کراچی کے تعلیمی اداروں پر منشیات مافیا کی یلغار، طلباء کی بلڈ اسکریینگ کرانے کا فیصلہ

صفدر رضوی  پير 5 جون 2023
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

  کراچی: منشیات مافیا نے طلباء کو آسان ہدف سمجھتے ہوئے غیر محسوس انداز میں تعلیمی اداروں پر یلغار کردی جس کے باعث محکمہ اسکول ایجوکیشن نے طلباء کی بلڈ اسکریینگ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق حکومتی یا شہری انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی قسم کی مزاحمت نہ ملنے کے سبب تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباء و طالبات اس منشیات مافیا کے قیمتی صارف بنتے جارہے ہیں، کراچی کے تعلیمی ادارے اور بالخصوص نجی اسکول و کالج کے طلبہ جدید و روایتی منشیات کا مسلسل شکار ہورہے ہیں اور اس سلسلے میں ” ایکسپریس” کو معلوم ہوا ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کے قریب کھلے ہوئے چائے خانے، پان کی دکانیں اور دیگر بیٹھکیں جدید و روایتی منشیات طلبہ تک پہنچانے یا اس کے استعمال کے لیے دانستہ یا نادانستہ سہولت کاری کا کام کررہی ہیں۔

کراچی کے بعض گنجان علاقوں میں کھلے منشیات کے اڈوں تک بھی طلبہ کی رسائی آسان ہوتی جارہی ہے تاہم محدود پیمانے پر بعض نجی اسکول و کالج طلبہ پر اس لیے سختی سے گریز کررہے ہیں کہ اس سختی سے ان کا بزنس ماڈل متاثر ہورہا ہے تاہم اس تمام صورتحال میں کراچی پولیس کا کردار سب سے زیادہ سوالیہ نشان بن کرسامنے آیا ہے جہاں یا تو پولیس آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے یا پھر محدود حد تک اس کے اہلکار شریک جرم بھی ہیں، محض اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ اور اس کا ذیلی ادارہ ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز تعلیمی اداروں اور بالخصوص پوش علاقوں کے کیمبرج اسکولوں میں اس عفریت کی روک تھام کے لیے اپنی منظم یا مربوط کوششیں کرتا نظر آرہا ہے تاہم شہری یا پولیس انتظامیہ کی غفلت سے سپلائی سائیڈ کو قابو نہ کرنے کے سبب ڈیمانڈنگ سائیڈ پر کیے جانے والے کام کے بہتر نتائج سامنے نہیں آپارہے۔

ان تمام حقائق کا انکشاف ” ایکسپریس” کی جانب سے اس سلسلے میں مختلف زاویوں سے کی گئی تحقیق میں ہوا ہے جس میں منشیات سے متاثرہ Drug addicts طلبہ، انسداد منشیات مہم میں شامل کونسلرز ، ماہرین نفسیات، مزکورہ معاملے پر کام کرنے والے سرکاری افسران سے بات چیت کی گئی اور ان کی جانب سے اپنے تجربات شیئر کیے گئے۔

منشیات کے عادی طلبہ: 

اس معاملے پر جب “ایکسپریس” نے آئس کے نشے کا شکار ہونے والے صدر کے ایک اسکول کے زائن نامی طالب علم سے بات چیت کی تو یہاں ایک منفرد انکشاف ہوا کہ یہ طالب علم کسی دوست نہیں بلکہ اپنے ہی بڑے بھائی کے ہمراہ آئس اور کرسٹل کا نشہ کیا کرتا تھا، نشے کی عادت انہیں اسکول کے قرب و جوار اور محلے کے دوستوں سے لگی تھی تاہم دونوں بھائی اپنے گھر کے کچن میں بھی بیٹھ کر نشہ کیا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ نشہ اس مذکورہ طالب علم کی ذہنی حالت کو اس قدر متاثر کرچکا تھا کہ وہ ہر سوال کو سننے کے بعد کچھ دیر سوچتا پھر جواب دینے میں بھی الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے اور کافی توقف کے بعد ایک سے دوسرے الفاظ کو جوڑ کر جملہ مکمل کررہا تھا۔

زائن نے بتایا کہ” پہلی باقاعدہ کونسلنگ کے بعد دونوں بھائیوں نے نشہ چھوڑ دیا تھا تاہم کچھ پرانے تعلق دوبارہ استوار ہونے کے سبب اس نے ایک بار پھر نشہ شروع کردیا زائن کی والدہ خود ایک اسکول ٹیچر ہیں اور اس کا علاج اب کراچی کے علاقے صدر میں “ابتداء” کے نام سے قائم بحالی کے مرکز rehabilitation centre میں کونسلنگ کے ذریعے کیا جارہا ہے، زائن نے انکشاف کیا کہ ہم اسکول کے واش روم میں جاکر نشہ بناتے تھے اور اسکول کی چوتھی منزل پر خالی کمروں میں بیٹھ کر بھی نشہ کرلیا کرتے تھے کیونکہ عموماً اس فلور پر انتظامی افراد کی آمد و رفت نہیں ہوا کرتی تھی۔

زائن نے بتایا کہ انہوں نے کرسٹل سمیت 5 طرح کے نشے کیے ہیں یہ نشہ آور اشیاء وہ عموماً کراچی کی پرانی سبزی منڈی کے جھنڈے شاہ نامی علاقے سے منگواتے تھے، ایک سوال پر طالب علم نے بتایا کہ چونکہ وہ شرط لگا کر اسنوکر کھیلا کرتے تھے اور جو شرط جیت جاتے تھے اس سے ملنے والی رقم نشے پر خرچ ہوجاتی تھی، یہاں پولیس کے رویے پر کیے گئے سوال پر مذکورہ طالب علم نے بتایا کہ ایک بار پولیس نے ہمیں روک کر منشیات برآمد کی تھی تاہم کچھ کہے بغیر جانے دیا جس سے اندازا ہوا کہ شاید وہ اس نشے کا کسی طور استعمال کرتے ہوں۔

اسی جگہ موجود ایک اور طالب علم جون کا کہنا تھا کہ اب وہ نشہ چھوڑ چکا ہے اور اس سال دسویں جماعت کے پرچے دے رہا ہے جبکہ باقی اوقات اسی ادارے کو اپنی خدمات بھی دے رہا ہے کیونکہ جو وقت نشے میں صرف ہوا اس دوران اس کے والدین فوت ہوچکے ہیں، کوویڈ میں ایک بھائی کا انتقال بھی ہوچکا اب گھر میں کوئی نہیں جن کے پاس جائے، پولیس کے رویے کے حوالے سے کیے گئے سوال پر جون نے بتایا کہ پولیس نے نشہ لاتے ہوئے کئی بار پکڑا لیکن لین دین کرکے ہر بار چھوڑ دیا مزید یہ کہ اگر پولیس والے خود پینے والے سے مل جائیں تو آسانی سے جان خلاصی ہوجاتی تھی۔

شاہراہ فیصل کے قریب نجی اسکول کے ایک علیحدہ طالب علم نے بتایا کہ “اس کا نشہ چھوٹ جانے کے بعد اس کے والدین نے اپنی رہائش کسی دوسرے علاقے میں اختیار کرلی تاکہ جن لڑکوں کی صحبت سے نشہ لگا وہ چھوٹ جائے، اس سوال پر کہ اس نے کیا سوچ کر نشہ شروع کیا ؟ طالب علم کا کہنا تھا کہ سگریٹ پینے کے مختلف انداز اور دو انگلیوں کے مابین سگریٹ کو پکڑنے کے اسٹائل اسے متاثر کرتے تھے اور یہی دیکھ کر پہلے سگریٹ پی اور پھر معاملہ آگے بڑھتا چلا گیا۔

نشے کے عادی طلبہ کی کونسلنگ کرنیوالے جولیان کا موقف:

صدر کے علاقے ٹرینٹی کیتھیڈرل کمپاونڈ میں قائم بحالی کے ادارے ابتداء کے سینیئر کونسلر julian Justine نے “ایکسپریس ” کو بتایا کہ نشے کے حوالے سے صورتحال روز بروز بگڑتی جارہی ہے پہلے نجی اسکولز ہمیں سینیئر کلاسز کے طلبہ کی کونسلنگ کے لیے بلارہے تھے اب ہم گلشن اقبال کے اسکولوں میں پانچویں اور چھٹی جماعت تک کے طلبہ کی کونسلنگ کرچکے ہیں کیونکہ مزید چھوٹی عمرکے طلبہ کے کیسز بھی سامنے آچکے ہیں۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے مشاہدے میں بعض ایسے نجی اسکول بھی آئے ہیں جہاں اندرون سندھ کے علاقوں سے آئے ہوئے صاحب ثروت گھروں کے بچے پڑھتے اور نشہ کرتے ہیں, ان طلبہ کی اسکولوں میں کئی کئی ماہ کی فیس جمع ہوتی ہے اس لیے اسکول ان کے خلاف کسی بھی  کارروائی سے گریز کرتے ہیں بصورت دیگر ان کا کاروبار متاثر ہوگا۔ اپنی میز پر بکھرے منشیات کے کچھ نمونے دکھاتے ہوئے julian نے اپنی دراز کھولی اور کیمبرج کی ایک طالبہ سے بازیاب کی ہوئی آئس کی kit دکھائی جو طالبہ کے بھائی نے اس کے کمرے سے بازیاب کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ طالبہ اب ذہنی صحت کے ساتھ دبئی جاچکی ہے یہاں انہوں نے انکشاف کیا کہ بعض نشے ایسی چیزوں میں دستیاب ہیں جسے عام آدمی یا والدین کے لیے پکڑنا مشکل یے الیکٹرونک سیگریٹ ان میں سے ایک ہے جو بظاہر ایک پن کی صورت میں نشہ کرنے والے طلبہ اپنے پاس رکھتے ہیں، انہوں نے ایک مخصوص پیپر بھی دکھایا جو ٹشو پیپر کی طرح ہے اور اس پر ایک چھوٹا سا مخصوص “تاج” crown بنا ہوا ہے اس پیپر میں بھی نشہ بنا کر جلاکر استعمال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صدر کے علاقے سمیت دیگر علاقوں کے بعض ہوٹل اس ضمن میں سہولت کاری کا کام کررہے ہیں اگر وہ طلبہ کو منشیات فراہم نہیں بھی کررہے تو طلبہ یہاں بیٹھ کر نشہ ضرور کرتے ہیں اسکول کی چھٹی سے لے کر گھر جانے کے دورانیے کے دوران یہ سب کچھ ہورہا ہے جس سے عمومی طور پر والدین ناواقف ہیں ایک سوال پر مذکورہ کونسلر کا کہنا تھا کہ بعض اوقات اسکولوں کے چوکیدار بھی نشے کی فراہمی میں ملوث ہوتے ہیں لہذا طلبہ اور ان کے مابین گفتگو یا تعلق پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

منشیات کے مختلف نام:

کلفٹن اور ڈیفنس سمیت کراچی شہر کے پوش علاقوں کے نجی اسکولوں میں استعمال ہونے والے نشے میں آئس، کرسٹل ویپ سیگریٹ، الیکٹرونک سیگریٹ (ذائقہ دار) ، چرس، گردا، valo اور کچھ پارٹی ڈرگس اس کے علاوہ ہیں۔ دوسری جانب محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کی اس معاملے کے سدباب کے لیے کوششیں بھی جاری ہیں تاہم یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ چونکہ سپلائی لائن نہ ٹوٹنے کے سبب یہ کاوشیں اثر انداز ہونے کے باوجود بھرپور نتائج نہیں دے رہی ہیں۔

اسکولوں میں انسداد منشیات کے سلسلے میں کام کرنے والے سرکاری افسران و کونسلرز کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں دیے گئے لائن آف ایکشن پر تعلیمی اداروں کی انتظامیہ تو کام کرلیتی ہیں لیکن جب اسکولوں کے اطراف ڈھابہ ہوٹلز ، مختلف اسموکنگ ایریاز (کلفٹن و ڈیفنس کے ہوٹلز میں موجود اسموکنگ ایریاز) بند نہیں کیے جائیں گے ہماری ساری کاوشیں رائیگاں جاتی رہیں گی کیونکہ اسکول انتظامیہ محض کیمپس کی حدود میں اقدامات کرسکتی ہیں۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز سندھ پروفیسر رفعیہ ملاح:

ایڈیشنل ڈائریکٹر پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز سندھ پروفیسر رفعیہ ملاح کے مطابق حکومتی ہدایات پر اسکول انتظامیہ طلبہ کے اسکول کے بستوں کی اچانک جانچ کرتی ہیں، اسکول کو بتادیا ہے کہ طلبہ کے باتوں اور جیبوں میں رکھے ہوئے قلم سے دھوکا نہ کھائیں ان میں اکثر ای سیگریٹ ہوتی ہیں، ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے بڑے اور معروف اسکولوں جن میں بیکن ہائوس، ناصرہ اسکول، بے ویو، کراچی گرامر، بی وی ایس پارسی اور ماما پارسی سمیت دیگر تعلیمی ادارے شامل ہیں یہاں باقاعدہ ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں جعفر پبلک اسکول نے اپنے کیمپس میں sick room تک قائم کیا ہوا ہے جو ان مسائل سمیت دیگر میڈیکل ایشوز سے نمٹنے کے لیے ہیں اسی طرح بے ویو اسکول نے ڈرگ تھراپسٹ متعین کیا ہوا ہے۔

انسداد منشیات پالیسی: 

واضح رہے کہ اس حوالے سے قانون سازی میں تاخیر کے سبب ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز سندھ کی جانب سے policy against drug abuse in educational institutions in sindh 2023 تیار کرکے حکومت سندھ کو بھجوائی جاچکی ہے،
اس پالیسی میں ہر طرح کی نشے آور اشیاء کی اسکول کیمپسز کے اطراف میں دستیابی پر پابندی کی تجویز دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ کا متعلقہ محکمہ اس سلسلے میں supply sources کو کنٹرول کرے۔مزید کہا گیا ہے کہ اسکولوں میں طلبہ کے پیشاب اور خون کے نمونے اچانک حاصل کرکے اس کے ٹیسٹ کرائے جائیں اس میں محکمہ صحت کو شامل کیا جائے اور یہ عمل confidential ہو ٹیسٹ کے نتائج اسکول انتظامیہ اور والدین سے شیئر کیے جائیں۔

پالیسی کے اطلاق کے لیے اس ڈرافٹ میں ایک اعلی اختیاراتی مانیٹرنگ کمیٹی بنانے کی تجویز بھی دی گئی ہے جس میں محکمہ تعلیم سے متعلق حکومت سندھ کے تینوں محکمے کے سینئر افسران بطور نمائندے( اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ، کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ اور یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ) کے علاوہ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ، ہوم ڈپارٹمنٹ اور اینٹی نارکوٹکس فورس کے نمائندے شامل ہوں یہ کمیٹی اس پالیسی کے اطلاق اور اس کے اثرات کا جائزہ لیتی رہے پالیسی میں اس بات کا انکشاف موجود ہے کہ کراچی کے elite اسکولوں کے طلبہ کے لیے مہنگے نشے کا استعمال کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے لہذا drug traffickers نے ان اسکولوں کو ہدف بنایا ہوا ہے۔

سیکریٹری اسکول سندھ غلام اکبر لغاری:

سیکریٹری اسکول سندھ غلام اکبر لغاری نے کراچی کے اسکولوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کے حوالے سے “ایکسپریس” کے کیے گئے سوال پر بتایا کہ ہم اسکولوں میں بلڈ اسکریننگ شروع کرنے جارہے ہیں سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سے پوچھا گیا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سندھ کے تعلیمی اداروں (اسکول و کالج) میں منشیات کے استعمال کی روک تھام کے لیے ساری توجہ صرف نجی اسکولوں پر ہی مرکوز ہے اور سرکاری اسکولوں میں طلبہ کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ اگر چھاہیں تو نشہ کرتے رہیں سرکاری اسکولوں میں منشیات کی روک تھام کے حوالے سے کوئی مہم چلائی جاتی ہے نہ ہی کسی ڈائریکٹر اسکولز کو پابند کی جاتا ہے کہ اس حوالے سے معلومات جمع کرکے رپورٹ تیار کرکے محکمے کو دی جائے۔

اس سوال پر سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سندھ کا کہنا تھا کہ “کراچی کے اسکولوں میں مہنگی منشیات کا استعمال ہورہا ہے سرکاری اسکولوں کے طلبہ اس کے اخراجات برداشت ہی نہیں کرسکتے تاہم اس استفسار پر کہ کیا سستا نشہ ان سرکاری اسکولوں میں استعمال نہیں ہوتا جس پر غلام اکبر لغاری کا کہنا تھا کہ ضرور ہوتا ہوگا ہماری توجہ اس جانب کم رہی ہے تاہم اب ہم سرکاری اسکولوں پر بھی توجہ دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ہم بہت جلد اسکولوں میں بلڈ اسکریننگ شروع کرنے جارہے ہیں جس کے ذریعے ہم طلبہ کی باقاعدہ شناخت کرسکیں گے، بلڈ اسکریننگ کس طرح ہوگی اس پر سیکریٹری اسکول ایجوکیشن کا کہنا تھا کہ کوویڈ ویکسینیشن بھی تو ہوئی تھی اگر ضرورت پڑی تو ہم منظوری یا قانون سازی کرسکتے ہیں لیکن اب اسکریننگ ضروری ہوگئی ہے اور والدین کو بھی اس کے لیے آمادہ کریں گے کہ وہ اس راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔

حساس اداروں اور اسکولوں کیساتھ اجلاس کا احوال:

ادھر ایک نجی اسکول کے ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ایک غیر معمولی اجلاس 9 فروری کو ہوا تھا جس میں باقاعدہ طور پر حساس اداروں کے افسران بھی شریک ہوئے تھے جبکہ محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے ڈیفنس/کلفٹن کے معروف نجی اسکولوں کو اس اجلاس میں بلایا گیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں حساس اداروں کی جانب سے بھی یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ اسکولوں میں منشیات کے عادی طلبہ کہ نشاندہی کے لیے بلڈ اسکریننگ شروع کرنی ہوگی اس اجلاس میں ان اسکولوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اسکولوں کے اندر مذکورہ منشیات کا استعمال روکنے کے لیے سختی کریں اس اجلاس میں نیکسر کالج، بیکن ہائوس اسکول، سٹی اسکول، کراچی گرامر، حق اکیڈمی اور بے ویو سمیت دیگر کچھ elite schools شریک تھے۔

مزید براں محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ذیلی ادارے ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز کی جانب سے اسکولوں میں منشیات کی روک تھام کے سلسلے میں حکومت سندھ کو دی گئی پالیسی میں مزید تجاویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نشے کے حوالے سے متعلقہ قرآنی آیات کو ترجمے کے ساتھ نصاب کا حصہ بنایا جائے معاشرے کے معروف افراد فنکار، گلوکار، شاعر، کھلاڑیوں اور اینٹی نارکوٹکس فورس کو اس مہم میں شامل کرکے short motivational videos بنا کر اسے چینلز پر آن ایئر کیا جائے جبکہ منشیات کے استعمال کے خلاف فتویٰ جاری کراکے اس معاملے کو جمعہ کے خطبوں میں اجاگر کیا جائے۔

ماہر نفسیات کیا کہتے ہیں؟

طلبہ میں نشے کی وجوہات میں اکیڈمک پریشر، والدین سے توقعات کا پورا نہ ہونا، پوش علاقوں کے سوشل سرکل جبکہ والدین اور بچوں کے مابین تعلق میں دوریاں سمیت دیگر وجوہات شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ماہر نفسیات اور جامعہ کراچی شعبہ جرمیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر فرح اقبال کا کہنا ہے کہ “ماحول نے آج کے طالبعلم کو adventurist بنا دیا ہے انہیں excitement ہے، ایک دوسرے سے اسٹائل میں مسابقت ہے، انہی وجوہات کی بنا پر یہ ڈرگس کی جانب آرہے ہیں، نجی اسکولز کی پارٹیز میں ڈرگس کے استعمال کی شکایات ہیں۔

ڈاکٹر فرح اقبال نے بتایا کہ ہمارے پاس کچھ ایسے کیسز بھی آتے ہیں جن کی براہ راست کونسلنگ نہیں ہوسکتی کیونکہ اس انتہائی addiction کے سبب انہیں پہلے detoxification کے مرحلے سے گزارنا ہوتا ہے تاکہ وہ بات سن اور سمجھ سکیں، ان کا کہنا تھا کہ کچھ ایسے نشے ہیں جس کے لیے والدین کہتے ہیں کہ ہمیں تو کبھی اس کی بو تک نہیں آئی کیونکہ ان میں کوئی smell نہیں ہوتی تاہم مشکل یہ ہے کہ والدین بچوں کے behavioral changes سے بھی اندازا نہیں لگاتے کہ بچہ نارمل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت کی جانب سے بھی قانون سازی کی کوششیں ہورہی ہیں ایک بل اسمبلی ۔یں پیش کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے جس میں سخت سزائیں، students rehabilitation centre اور دیگر تجاویز پیش کی گئی ہیں تاہم کیا موجود حکومت کے باقی ماندہ چند روز میں یہ قانون سازی ہوپائے گی یا نہیں یہ بات سوالیہ نشان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔