملک کے حالات جتنے خراب ہو ںگے ۔ میری دولت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ میری تو خواہش ہے کہ ایک ڈالر پانچ سو روپے کا ہوجائے، پھر دیکھنا‘ وارے نیارے ہو جائیں گے‘‘۔ میرا مونہہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کچھ اس قسم کی بات ’’قائد اعظم ثانی‘‘ صاحب نے بھی لندن سے فرمائی تھی۔ صاحب نے کہا‘ ڈاکٹر! میں جب چاہوں‘ تمہارے ملک کے روپے کو ناقابل یقین حد تک گرا سکتا ہوں۔

دراصل پاکستان میں ڈالر اور روپے کی قدر کی آڑ میں سٹہ ہورہاہے۔ جس میں مالیاتی گرو‘ منی چینجرز اور نجی مالیاتی ادارے شامل ہیں۔ دس بارہ مالیاتی بگ گنز فیصلہ کرتے ہیں کہ روپے کو کدھر لے کر جانا ہے۔

جب لوگ تھوڑے سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں تو چند دنوں کے لیے روپے کو قدرے بہتر کر دیتے ہیں اور نجی چینلز پر وزارت خزانہ کے سرخیل اور اقتصادی ٹیم‘ دھمال ڈالنی شروع کر دیتے ہیں کہ جناب ہماری کامیاب اقتصادی پالیسیوں کی بدولت پاکستانی روپیہ ‘ امریکی ڈالر کے مقابلے میں بہتر ہو گیا۔ مگر یہ حقیقت نہیں ہوتی ہے۔

چند مخصوص لوگ پھر بھاری مقدار میں ڈالر خریدتے ہیںاور قیمت پھر بڑھا دی جاتی ہے۔ مگر اس مدو جزر سے آپ کا کیا تعلق ہے؟ ڈالر پانچ سو کا ہو جائے یا دو سو کا۔ صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ قائم تھی۔ ڈاکٹر! پاکستان کے مقتدر طبقے کا تمام پیسہ ناجائز ہے۔ اسے ڈالر میں بدل کر‘ میری کمپنی‘ بڑے آرام سے دنیا کے محفوظ ملکوں کے بینکوں میں جمع کرا دیتی ہے۔

پیسہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے جاتا ہے، کوئی سرکاری ادارہ بھی سمجھ نہیں سکتا کہ اس کا اصل مالک کون ہے۔ میری کمپنی زیورخ ‘ لندن اورکریبین آئی لینڈز میں کام کرتی ہے۔ پہلے میں اس کام کا دس فیصد معاوضہ لیتا تھا۔ یعنی دس لاکھ ڈالر پر تقریبا ایک لاکھ ڈالر۔ اب بڑھا کر پندرہ فیصد کر دیا ہے۔ جانتے ہو‘ فیس بڑھانے سے تمہارے ملک کے مقتدر لوگ بالکل بھی پریشان نہیں ہوئے بلکہ بڑے آرام سے میرا معاوضہ دے جاتے ہیں۔ میری دولت تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔

میں نے تنگ آکر کہا کہ میرا ملک تو برباد ہو رہا ہے۔ صاحب کہنے لگے کہ تم جیسے لوگوں کا المیہ ہی یہی ہے کہ صرف جذباتیت اور کھوکھلے نعروں پر زندگی گزارتے ہو۔ جو اس ملک کے اصل مالک ہیں، انھیں اس سے کوئی لگاؤ نہیں ‘ تو تمہارے جیسے لوگ کیوں پریشان ہوں۔ تمہارے طبقے کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ تم تو محض جھوٹ کو سچ سمجھ رہے ہو۔

صاحب کی گفتگو مجھے اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ میں موضوع بدلنا چاہتا تھا۔ وڈیو کال پر میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر صاحب کہنے لگے کہ میں نے ایک نیا دھندا شروع کیا ہے۔ مغرب کے چند اچھے وکلاء پر مشتمل ایک فرم ترتیب دی ہے جوترقی یافتہ ممالک میں دوہری شہرت دلوانے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ دفتر لندن میں کھولا ہے۔

وکلاء کی ٹیم یہودی اور ہندو قانون دانوں پر مشتمل ہے کیونکہ یہ جھوٹ کم بولتے ہیں۔ میں نے یہ بات سنی ان سنی کر دی۔ کیونکہ صاحب کے کسی بھی کاروبار میں کوئی مسلمان افسر یا ملازم نہیں ہے۔ مگر صاحب سے ناجائز کام کرانے والے تمام کلائنٹ پاکستانی مسلمان ہیں۔

درخواست بھی یہی کی جاتی ہے کہ ان کاکام کسی بھی پاکستانی مسلمان ملازم کے حوالے نہ کیا جائے۔ صاحب کہنے لگے کہ صرف پاکستان سے ہی چار ماہ میں‘ دو ہزار امیر ترین لوگوں نے خاندان سمیت دوہری شہریت کے لیے ان سے رابطہ کیا ہے۔

میں نے ہر ایک سے چالیس ہزار ڈالر وصول کیے ہیں۔ اب ذرا دو ہزار کو چالیس ہزار سے ضرب دے لو۔ تو بتاؤ کتنے پیسے بنتے ہیں۔ میرا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ یہ اتنی خطیر رقم بنتی ہے کہ میں تو تصور بھی نہیں کر سکتا۔

یہ صاحب کے بقول پاکستانی امیر خاندان بڑی تسلی اور اطمینان سے جھوٹ بولیں گے، ان کا جینا مرنا‘ پاکستان کے ساتھ ہے۔ دراصل تمہارا ملک ان کے لیے سونے کی کان ہے اور یہ سونے کی کان کو سکون سے لوٹ رہے ہیں۔

کبھی پاکستان کو ایشین ٹائیگر قرار دے کر‘ کبھی تبدیلی کا نام لے کر‘ کبھی مذہب کا سہارا لے کر اور کبھی عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا جعلی نعرہ دے کر۔ پھر مجھے کہا۔ انھی گاہکوں کی وجہ سے میں آرام سے زندگی گزار رہا ہوں۔ویسے صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوںنے کبھی اپنے کلائنٹس کا نام نہیں بتایا۔ لیکن مجھے تھوڑا سا اندازہ ہے کہ ان کے پاس کون کون سے مگرمچھ ڈالروں کے بیگ لے کر کام کرانے آتے ہیں۔ ایک کو تو حادثاتی طور پر لاہور میں واقع ان کے فارم ہاؤس پر دیکھ اور مل چکا ہوں۔

سچ تو یہ ہے کہ اس ’’حددرجہ محب وطن پاکستانی‘‘ کو دیکھ کر میرا تو دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔ میں ’’اس عظیم‘‘ شخصیت کا کبھی نام نہیں لے سکتا کیونکہ بہر حال مجھے پاکستان ہی میں رہنا ہے۔

صاحب سے وڈیو کال ذرا لمبی ہو رہی تھی، وہ موڈ میں تھے اور باتیں کرنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر! ہو سکتا ہے تھوڑے دن بعد پاکستان آؤں، اپنے کام کے سلسلے میں ۔ خیر مجھے اس کام یا کاروبار سے ذرا بھر بھی دلچسپی نہیں تھی۔ صاحب نے مزید انکشاف کیا۔ آ ج کل ایک مذہبی پارٹی کا لیڈر‘ مجھے ملنے کے لیے‘ لوگوں سے سفارشیں کرا رہا ہے۔

فرمائش ہے کہ صاحبزادے کو ایک صوبے کا وزیراعلیٰ بنوا دیجیے۔ میں ملنے سے کترا رہا ہوں۔ کیونکہ وہ بے اعتبارہے لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مل لوں اور ہو سکتا ہے کہ نہ ملوں ۔ صاحب! کسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ کا فیصلہ تو الیکشن اور ووٹرز کے ذریعے ہو گا۔ آپ پیرس، برلن ، لندن یا زیورخ میں بیٹھ کر تو فیصلہ تو نہیں کر سکتے۔ صاحب نے زور سے قہقہہ لگایا۔ ڈاکٹر ‘ کون سے و وٹرز اور کون سا الیکشن ؟ حکومت کون کرے گا؟ یہ فیصلہ تو ہمارے جیسے لوگ کرتے ہیں۔

ہم ہی طے کرتے ہیں کہ حکومت کس کی ہوگی ۔ بعض اوقات کو ہرکارا یا مہرہ جسے اعلیٰ عہدے پر بٹھایا جاتا‘ وہ اپنے آپ کو سچ مچ کا لیڈر سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر اسے سبق سکھانا پڑتا ہے، یہ سبق تھوڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ سمجھنے کی بات ہے۔ جس طرح اقتدار دیا جاتا ہے، اسی طرح تخت سے گرایا بھی جاتا ہے۔

آخر میں صاحب نے کہا،اور ہاں ڈاکٹر! میرا پالتو اژدھا مر گیا ہے۔ نیا خریدنے کے لیے افریقی ملک کے ایک طاقتور عہدے دار کا ذمے لگایا ہے، دو ملین ڈالر مانگ رہا ہے۔وہ اپنے ملک سے جانوروں اور پرندوں کی ناجائز اسمگلنگ کا سرغنہ ہے۔

جب نیا اژدھا آئے گا‘ تو تمہیں ضرور دکھاؤں گا۔ وڈیو کال بند ہونے کے بعد‘ اپنے دماغ کے سوئچ کو آف کر دیا۔ پھر بھی پوری رات سو نہیں پایا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔