میٹھا ہڑپ کرنے کے بعد…

محمد سعید آرائیں  جمعرات 8 جون 2023
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

نو مئی کے شرمناک واقعات کے بعد پارٹی چھوڑنے والوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ کوئی سیاست چھوڑ رہا ہے کوئی سیاست میں بریک لے رہا ہے ،کوئی پارٹی کے عہدے چھوڑ رہا ہے تو کسی کو اپنی فیملی اور بیماریاں یاد آ رہی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ نو مئی کو جلاؤ،گھیراؤکرنے والوں نے اپنے خاندانوں کا بھی خیال نہیں رکھا اور قانون کو ہاتھ میں لیا۔ دہشت گردوں جیسی کارکردگی دکھا کر ہمارے ازلی دشمن بھارت کو ہنسنے کا موقعہ دیا اور بھارتیوں کو کہنا پڑا کہ جو کام بھارت 75 سالوں میں نہیں کر سکا تھا وہ نو مئی کو دنیا نے دیکھ لیا ۔

نو مئی پر ہنسنے اور خوش ہونے والے اس وقت دھاڑیں مار مار کر روتے اور واویلا کرتے نظر آتے اگر اتنا نقصان دیکھ کر ہمارے حفاظتی اداروں کے لوگ جذبات میں آ کر اپنا ردعمل دے دیتے اور لاشیں گرتیں تو نو مئی کرنے والوں کے جرائم نظرانداز کر کے مذمتیں شروع ہو جاتیں اور چند لاشوں پر سیاست چمکائی جاتی اور دنیا کو تاثر دیا جاتا کہ مظالم کے پہاڑ توڑ دیے گئے ہیں۔

ایک پارٹی کا سوشل میڈیا سیل دنیا کو نو مئی کی تباہی کے بجائے لاشوں اور زخمیوں کی تصاویر دکھا کر اپنے موقف کو جتانے میں کامیاب ہو جاتا اور ہمارے متاثرہ اداروں کو بدنام کرنے میں کامیاب ہو جاتا جس سے پارٹی کو زبردست سیاسی فائدہ ہوتا جس کا توڑ کرنے میں اتحادی حکومت نے ناکام ہی رہنا تھا کیونکہ ایک سال میں یہ حکومت ثابت کرچکی ہے کہ وہ سوشل میڈیا ٹیم کے منفی پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔

نو مئی کی تباہیاں الٹی حکومت کے گلے پڑ جاتیں حکومت اپنے دفاع پر مجبور ہو جاتی اور نو مئی کے بعد پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی قطاریں نظر نہ آتیں بلکہ اس کے ہمدرد بڑھ جاتے اور آج کڑوا کڑوا تھو تھو کرکے پارٹی چھوڑنے والے تباہیوں کا میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرکے کھا رہے اور خوشی کے شادیانے بجا رہے ہوتے۔

حکومت کا یہ موقف سو فیصد درست ہے کہ متعلقہ اداروں نے اپنے تباہ کن نقصان پر برداشت کا مظاہرہ کیا اور صبر سے سب کچھ دیکھا اور اپنے ردعمل سے پی ٹی آئی کو وہ موقعہ نہیں دیا جو وہ حاصل کرنا چاہ رہی تھی۔ 9 مئی کو اداروں کے انتہائی صبر اور برداشت نے پی ٹی آئی کا منصوبہ ناکام بنا دیا جس کے نتیجے میں پارٹی چھوڑنے والوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں جسے حکومتی حلقے مکافات عمل قرار دے رہے ہیں۔

نو مئی سے قبل پی ٹی آئی کے بڑھکیں مارنے والے رہنماؤں سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ پارٹی چیئرمین کے لیے سب کچھ کر گزرنے کے دعوے کرتے کرتے چوری کھانے والے مجنوں ثابت ہوں گے۔ انھوں نے نو مئی سے پہلے اور بعد میں جو بلند و بانگ دعوے کیے تھے اور بیانات دیے تھے۔

ان پر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا رویہ جارحانہ تھا مگر جب ان کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو وہ کاغذ کے شیر ثابت ہوئے۔کچھ رہنماؤں سے یہ توقع تھی ہی نہیں کہ وہ گرفتاری کے خوف سے انتہائی بزدل ثابت ہوں گے۔ گرفتاری کے بعد کراچی میں تو کچھ رہنما پی ٹی آئی چھوڑنے کے بجائے پیشانی پر گولی کھانے کو تیار تھے مگر جیکب آباد جیل کی ایک ہفتے کی گرمی نے ان کے اوسان خطا کردیے۔

کچھ رہنما سمجھتے تھے کہ سیاست میں مزے ہی مزے ہوتے ہیں مگر سکھر جیل میں چند دن گزار کر ان کے بھی ہوش ٹھکانے آگئے۔ کچھ سیاسی رہنما تو جیل کو سسرال قرار دیتے ہیں مگر سسرال جانے سے خوفزدہ بھی ہیں۔

اقتدار کے ایوانوں میں اپوزیشن کو دھمکیاں دینے والے اگر سوچ لیتے کہ اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا، اپوزیشن میں بھی لوٹنا پڑتا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ وہ جن لوگوں سے اقتدار میں بات کرنے کے روادار نہ تھے اب وہ انھی سے مذاکرات کرنے کے لیے اپیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اقتدار کا میٹھا ہڑپ کرنے والوں سے اب اپوزیشن کا کڑوا برداشت نہیں ہو رہا اور وہ بھی میٹھا کھا کر اب کڑوا تھو تھو کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔