انصاف کی فوری اور بلاقیمت فراہمی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 7 جون 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پاکستان عدالتی نظام کے حوالے سے دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شامل ہے۔ اعلیٰ عدالتوں سے لے کر نچلی عدالتوں تک کی کارکردگی کے بارے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں، بعض وکلاء کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں میں خلیج گہری ہوتی جارہی ہے۔

چند ماہ کے دوران بڑے بڑے لوگوں اور ان کے اہلِ خانہ کی آڈیو لیکس سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔ ان آڈیو لیکس میں محترم چیف جسٹس کی خوش دامن کی ایک نامور وکیل کی اہلیہ سے بات چیت، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سے تبادلہ خیال اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادہ نجم ثاقب کی تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی کے امیداواروں کے ٹکٹ سے متعلقہ تحریک انصاف کے رہنماؤں سے بات چیت شامل ہیں ،مگر ان آڈیو لیکس کی تحقیقات کرانے کے حوالے سے ہمارے نظام انصاف خاموش رہا ۔

ان آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت نے عدالت عظمی کے سینئر موسٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اس کمیشن میں شامل ہیں۔

اس کمیشن نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا تھا کہ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے جس کی صدارت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کررہے تھے، اس تحقیقاتی کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا، یوں ہمارے نظام عدل کی تاریخ میں ایک اور مثال قائم ہوئی۔

یہ پہلا معاملہ نہیں جسے حکم امتناعی کے ذریعہ روک دیا گیا۔ اس سے پہلے پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کو محدود کرنے اور ازخود نوٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کے بارے میں قانون منظور کیا تھا۔ معزز عدالت نے اس قانون کو بھی حکم امتناع کے ذریعہ روک دیا۔ ایک سینئر صحافی نے جو گزشتہ 20برسوں سے اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے مقدمات کی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔

انھوں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں انکشاف کیا کہ پاناما کیس کا فیصلہ سنانے میں دیر، اس لیے ہوئی تھی کہ چیف جسٹس اس مقدمہ کا فیصلہ اپنے اہلِ خانہ کے سامنے سنانا چاہتے تھے مگر اہلِ خانہ کے دیر سے آنے کی بنا پر فیصلہ کے اجراء میں تاخیر ہوئی۔

ان رپورٹر صاحب کا دعویٰ ہے کہ اس روایت پر اب بھی عمل ہورہا ہے۔ بھارت میں یہ روایت ہے کہ ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی اہلیہ، بیٹا، بیٹی اور داماد اس ہائی کورٹ میں پریکٹس نہیں کرتے ۔ ان افراد کو پریکٹس کے لیے دیگر ہائی کورٹ میں جانا پڑتا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کی اہلیہ، بیٹا، بیٹی اور داماد سپریم ورٹ میں اس وقت تک پریکٹس نہیں کرسکتے جب تک ان کے عزیز اپنے عہدہ پر کام کررہے ہوتے ہیں مگر پاکستان میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ عدالتی معاملات پر توجہ دینے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ بار کونسل کے ضابطہ اخلاق میں یہ شق شامل ہونی چاہیے اور بھارت کی طرح ججوں کے قریبی رشتہ داروں پر کچھ پابندیاں عائد ہونی چاہئیں۔

ابھی تک ججوں کے تقرر کے طریقہ کار کا معاملہ متنازعہ بنا ہوا ہے۔ آئین میں جب 18ویں ترمیم کی گئی تو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری وکلاء کی کامیاب تحریک کے نتیجہ میں بحالی کے بعد ایک طاقت ور چیف جسٹس بن چکے تھے۔ اٹھارہویں ترمیم میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے تقرر میں عدالتی کمیشن کے ساتھ ساتھ پارلیمانی کمیٹی کو بھی بااختیار کیا گیا تھا مگر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس معاملہ کو ازخود نوٹس لیتے ہوئے پارلیمنٹ کو ہدایت کی تھی کہ آئین میں 19ویں ترمیم کی جائے۔

اس 19ویں ترمیم کے ذریعہ پارلیمانی کمیٹی کو محض تماشائی بنایا گیا۔ عدالتی کمیشن میں ججوں کے نام تجویز کرنے کا اختیار صرف چیف جسٹس کے لیے مختص کردیا گیا ۔ یوں اس کے بعد آنے والے بعض چیف جسٹس صاحبان نے سپریم کورٹ میں ججوں کے تقرر کے لیے سینیارٹی کے اصولوں کو پس پشت ڈال دیا،اس طرح چیف جسٹس صاحبان نے ہائی کورٹ کے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے کی روایت کو اپنایا۔ پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور وکلاء تنظیموں نے اس روایت کے خاتمہ کے لیے طویل جدوجہد کی مگر ابھی تک یہ تنازعہ موجود ہے۔

وکلاء تنظیمیں چیف جسٹس کے بنچ بنانے کے اختیار اور ازخود نوٹس کے اختیار کو ریگولرائز کرنے اور ازخود نوٹس پر فیصلوں کے خلاف اپیل کے حق کے قانون کی مکمل حمایت کررہی ہیں۔ مگر ایک اچھی خبر یہ ہے کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم پر تیار ہوگئی ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالتی اصلاحات بل پر نظرثانی کی تجویز پیش کی تھی تو چیف جسٹس عطاء بندیال نے حکومت کی اس تجویز کا خیرمقدم کیا۔

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا کا کہنا ہے کہ گزشتہ ڈھائی برسوں سے فل کورٹ اجلاس منعقد نہیں ہوا جس کی بناء پر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے درمیان اختلافات کا ذرایع ابلاغ پر ذکر ہونے لگا ہے۔

انھوں نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ فل کورٹ اجلاس بلایا جائے تاکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے درمیان اختلافات کا تاثر ختم ہوسکے۔ اس وقت ملک میں ہزاروں افراد کے مقدمات برسوں سے التواء کا شکار ہیں مگر انصاف کی فوری اور بلاقیمت فراہمی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔