وفاقی بجٹ 2023-24ء ...عوام کو ریلیف ملے گا؟

حکومت، بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین معاشیات کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال فوٹو : ظفر اسلم راجہ

حکومت، بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین معاشیات کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال فوٹو : ظفر اسلم راجہ

وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2023-24ء رواں ہفتے پیش کیا جائے گا۔

یہ بجٹ کیسا ہوگا، اس میں عوام کو ریلف ملے گا یا مشکلات میں اضافہ ہوگا؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

رانا احسان افضل

(معاون اقتصادی امور برائے وزیراعظم)

حکومت انتہائی مشکل حالات میں اگلے مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش کرنے جارہی ہے۔ یہ بجٹ حقیقت پسندانہ ہوگا جو زمینی حقائق کومدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔

اتحادی حکومت پاکستان تحریک انصاف کی طرح غیر ذمہ دار نہیں ، موجودہ کی دانشمندانہ اقتصادی پالیسیوں کے اثرات آئندہ بجٹ میں نظر آئیں گے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ ملک کو بحران سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔

انشاء اللہ اب بھی ملک کو اقتصادی ترقی کی پٹری پر چڑھادیا جائے گا۔ اس حوالے سے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی اور ان کی تجاویز سنی ہیں ، اسی تناظر میں بجٹ سازی کی جارہی ہے۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ کاروبار دوست ہوگا۔

برآمدات پر مبنی صنعت، زرعی پیداوار میں اضافہ کیلئے ایگری انڈسٹریل سرمایہ کاری، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات میں اضافہ، قابل تجدید توانائی کا حصول ، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا اور مہنگائی پر قابو پانا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ نہ صرف سخت شرائط طے کیں بلکہ انہیں توڑ کر ملک کیلئے عالمی سطح پر بڑی مشکلات پیدا کر دی جن کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام جون میں ختم ہورہا ہے لہٰذا کوشش کی جائے گی کہ معاہدہ ادھورا نہ رہے، ورنہ جون کے بعد پاکستان کو نئے پروگرام کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا ۔

اس لیے حکومت بجٹ میں آئی ایم ایف معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی ذمہ دارانہ فیصلے کرے گی۔ آئندہ وفاقی بجٹ میں پرائمری اکاؤنٹ سرپلس رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر سود کی مد میں ادائیگیوں کو نکال دیا جائے تو ملک کو حاصل ہونے والا ریونیو ملکی اخراجات کے برابر یا اس سے زیادہ ہوگا۔بجٹ میں مالیاتی خسارہ ایسی شرح پر رکھا جائے گا جو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتا ہو۔

گزشتہ برس بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سیلاب متاثرین و دیگر پسماندہ افراد و خاندانوں پرتقریباََ 80 ارب روپے خرچ کئے گئے، آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مزید اضافی فنڈز رکھے جائیں گے اور ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے گی ۔ ملک میں ڈالر کا بحران ہے۔ شرح سود اور مہنگائی بھی زیادہ ہے جس سے لوگوں کے مسائل بڑھے ہیں ۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عام آدمی پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا بلکہ اسے کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ٹیکس ریونیو بڑھایا جائے گا،ٹیکس نیٹ میں شامل لوگوں پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ یہ بجٹ سیاسی نہیں ہے، اس حوالے سے اپوزیشن صرف پراپیگنڈہ کر رہی ہے۔ حکومت سیاست پر ریاست کو ترجیح دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔آئندہ مالی سال کے دوران حکومت نے رواں مالی سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ بیرونی قرضے واپس کرنے ہیں جس کیلئے 25 ارب ڈالر درکار ہونگے۔

ہم اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلا رہے ہیں، جو گنجائش نکلی اس کے مطابق ملک کی صنعت ، زراعت اور سروسز سمیت دیگر شعبوں کو سہولیات دی جائیں گی اور ملک میں اقتصادی شرح نمو بتدریج اچھی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ شرح نمو بڑھنے سے کرنٹ اکاونٹ خسارہ بڑھ جاتا ہے لہٰذا حکومت تمام پہلوں کو سامنے رکھ بجٹ تیار کررہی ہے ۔

فرخ ایچ خان

(ایم ڈی و سی ای او پاکستان سٹاک ایکسچینج)

آئندہ مالی سال 2023-24کے وفاقی بجٹ میں پاکستان سٹاک مارکیٹ کو نہ کوئی ریلیف چاہیے اور نہ ہی ہم کوئی سبسڈی مانگتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائے اور جو ٹیکس ریٹ دوسرے ایسٹ کلاس کیلئے ہے، وہی ٹیکس ٹریٹمنٹ سٹاک مارکیٹ کے ساتھ کیا جائے۔

بطور خاص جو ٹیکس ٹریٹمنٹ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے ساتھ ہے وہی ٹیکس ٹریٹمنٹ دوسری ایسٹ کلاسز کیلئے بھی ہو۔ یہ صرف سٹاک مارکیٹ کیلئے ہی نہیں بلکہ ملکی معیشت کیلئے بھی ضروری اور فائد مند ہے تاکہ وسائل کی تخصیص سرمایہ کار کرے کہ کہاں اچھا ریٹرن ہے اور کہاں وسائل لگانا ہیں نہ کہ ٹیکس پالیسی اس بات کا تعین کرے کہ وسائل کہاں جارہے ہیں اور کہاں جانے چاہئیں۔

سٹاک مارکیٹ ملکی معیشت کا سب سے زیادہ دستاویزی سیکٹر ہے جس کے سرمایہ کار اور کمپنیاں ڈاکیومینٹڈ ہیں جو ایف بی آر کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ریکارڈ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کیپٹل مارکیٹ ترقی کرے ،جتنی گروتھ بڑھے گی اتنی ہی ڈاکیومنٹیشن بڑھے گی اور اس سے ایف بی آر کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا۔حکومت کو حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ لوگ کیپٹل مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ آئیں۔

آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں سٹاک مارکیٹ پر کیپٹل گین ٹیکس کو نہ صرف ریئل اسٹیٹ کے برابر کیا جائے بلکہ سٹاک مارکیٹ پر کیپٹل گین ٹیکس کی شرح کم کی جائے ۔ سٹاک مارکیٹ ایک پروڈکٹیو سیکٹر ہے،ریئل اسٹیٹ کی نسبت سٹاک مارکیٹ کیلئے زیادہ پرکشش ٹیکس ٹریٹمنٹ ہونی چاہیے۔ آئندہ مالی سال 2023-24 کے وفاقی بجٹ میں لسٹڈ کمپنیوں اور اَن لسٹڈ کمپنیوں کے ٹیکس ریٹ میں فرق ہونا چاہیے، لسٹڈ کمپنیوں کیلئے ٹیکس کی شرح کم کی جائے۔

اس کے علاوہ انفرادی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے ٹیکس کریڈٹ دوبارہ بحال کیا جائے۔ جب تک کیپٹل مارکیٹ ڈویلپ نہیں ہوگی، اس وقت تک ملکی معیشت کو درپیش سٹرکچرل مسائل پوری طرح حل نہیں ہونگے۔

چھوٹے سرمایہ کارکسی بھی مارکیٹ کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کیلئے پاکستان سٹاک ایکسچینج نے متعدد اہم اقدامات اٹھائے ہیں اور ابھی مزید اٹھائے جائیں گے ۔پاکستان سٹاک ایکسچینج نے اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کے تعاون سے مقامی سرمایہ کاروں کیلئے بھی آن لائن اکاونٹس کھولنے کا نظام متعارف کروایا ہے۔

اس سے نہ صرف کسٹمرز کو آسانی ہوئی ہے بلکہ بروکرز کو بھی اکاونٹ کھولنے میں آسانی ہوئی ہے، اس کے علاوہ سہولت اکاونٹس کے رولز اینڈ ریگولیشن میں بھی صارفین کی شناخت کو آسان کردیا گیا ہے ، شناختی کارڈ، موبائل فون اور بینک اکاونٹ سے صارفین دس لاکھ روپے تک کا سہولت اکاونٹ فوری طور پر کھلوا سکتے ہیں۔

اس طرح بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ اب چھوٹے اور دور دراز علاقوں میں زیادہ تر اکاؤنٹس کھل رہے ہیں جو سٹاک مارکیٹ کے حوالے سے خوش آئند ہے، اس سے میکرو اکنامک مسائل حل ہونگے اور مقامی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔

ڈاکٹر محمد ارشاد

(سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو)

اگلے بجٹ میں ٹیکس لگانے کے بجائے ٹیکس مشینری کو اپ گریڈ کیا جائے، جدید ٹیکنالوجی اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دے کر ریونیو بڑھانے کا ویژن اپنایا جائے۔

یہ ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس مشینری کو اوور ہال کیے بغیر ممکن نہیں ہے، نظام میں سٹرکچرل تبدیلیاں لانا ہونگی۔ ایف بی آر میں عملے اور وسائل کی کمی ہے، اس طرف خصوصی توجہ دینا ہوگی۔

اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر اور فیلڈ فارمشنز کے افسران و اہلکاروں کیلئے جزا و سزا کا سخت و موثر نظام لایا جائے، کرپٹ عناصر کی حوصلہ شکنی اور ایمانداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے،ا س سے فائدہ ہوگا۔پہلے سے رجسٹرڈ افراد پر ٹیکس کا بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے۔ اس حوالے سے کام کرنے والے افسران و اہلکاروں کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے، افسران کو ضرورت کے مطابق ماتحت عملہ فراہم کیا جائے۔

اس سے نچلی سطح پر ٹیکس اکٹھا کرنے میں آسانی ہوگی، جب ٹیکس کولیکشن بہتر ہوگی تو نئے ٹیکس کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ٹیکس پوری طرح اکٹھا نہیں ہوپارہا، اس کیلئے پالیسی شفٹ لانا پڑے گا۔ ٹیکس اتھارٹیز کا دائرہ کار ڈسٹرکٹ سطح تک لایا جائے۔  میرے نزدیک ٹیکس بیس کو وسیع کرنے اور محصولات کی وصولی میں اضافہ کے لئے آٹومیشن واحد راستہ ہے۔

شیخ عبدالوحید

(سابق وائس چیئرمین ایف پی سی سی آئی سابق چیئرمین پاکستان وناسپتی ایسوسی ایشن)

آنے والا بجٹ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت کی طرف سے وضع کردہ سب سے مشکل بجٹ ہوگا۔موجودہ حالات میں متوازن بجٹ دینا مشکل ہے، اس میں زیادہ توجہ ریلیف پیکیج اور سماجی تحفظ کے پروگراموں پر ہونا چاہیے۔

فوری ریلیف دینے کیلئے یہ ضروری ہے۔آئندہ مالی بجٹ میں ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے جو ہر طبقہ کی استعداد کے مطابق ہو۔ ٹیکس نیٹ میں پہلے سے شامل لوگوں پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے نئے ٹیکس دہندگان تلاش کئے جائیں، اس کیلئے آٹومیشن اور جدید ٹیکنالوجی کے ا ستعمال کو فروغ دینا ہوگا۔

پاکستان سیاسی طور پر غیر مستحکم ہے جو معیشت کیلئے انتہائی نقصاندہ ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانا ہوگا اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کرنا ہوگا۔ اس کے تحت پارلیمنٹ کو پندرہ سے پچیس سال کا طویل المیعاد معاشی پلان بنانا ہوگا۔ ملک میں کھانے کے تیل اور گھی کی قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے کیلئے خصوصی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان پام آئل ،سویا بین آئل سمیت کھانے کے دیگر تیل کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے، اس کے بجائے مقامی سطح پر سویا بین، پام آئل و دیگر تیل کے بیجوں کی فصلیں کاشت کی جائیں، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ویلیو ایڈیشن کی جائے۔

اس کے علاوہ مقامی سطح پر گھی و آئل کی تیاری کو فروغ دیا جائے،ا س سے اربوں ڈالر ملک سے باہر جانے سے بچائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان اربوں ڈالر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ کررہا ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ ان شعبوں میں کنزرویشن کے ساتھ ساتھ متبادل ذرائع بھی تلاش کئے جائیں۔

پٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل کم کرنے کیلئے ٹرانسپورٹ کا اچھا نظام متعارف کروانے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح سولر اور ونڈ انرجی پر توجہ دی جائے، گھروں ودفاتر میں سولر کو لازمی قرار دیا جائے اور ہائبرڈ گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔

اجمل بلوچ

(صدرآل پاکستان انجمن تاجران)

ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کیلئے ایف بی آر کو ٹیکس دہندگان کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، مراعات دینی چاہیے اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے تاجر برادری اور ٹیکس دہندگان میں ہراسمنٹ پھیلتی ہو۔

کسی بھی بڑے ٹیکس دہندہ کے خلاف کارروائی سے پہلے ایف بی آر کو وزیراعظم یا وزیر خزانہ کی پیشگی منظوری لینی چاہیے، اس معاملے میں متعلقہ انجمن تاجران کے نمائندوں کو بھی آن بورڈ لیا جائے،پالیسی سازی میں شامل کیا جائے، اس سے ادارے پر اعتماد بحال ہوگا۔

ایسے ٹیکس دہندگان کو انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے تحت ٹیکس آڈٹ سے استثنیٰ ہونا چاہیے جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کر کے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کریں اور جو اپنے سیلز ٹیکس گوشواروں میں 20 فیصد زیادہ سیلز کا اعلان کریں۔ ٹیئرون کی تعریف میں ریٹیلرز کی دکانوں کے رقبے کے حوالے سے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

کریڈٹ کارڈ مشین ، بارہ لاکھ بجلی کے بل اور ایک ہزار مربع فٹ عام ریٹیلرز کے لیے ،فرنیچر ریٹیلرز اور زیورات کے لیے تین سو مربع فٹ کو ختم کیا جائے۔ تجویز ہے کہ ٹیئر ون ریٹیلرز کے لیے معیار صرف سالانہ ٹرن اوور ہونا چاہیے۔ 50 ملین سے زیادہ سالانہ ٹرن اوور رکھنے والے تمام خوردہ فروشوں کو ٹیئر ون ریٹیلرز کہا جانا چاہیے۔

تجویز ہے کہ اگلے بجٹ میں جیولرز کے ٹیئر-1 ریٹیلرز ہونے کے معیار کو واپس لیا جائے اور موجودہ میکنزم یعنی بجلی کے بلوں کے ذریعے جو ٹیئر-1 خوردہ فروش کے علاوہ دیگر ریٹیلرز سے وصول کیا جائے ۔جیولر ریٹیلرز کے لیے فنانس ایکٹ 2022 کے ذریعے تبدیلی کی گئی ہے جس میں دکان کا رقبہ 300 مربع فٹ سے زیادہ ہے جبکہ دوسروں کے لیے مختلف معیار موجود ہے۔

حکومت کو صرف عدم تعمیل پر جرمانے عائد کرنے کے بجائے کاروباروں کو پی او ایس سسٹم کی تعمیل کرنے کی ترغیب دینے کے لیے مراعات (بجائے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے بورڈ بھر میں کم کردہ شرح) پیش کرنی چاہیے۔

پوائنٹ آف سیل سسٹم میں ڈسٹری بیوٹرز کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ تمام سپلائی چین لین دین کی حقیقی وقت میں حکومت کو 10 فیصد کے سالانہ اضافے کے ساتھ کم از کم بیس ہزار روپے کی حد کے ساتھ ایک نئی سیلف اسیسمنٹ اسکیم دوبارہ متعارف کرانے پر غور کرنا چاہیے بشرطیکہ اس اسکیم کے تحت ٹیکس دہندگان سے کسی چیز کے لیے پوچھ گچھ نہ کی جائے۔

موجودہ کرائے کی آمدنی پر 35 فیصد ٹیکس بہت زیادہ ہے، اسے 10 فیصد تک کیا جائے ،اس سے ٹیکس کلچر کو فروغ ملے گا، دکانوں اور دفاتر کے کرائے کم ہوں گے اور حکومت کے لیے ٹیکس ریونیو میں بھی بہتری آئے گی۔تنخواہ دار کیلئے آمدنی ٹیکس کی کم از کم حد چھ لاکھ روپے جبکہ ایسوسی ایشن آف پرسنز کیلئے چار لاکھ روپے ہے، اسے ایک ملین روپے کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔