بجٹ 2023-24؛ عوام کو ریلیف دینے کے حکومتی ارادے اور اقدامات بارآور ہوپائیں گے؟

ارشاد انصاری  جمعـء 9 جون 2023
بیرون ملک پاکستانیوں کو زرمبادلہ پاکستان بھجوانے پر آمادہ کرنے کیلئے خصوصی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

بیرون ملک پاکستانیوں کو زرمبادلہ پاکستان بھجوانے پر آمادہ کرنے کیلئے خصوصی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

اتحادی حکومت انتہائی مشکل حالات میں اپنا دوسرا بجٹ رواں ہفتے پارلیمنٹ میں پیش کرنے جارہی ہے۔

مجموعی طور پر ساڑھے چودہ ہزار ارب روپے سے زائد مالیت پر مشتمل آئندہ مالی سال 2023-24 کاوفاقی بجٹ 9 جون کو پیش کئے جانے کا امکان ہے۔

آئندہ مالی سال کیلئے مالیاتی خسارے کا ہدف چھ ہزار ارب روپے،جی ڈی پی کے لحاظ سے وفاقی مالیاتی خسارے کا ہدف 7.7 فیصد مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔

وفاقی اور صوبائی کا مالیاتی خسارے کا ہدف 7.1فیصد متوقع ہے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 430ارب روپے مختص کئے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق دفاعی بجٹ کا حجم 1800ارب روپے کے لگ بھگ متوقع ہے ،ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9.2 ٹریلین روپے متوقع ہے نان ٹیکس ریونیو کا ہدف دو ہزار آٹھ سو ارب روپے متوقع ہے آئندہ مالی سال کیلئے شرح نمو 3.5 فیصد اور مہنگائی کیلئے 21 فیصد کا ہدف مقررکیا گیا ہے۔

بجٹ خسارے کا مجموعی پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 0.3 فیصد کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے قائم کردہ کمیٹیاں بھی سفارشات پیش کرچکی ہیں۔

اس کے علاوہ آئندہ سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف ساڑھے تین فیصد سے زیادہ رکھنے کی تجویز ہے جب کہ رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 0.29 فیصد رہی ہے لیکن ان اعداد و شمار کو دستیاب وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے نو جون کی صبح وزیراعظم کی زیر صدارت ہونیوالے وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں وفاقی بجٹ کے حتمی مسودے کی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دی جائے گی وہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا فیصلہ بھی ہوگا۔

ابھی اطلاعات یہی ہیں کہ حکومت سرکاری ملازمین کو بڑا ریلیف دینے جا رہی ہے اور ملازمین کی تنخواہوں و پنشن اور مراعات میں دس تا پچیس فیصد اضافے کی تین تجاویز زیر غور ہیں اسکے ساتھ ساتھ ملازمین کی کم ازکم اجرت اور ای او بی آئی پنشنرز کی پنشن میں اضافے کی بھی تجاویز ہیں البتہ حتمی فیصلہ تو پارلیمنٹ کی منظوری سے ہوگا مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں اگلے مالی سال کا بجٹ حکومت کیلئے بہت بڑی آزمائش ہے ایک جانب شدید ترین مالی و معاشی بحران ہے اوربجٹ سازی کیلئے وسائل دستیاب نہیں ہیں۔

دوسری طرف اگلے عام انتخابات سر پر کھڑے ہیں جبکہ حکومت بطور خاص پاکستان مسلم لیگ (ن) پہلے ہی اپنی عوامی مقبولیت سیاست کی بجائے ریاست بچانے کے بیانیہ کی نذر کرچکی ہے۔ بجٹ 24-2023 میں عوام کو مناسب ریلیف دینے کا پلان تیار کرلیا گیا، نئے بجٹ میں غریب اور متوسط طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کی تجویز زیر غور ہے جبکہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کیلئے بھی خوشخبری ہے۔

بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اور پینشن میں 15 فیصد اضافہ کی تجویز ہے حکومت نے مالی سال 24-2023ء میں عوام کو بڑا ریلیف دینے کا پلان تیار کرلیا ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے سبسڈی براہ راست مستحقین تک پہنچائی جائے گی۔

بجٹ تجاویز کے مطابق غریب اور متوسط طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دی جاسکتی ہے جبکہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو مہنگائی کے پیش نظر مناسب ریلیف دینے کا بھی پلان ہے حکومت کی جانب سے رعایتی نرخ پر چینی، آٹا اور گھی دینے کی اسکیم میں توسیع کا امکان ہے، موٹر سائیکل مالکان کیلئے سستا پیٹرول اسکیم لانے کی بھی تجویز زیر غور ہے، مجوزہ اسکیم کیلئے آئی ایم ایف کو پھر قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

عالمی مالیاتی ادارہ بڑھتے مالی خسارے کے باعث اسکیم پر اعتراض کر چکا ہے نوجوانوں، مزدور طبقے، کسانوں اور غریب خواتین کو بھی بجٹ میں ریلیف دینے کی تجویز ہے جبکہ یوریا کھاد پر سبسڈی براہ راست کسان کو دینے کیلئے بھی حکمت عملی پر کام جاری ہے آئندہ مالی سال (24۔2023) کے لئے 2.709 ٹریلین روپے کے مجموعی سالانہ ترقیاتی منصوبہ (اے ڈی پی) تجویز کیا گیا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام 2023/24 کے تحت 1,150 ارب روپے اور صوبے 1,559 ارب روپے خرچ کریں گی۔ پی ایس ڈی پی کی مد میں 1150 کا تاریخی بجٹ مختص کیا گیا ہے ،قومی ترقیاتی پروگرام 2709 ارب روپے خرچ ہوں گے،بلوچستان اور پنجاب کا 4,4 ماہ کا ترقیاتی بجٹ منظور کیا گیا ہے۔

ان دونوں صوبوں کا مکمل بجٹ ملا کر 3000 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہو جائے گا،این ایچ اے کیلئے 161 ارب روپے، آبپاشی کے منصوبوں کیلئے 110 ارب روپے، ایس ڈی جیز کیلئے 90 ارب روپے، ایچ ای سی کیلئے 60 ارب روپے ، زراعت کیلئے 45 ارب روپے رکھے گئے ہیں59 ارب ہائیر ایجوکیشن کے لیے مختص کیے جائیں گے،کراچی اور حیدرآباد کے درمیان ایک نئی موٹروے بنانے کا منصوبہ ہے، خوراک اور زراعت کے شعبے میں 47 ارب روپے رکھے ہیں، ایس ڈی جیز کے لیے 90 ارب روپے کی تجویز ہے۔

بلوچستان کے لیے 137 ارب روپے کے منصوبے رکھے ہیں اگلے سال شرح نمو 3.5، مہنگائی کی شرح 21 فیصد تک رہنے کا امکان ہے، پچھلی حکومت نے آخری سال 84 ارب ڈالر کی درآمدات کیں، سیلاب سے متاثرہ صوبوں میں بحالی کے لئے فنڈز مختص کئے گئے ہیں، سندھ کیلئے 345 ارب، بلوچستان کیلئے 104 ارب اور خیبر پختونخوا کیلئے 84 ارب مختص کئے گئے ہیں، پنجاب کیلئے 29 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں پائیدار ترقی کے اہداف کیلئے 90 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، رواں مالی سال 111 ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔

سکولوں سے باہر طلباء کیلئے 25 ارب روپے کا منصوبہ لایا جارہا ہے، ہمارے 2 کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں، سی پیک کے منصوبوں کیلئے رقوم مختص کی گئی ہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کے لیے 45 ارب روپے مختص کردیئے گئے جن میں مزید اضافہ متوقع ہے یہ فنڈز لیپ ٹاپ اسکیم سمیت 152 مختلف منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔

جٹ میں ایچ ای سی کے14 نئے، 138 پہلے سے جاری منصوبے بھی شامل ہیںمختص فنڈ میں 12 ارب روپے کی لاگت کی وزیراعظم یوتھ لیپ ٹاپ اسکیم فیز تھری شامل ہے، اگلے سال لیپ ٹاپ اسکیم پر 6 کروڑ 80 لاکھ خرچ ہوں گے۔

نیشنل سائبر سیکیورٹی اکیڈمی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر 60 کروڑ لاگت آئے گی، 7 ارب ارب39 کروڑ روپے لاگت کا پاک چین مشترکہ ریسرچ سینٹرمنصوبے بھی شامل ہیں جبکہ ملک بھر میں سرکاری جامعات کی اپ گریڈیشن کے متعدد منصوبے بھی دستاویزات کا حصہ ہیں۔ نواز شریف یونیورسٹی ملتان، نارووال یونیورسٹی میں سہولیات فراہم کی جائیں گی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں کے طلباء کو اعلی تعلیم کی فراہمی کا منصوبہ شامل، 3ارب لاگت آئے گی۔ پاک یو ایس میرٹ بیسڈ اسکالرشپ پروگرام بھی بجٹ کا حصہ ہے۔

اس کے علاوہ توانائی بچت پلان کی بھی منظوری دی گئی ہے جس کے تحت ملک بھرمیں مارکیٹیں مستقل رات 8 بجے بند کرنے کی تجویز دی گئی ہے اس فیصلے سے 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی بچت ہوگی توانائی بچت پلان منگل کو ہونے والے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں پیش یا گیا تھا جسکی منظوری دی گئی اس مجوزہ پلان میں مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس فیصلے سے سالانہ 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی بچت ہوگی اور ملک بھر میں مارکیٹیں جلد بند کرنے سے 28 لاکھ 50 ہزار یونٹ بجلی بچے گی توانائی بچت پلان کے تحت عام بلب کے استعمال پر پابندی کی بھی تجویز ہے، جس کے ذریعے 10 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی بچت متوقع ہے۔

عام بلب کے استعمال پر پابندی سے ایک ارب یونٹ بجلی کی بچت ہوگی اسی طرح واٹر گیزر کی مد میں 41 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی بچت کا تخمینہ لگایا گیا ہے حکومت نے ڈسکوز اور گیس کمپنیوں کیلئے لوڈ مینجمنٹ پلان تیار کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے جبکہ قومی انرجی بچت پلان پر عمل درآمد کو بڑا چیلنج قرار دیا گیا ہے۔

قومی اقتصادی کونسل نے وفاق اور صوبوں کو قومی توانائی بچت پلان پر عملدرآمد کی ہدایت کردی ہے۔

آئی ٹی کے شعبہ میں فکسڈ ٹیکس رجیم لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ کے لئے بڑا پیکیج بھی متعارف کروایا جارہا ہے بجٹ میں آئی ٹی کے شعبے میں نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو خصوصی مراعات دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اورجدید ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے ذریعے کاروبار اور تجارت کے فروغ پر خصوصی رعایت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ نوجوانوں کے اپنا کاروبار شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے نوجوانوں کو آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہنرمند بنانے کے پروگرام میں بڑی توسیع کے خصوصی پروگرام کی بھی منظوری دی گئی خصوصی ٹریننگ آئی ٹی زونز بنانے کے بڑے فیصلے کی بھی وزیراعظم نے منظوری دے دی ہے۔

وزیراعظم کی آئیندہ مالی سال کے بجٹ میں آئی ٹی سے متعلقہ سفارشات کو شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں بجٹ سفارشات کی منظوری سے لاکھوں کی تعداد میں نیا روزگار پیدا ہوگا۔ وزیراعظم کی نوجوانوں کو آئی ٹی کے شعبے میں نئی کمپنیوں کی تشکیل کے لئے خصوصی راہنمائی اور سرکاری مدد فراہم کرنے کے اقدامات بھی متعارف کروائے جائیں گے۔

وزارت آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن نے آئندہ مالی سال 2023-24 کے وفاقی بجٹ کیلئے 16 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد کی بجٹ تجاویز دیدی ہیں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی حکام کے مطابق وزارت آئی ٹی کی جانب سے آئندہ مالی سال 2023-24 کیلئے کی جانیوالی 16 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد کی بجٹ تجاویزمیں مجموعی بجٹ میں وزارت اور اس سے منسلک اداروں کے ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات شا مل ہیں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مطابق بجٹ کے مجموعی حجم میں 10 ارب 50 کروڑ روپے کے غیر ترقیاتی اخراجات شامل ہیں۔

جبکہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جاری اور نئے منصوبوں کیلئے 6 ارب روپے تجویز کیئے گئے ہیں جس میںآ ئی ٹی ونگ، نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ، اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن، سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ، وزارت آئی ٹی کے فنڈ کردہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی مختلف منصوبوں کیلئے رقم مختص کرنے، یوان صدر، سینٹ، قومی اسمبلی کو ڈیجیٹلائزکرنے، جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن کمپلائنس مینجمنٹ سسٹم، وفاقی وزارتوں اور محکموں میں اسمارٹ آفس کے جاری منصوبوں کی تکمیل کے منصوبے شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مختلف شہروں میں 4 نالج پارکس کی تعمیراوراضلاع میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس کے قیام کے منصوبے ،کراچی، لاہور، اسلام آباد، مظفر آباد اور گلگت میں کرائم اینالیٹکس اینڈ اسمارٹ پولیسنگ منصوبے، ملک بھرمیں فری لانسنگ ٹریننگ پروگرام کی وسعت، نیشنل انکوبیشن سینٹرز کے قیام اور آپریشنل اخراجات، سائنو-پاک، سینٹر آف آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے قیام، ون پیشنٹ-ون آئی ڈی منصوبہ، انٹرن شپ پروگرام، سائبر سیکیورٹی پروگرام کے منصوبے، آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں براڈ بینڈ سروسز کی توسیع اور ڈیٹا سینٹرز کے قیام اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کیلئے آن لائن ریکروٹمنٹ سسٹم سمیت دیگر منصوبے شامل ہیں۔

حکومت نے آئندہ بجٹ میں آئی ٹی، سائنس اور اسپیس ٹیکنالوجی پر خصوصی توجہ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ تینوں شعبوں کیلئے تقریباً ساڑھے 18 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے مالی مشکلات کے باوجود آئندہ مالی سال کے بجٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ، زرعی اور خلائی تحقیق کیلئے18 ارب 40 کروڑ مختص کرنے کی تجویز ہے۔

یہ رقم گذشتہ بجٹ سے ایک ارب روپے زیادہ ہے ترقیاتی بجٹ میں خلائی تحقیق سمیت سائنس و ٹیکنالوجی کے 37 جبکہ وزارت آئی ٹی کے41 منصوبیشامل ہوں گے۔ اسمارٹ کارڈ ، موبائل سمز اور چپس مقامی سطح پر بنانے کا منصوبہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہے ملک میں سائبرجرائم کے تدارک کے لئے سمارٹ پولیسنگ، ڈیجیٹل سرگرمیوں کے تحفظ اور مانیٹرنگ کے منصوبوں کیلئے بھی فنڈز رکھیجا رہے ہیں۔

آن لائن سیٹلائٹ امیج اور پاکستان ملٹی مشن کمیونیکشن پراجیکٹ بھی ترقیاتی بجٹ میں شامل ہے۔سائبر ایفیشنٹ پارلیمنٹ،ایک مریض ایک آئی ڈی اور ورچوئل تعلیم کے منصوبوں کو بجٹ میں شامل کر لیا گیا۔ پاکستان ڈیجیٹل اکانومی کلاوڈ ڈیٹا سنیٹر کراچی اور آئی ٹی پارک فری لانسرز ٹریننگ کیلئے بھی فنڈز مختص کرنے کی تجویز ہے۔ بھنگ اتھارٹی اور ٹیسٹنگ لیبارٹریز کے قیام اور معیاری زرعی بیجوں کی تیاری کے منصوبے مجوزہ پلان کا حصہ ہیں۔

بجٹ 2023-24 میں ٹیکس تجاویز پر کام جاری ہے، حکومت نے 170 ارب کا منی بجٹ اور متعدد اشیاء پر اضافی جی ایس ٹی برقرار رکھنے کی تجویز دی ہے، جبکہ امپورٹڈ پیک شدہ فروزن مچھلی، گوشت، جام جیلی، چائے پر 18 فیصد سیلز ٹیکس برقرار رکھا جائے گا۔

بجٹ تجاویز کے مطابق درآمدی ڈبے میں بند گوشت اور مچھلی پر سیلز ٹیکس 18 فیصد کرنے کی تجویز ہے بجٹ تجاویز کے مطابق امپورٹڈ چکن، دیگر اشیاء پر بھی سیلز ٹیکس 18 فیصد کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ فروری میں سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھ کر 18 فیصدکی گئی تھی تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صابن، سرف اور برتن دھونے کے لیکوڈ پر سیلز ٹیکس 18 فیصد پر برقرار رکھنے کا امکان ہے جبکہ ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش اور ماؤتھ فریشنر پر بھی سیلز ٹیکس 18 فیصد پر برقرار رکھا جائے گا۔

بجٹ 24-2023میں ڈبے میں بند مصالحے، گوشت گلانے کے پاؤڈر پر ٹیکس 18 فیصد برقرار رکھنے اور پتی اور ڈبے میں بند سبز قہوے پر سیلز ٹیکس 18 فیصد پر برقرار رہنے کا امکان ہے۔

حکومت کا آئندہ مالی سال 2023-24 کے وفاقی بجٹ میں موبائل فون،جانوروں کی خوراک، کاسمیٹکس، کنفیکشریز، چاکلیٹس و پیک شدہ فوڈ سمیت تین درجن سے زائد درآمدی اشیا تعیشات اور نان فائلرز پر ٹیکس کی شرح بڑھائے جانے کا مکان ہے۔

اس حوالے سے ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں مہنگے اوردرآمدی موبائل فونز مزید مہنگے ہونے کا امکان ہے، اس کے علاوہ بجٹ میں 100 ڈالر سے زائد مالیت کے موبائل پر ڈیوٹی بڑھنے کا امکان بھی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ امپورٹڈ انرجی سیور بلب، فانوس اور ایل ای ڈی مہنگی ہوگی، امپورٹڈ الیکٹرانکس آئٹمز پر سیلز ٹیکس 25 فیصد برقرار رہے گا جب کہ درآمدی میک اپ کے سامان لپ اسٹک، مسکارے اور فیس پاؤڈر پر سیلز ٹیکس 25 فیصد برقرار رہے گا۔ذرائع کے مطابق بالوں کے لیے امپورٹڈ کلرز، ڈائیرز، پالتو جانوروں کی امپورٹڈ خوراک، امپورٹڈ برانڈڈ شوز، خواتین کے امپورٹڈ برانڈ کے پرس، امپورٹڈ شیمپو، صابن اور لوشن پر بھی سیلز ٹیکس 25 فیصد رہے گا ذرائع کا بتانا ہے کہ آئندہ بجٹ میں امپورٹڈ سن گلاسز، پرفیومز، امپورٹڈ پرائیویٹ اسلحہ، برانڈڈ ہیڈ فونز، آئی پوڈز، اسپیکرز، امپورٹڈ لگژری برتنوں، امپورٹڈ دروازے اور کھڑکیاں، باتھ فٹنگز، ٹائلز، سینیٹری ، امپورٹڈ کارپٹس اورغالیچے پرسیلز ٹیکس کی شرح 25 فیصد پربرقرار رہے گی۔

اس کے علاوہ امپورٹڈ انرجی ڈرنکس، امپورٹڈ جوسز ، گاڑیوں، موسیقی کے امپورٹڈ آلات، امپورٹڈ بسکٹ، بیکری آئٹمز ، امپورٹڈ چاکلیٹ اور کینڈی پر سیلز ٹیکس 25 فیصد پر برقرار رہے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لگژری آئٹمز پر سیلز ٹیکس 25 فیصد رہنے سے 55 ارب ا روپے کے لگ بھگ اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔

بجٹ میں نان فائلرز کے لیے گاڑیوں پرٹیکس میں اضافہ اور گاڑیوں پر ایڈوانس انکم ٹیکس میں دْگنا اضافہ کرنے جبکہ انجن کپیسٹی کے بجائے خریداری رسید پر ودہولڈنگ ٹیکس کی تجویز ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں بینکوں سے رقوم نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔

نان فائلرز پر بینکوں سے یومیہ 50 ہزار روپے کیش نکلوانے پر ٹیکس ختم کردیا گیا تھا لیکن اب بجٹ میں نان فائلرز پر بینک سے کیش نکلوانے پر عائد ٹیکس دوبارہ لگانے کی تجویز دی گئی ہے بجٹ میں انکم ٹیکس ایکٹ کی شق 231 ، 231 اے اور 236 پی کو بحال کرنے کی سفارش کی گئی ہے جب کہ حکومت نان ٹیکس آمدن 2.9 ٹریلین تک لے جانا چاہتی ہے۔

ذرائع کے مطابق پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی 50 روپے سے بڑھاکر 60 روپے فی لیٹر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، حکومت کو 10 روپے فی لیٹر لیوی بڑھانے سے 870 ارب روپے حاصل ہوں گے اور حکومت اس حاصل شدہ رقم سے پینشن میں 30 فیصد تک اضافہ کرنا چاہتی ہے، آئندہ مالی سال میں پینشن میں اضافے کے لیے 780 ارب روپے کی ضرورت ہوگی۔

وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2023-24 کے وفاقی بجٹ میں پسماندہ و متوسط طبقے کو ریلیف دینے کیلیے سبسڈیزکی مد میں تقریباً 1250 ارب روپے سے زائد مختص کیے جانے کا امکان ہے جبکہ بجٹ میں فوڈ سیکیورٹی کیلئے 55.5 ارب روپے کی سبسڈی مختص کی جائیگی وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں سبسڈی کی مد میں تقریباً 1250 ارب روپے سے زائد رکھنے کی تجویز ہے۔

بجٹ میں فوڈ سیکیورٹی کیلئے 55.5 ارب روپے کی سبسڈی مختص کی جائے گی جبکہ یوٹیلٹی اسٹورز سے سستی اشیاء فراہم کرنے کیلئے بھی 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ رمضان ریلیف کیلئے 5 ارب روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز ہے مجوزہ سبسڈی میں گلگت بلتستان کو گندم کی فراہمی کیلئے 10.5 ارب روپے، گندم کی فراہمی کیلئے پاسکو کو 10 ارب روپے اور میرا گھر میرا پاکستان کیلئے 12 ارب 20 کروڑ روپے کی سبسڈی شامل ہے۔

علاوہ ازیں سیلاب سے متاثرہ کسانوں کے قرض معاف کرنے کیلئے 7 ارب روپے اور پیٹرولیم سیکٹر کیلئے 53.6 ارب روپے کی سبسڈی رکھنے کی بھی تجویز ہے جبکہ گھریلو صارفین کو آر ایل این جی فراہم کرنے کیلئے 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پاک عرب پائپ لائن کیلئے 5 ارب روپے کی سبسڈی اور پی ایس او کے پرائس ڈیفرنشل کلیم کیلئے 11 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی، نیا پاکستان ہاؤسنگ کیلئے 50 کروڑ روپے کی سبسڈی مختص کی گئی ہے اور اسلام آباد کی میٹرو بس سروس کیلئے 2 ارب روپے کی سبسڈی رکھنے کی تجویز ہے۔

حکومت کی جانب سے ترسیلات زر بھجوانے والے اوورسیز پاکستانیوں کو مزید مراعات دینے کیلئے جامع سنٹرلائزڈ لائلٹی پروگرام متعارف کروانے کا بھی امکان ہے جس کے تحت ترسیلات زر بھجوانے والے اوورسیز پاکستانیوں کو ڈیبٹ کارڈ و لائلٹی کارڈز جاری کئے جائیں گے جبکہ سمارٹ فون بیسڈ مراعاتی پراڈکٹ متعارف کرائی جائے گی۔

علاوہ ازیں واچ(Vouch) 365 طرز کی خصوصی ایپ بھی متعارف کروائی جائے گی۔ اس لائلٹی پروگرام کے تحت ترسیلات زر بھجوانے والے اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کو او پی ایف کے سکولوں و کالجز کی فیسوں میں پچاس فیصد رعایات دینے کے ساتھ ساتھ ہاوسنگ سکیموں میں ان کیلئے خصوصی کوٹے رکھے جائیں گے جبکہ امیگریشن فیس اور انشورنس پریمئم و رجسٹریشن فیس سے چھوٹ دینے کی بھی تجویز زیر غور ہے علاوہ ازیں فریکوئنٹ فلائر کارڈ جاری کئے جائیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے ترسیلات زر کو فروغ دینے کیلئے ایڈیشنل فنانس سیکرٹری (انٹرنیشنل فنانس اینڈ انویسٹمنٹ)کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی قائم کی گئی تھی جو کہ وزارت خزانہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ایف بی آر، وزارت اوورسیز پاکستانیز، اوورسیز پاکستانیز فاونڈیشن، نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)، امریگریشن اینڈ پاسپورٹ آفس سمیت نیشنل بینک اور دیگر بینکوں کے نمائندوں پر مشتمل تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی نے جامع پروگرام کے بارے میں سفارشات پیش کی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ پروگرام کے تحت زیادہ ترسیلات زر بھجوانے والے اوورسیز پاکستانیوں کو سرکاری اداروں میں بھی خصوصی سہولیات فراہم کی جائیں گی جبکہ انٹرنیشنل ائیرپورٹس پر اوورسیز پاکستانیوں کیلئے الگ سے کاونٹر کھولنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔

جہاں اوورسیز پاکستانیوں کو بیرون ملک روانگی اور آمد کے موقع پر ترجیحی بنیادوں پر کلیئرنس کی سہولت دی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک،او پی ایف،ایف بی آر سمیت دیگر اداروں کی جانب سے متعدد تجاویز کے ساتھ اتفاق رائے کا بھی اظہار کیا جاچکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے تحت اوورسیز پاکستانیز فاونڈیشن(او پی ایف)نے اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کو او پی ایف سکولوں میں فیسوں کی مد میں پچاس فیصد رعایت دینے پر اتفاق کیا ہے اور اسی طرح اپنی ہاوسنگ سکیموں میں بھی اوورسیز کیلئے کوٹہ مختص کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ اوورسیز پاکستانیوں کو امیگریشن فیس سے بھی چھوٹ دینے کی تجویز زیر غور ہے جس کیلئے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ(بی ای او ای)کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اس بارے میں ورکنگ مکمل کرے گی امیگریشن فیس ،انشورنس پریمئم اور رجسٹریشن فیس سے چھوٹ دینے سے کتنا اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔

اس کیلئے او پی ایف ویلفیئر فنڈ اور اوورسیز ایمپلائنمنٹ کارپوریشن کے حکام مل کر ورکنگ مکمل کریں گے اسی طرح سول ایوسی ایشن اتھارٹی بھی اوورسیز پاکستانیوں کیلئے خصوصی مراعات کی تجاویز کا جائزہ لے رہی ہے جس کیلئے پاکستان ریمیٹنس اقدامات(پی آر آئی)اور اسٹیٹ بینک مل کر بینکوں کے ساتھ مشاورت سے ورکنگ مکمل کریں گے اور اوورسیز پاکستانیوں کیلئے تمام انٹرنیشنل ایئرپورٹس پر سی آئی پی لاونجزکے استعمال کے پروسیجر طے کریں گے اور اس پر آنے والی لاگت کا بھی تخمینہ لگائیں گے۔ اسی طرح اوورسیز پاکستانیوں کیلئے الگ سے کاونٹر قائم کئے جائیں گے۔

جہاں اوورسیز پاکستانیوں کے لئے ریڈ کارپٹ استعمال ہوگا اور ترسیلات زر کیلئے خصوصی اسٹینڈنگ اور ویلکمنگ نوٹ آویزاں کئے جائیں گے اور ان کاونٹرز پر اوورسیز پاکستانیز اپنی ترسیلات زر جمع کرواکر پاکستانی کرنسی حاصل کرسکیں گے اس کے علاوہ پی آئی اے کی طرف سے اوورسیز پاکستانیوں کو خصوصی فریکوئنٹ فلائنگ کارڈز جاری کرنے سمیت دیگر تجاویز بھی زیر غور ہیں اور پی آئی اے اس لائلٹی پروگرام کے تحت اوورسیز پاکستانیوں کیلئے مراعات کی پیشکشیں تیار کرکے ذیلی کمیٹی کے ساتھ شیئر کرے گا جس کے بعد اسے اس لائلٹی پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔

رواں مالی سال کے اہداف حاصل نہ ہوسکے
فی کس آمدنی میں 198 ڈالر کی کمی جی ڈی پی میں 34 ارب ڈالر کمی برآمدات کا ہدف بھی حاصل نہ ہوا

حکومت کی جانب سے رواں مالی سال 23-2022 کیلئے مقرر کردہ معاشی اہداف حاصل نہیں ہوسکے۔ ملکی معیشت کا حجم کم ہو کر341 ارب 50 کروڑ ڈالر پرآگیاجبکہ رواں مالی سال میں فی کس آمدن بھی کم ہو کر 1568 ڈالر پرآگئی۔

گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں فی کس آمدن میں 198 ڈالر کی کمی ہوئی،گزشتہ مالی سال پاکستان کی فی کس آمدن کا حجم 1766 ڈالر تھا رواں مالی سال ملکی معیشت کو سیلاب کی قدرتی آفات کا سامنا رہا۔ سیاسی عدم استحکام سے بھی ملکی معیشت متاثر ہوئی۔

سیلاب اور سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی گروتھ کم رہی، روس یوکرین جنگ کے باعث عالمی سطح پرکموڈٹی پرائس میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور نتیجتاً مہنگائی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ ہوا۔ حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کا اقتصادی سروے ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال معاشی شرح نمو 0.29 فیصد سے کم رہی جب کہ رواں مالی سال معاشی شرح نمو کا ہدف 5.01 فیصد تھا۔

تفصیلات کے مطابق رواں مالی سال 23-2022 کے اقتصادی سروے کے اہم نکات کے مطابق گزشتہ مالی سال کے مقابلے جی ڈی پی میں 34 ارب ڈالر کمی ہوئی،سال 2021-22 میں ملکی معیشت کا حجم 375.4 ارب ڈالر تھا رواں مالی سال فی کس آمدن بھی کم ہو کر 1568 ڈالر پرآگئی جو گذشتہ مالی سال کی نسبت 198 ڈالر کم ہے۔ سروے کے مطابق روپے میں ملکی معیشت کا حجم بڑھ کر 84 ہزار 760 ارب ہوگیا۔

گزشتہ سال کی نسبت معیشت کے حجم میں 10678 ارب کا اضافہ ہوا۔ پاکستانی روپے میں فی کس آمدن میں 75 ہزار 418 روپے کا اضافہ ہوا،سال 2022-23 میں فی کس آمدن 3 لاکھ 88 ہزار 755 روپے ریکارڈ کیا گیا،گزشتہ مالی سال فی کس آمدن 3 لاکھ 13 ہزار 337 روپے تھی۔رواں مالی سال جی ڈی پی کا حجم 84 ہزار 6 سو ارب سے زائد ریکارڈ کی گئی۔ رواں مالی سال کے دوران برآمدات کا متعین ہدف بھی حاصل نہ ہو سکا،رواں مالی سال جولائی سے مئی 25 ارب 36 کروڑ ڈالر کی برآمدات رہی ہیں۔

اقتصادی سروے کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال معاشی شرح نمو 0.29 فیصد رہی جب کہ رواں مالی سال معاشی شرح نمو کا ہدف 5.01 فیصد تھا۔ زرعی شعبے کی شرح نمو 1.55فیصد رہی جبکہ زرعی شعبے کی نمو کاہدف 3.9 فیصد مقرر تھا، شدید سیلاب نے زراعت اور دیگر اقتصادی شعبوں کوبری طرح متاثر کیا۔ فصلوں کی شرح نمو منفی 2.49 فیصد رہی، اہم فصلوں کی گروتھ منفی 3.20 فیصد رہی، اہم فصلوں کی گروتھ کا ہدف 3.5 فیصد مقرر تھا۔

لائیو اسٹاک کی ترقی کی شرح نمو 3.78 فیصد رہی، لائیو اسٹاک کی شرح نمو کا ہدف 3.7 فیصد مقرر تھا، فشریز کے شعبے کی گروتھ 1.44 فیصد رہی، فشریز کے شعبے کی گروتھ کا ہدف 6.1 فیصد تھا، جنگلات کے شعبے کی شرح نمو 3.93 فیصد رہی، جنگلات کے شعبے کی شرح نمو کا ہدف 4.5 فیصد مقرر تھا۔ صنعتی شعبے کی شرح نمو منفی 2.94 فیصد رہی، صنعتی شعبے کی شرح نمو کا ہدف 5.9 فیصد تھا، بڑی صنعتوں کی گروتھ منفی 7.98 فیصد رہی، بڑی صنعتوں کی گروتھ کا ہدف 7.4فیصد تھا، چھوٹی صنعتوں کی گروتھ 9.03 فیصد رہی، چھوٹی صنعتوں کی گروتھ کا ہدف 8.3 فیصد تھا۔

بجلی گیس اور پانی فراہمی کی شرح نمو 6.03 فیصد رہی، بجلی گیس اور پانی سپلائی کے شعبوں کی گروتھ کا ہدف 3.5 فیصد تھا، تعمیرات کے شعبے کی شرح نمو منفی 5.53 فیصد رہی، تعمیرات کے شعبے کی ترقی کاہدف 4 فیصد تھا، انفارمیشن اورکمیونیکیشن کے شعبوں کی گروتھ 6.93 فیصد رہی، انفارمیشن اور کمیونیکیشن کے شعبوں کی گروتھ کا ہدف 6 فیصد تھا، رئیل اسٹیٹ سرگرمیوں کی گروتھ 3.72 فیصد رہی، رئیل اسٹیٹ شعبے کی گروتھ کا ہدف 3.8 فیصد تھا، تعلیم کے شعبے کی گروتھ 4.9 فیصد ہدف کے مقابلے میں 10.44فیصد رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔