قوم کی بیٹی

وجاہت علی عباسی  پير 26 مئ 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

ایک عورت کو مارنا اس پر ظلم کرنا صحیح ہے، کوئی عورت اگر اپنے میاں کو خوش رکھنے میں کسی بھی طرح ناکام ہوتی ہے تو اس پر سبق کے طور پر شوہر کا ہاتھ اٹھانا جائز ہے اور ہمارے حساب سے یہ ان میاں بیوی کا گھریلو مسئلہ ہے کوئی ظلم نہیں۔ پچھلی کچھ لائنیں پڑھ کر برا لگتا ہے۔ شاید یہ آپ کی یا میری سوچ نہ ہو لیکن یہ ہے پاکستان کا سچ۔

یونائیٹڈ نیشنز جنرل اسمبلی کے حساب سے خواتین پر تشدد کی تعریف کچھ یوں ہے کہ جنس کی بنا پر کسی کو جسمانی، جنسی یا ذہنی اذیت دینا یا پھر دھمکانا کہ میں ایسا کرسکتا ہوں۔۔۔۔ تشدد ہے، چاہے یہ پبلک میں کیا جائے یا پرائیویٹ میں، لیکن یہ پاکستان میں لاگو نہیں ہے۔

پاکستان میں پولیس میں درج کرائی جانے والی 95 فیصد ایف آئی آر ریپ کی ہوتی ہیں، حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا بڑا تناسب ہونے کے باوجود شماریات کے مطابق ستر فیصد ایسے کیس پاکستان میں رپورٹ کے لیے ہی نہیں جاتے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے میں ریپ کا ایک واقعہ پیش آتا ہے اور آٹھ گھنٹے میں ایک گینگ ریپ اور یہ صرف اور صرف ان کیسوں کی بات ہے جو رپورٹ کیے گئے۔

بیشتر لوگ کیس درج کرانے کے بعد ایک لمبے تکلیف دہ مرحلے سے گزرتے ہیں کہ کیس کی تفتیش جس میں عموماً مظلوم کو مزید ذلت کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

ہمارے معاشرے میں عجیب ٹرینڈ ہے کہ ہر ریپ کیس میں پولیس یہ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ریپ ہونے والی کی کیا غلطی ہے؟

ضرور لڑکی نے خود کچھ کیا ہوگا جس کے نتیجے میں یہ جرم ہوا، یہ ہے ان لوگوں کی سوچ جو پاکستان میں اس قسم کے نازک کیسوں کی تفتیش کرتے ہیں، اسی لیے بیشتر ظلم کا شکار ہونے والی لڑکیوں کے بیان کو بھی صحیح طرح ریکارڈ نہیں کیا جاتا جس سے کیس کمزور ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ کیس میں فارنسک اور میڈیکل تفتیش کرنے والے لوگ بھی پاکستان میں اسپیشلسٹ نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے اکثر یہ رپورٹ بھی غلط ہوتی ہے۔

نہ ختم ہونے والا انصاف کا انتظار، جس انتظار میں ’’وکٹم‘‘ ہر پل اس واردات سے ذہنی طور پر گزر رہا ہوتا ہے جو اس کے ساتھ پیش آئی، اگر کسی کیس میں مجرم کو سزا ہو بھی جائے تو پاکستان میں ریپ کیسز میں ضمانت پر چھوٹنے والوں پر ریسٹرن آرڈرز بھی نہیں لگائے جاتے جس کی وجہ سے باہر نکلنے پر وہ مجرم عموماً وکٹم اور اس کے گھر والوں کو تنگ کرتا ہے، نتیجتاً وکٹم(مظلوم) کو اپنا گھر یہاں تک کہ شہر بھی چھوڑ کر روپوش ہونا پڑتا ہے۔

جیسے جیسے پاکستان میں دوسری مصیبتیں بڑھ رہی ہیں اسی طرح 2003 سے ریپ کیسز میں تیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ کئی آرگنائزیشن پچھلے کچھ سال میں سامنے آئیں جو زیادتی کا شکار ہونے والی ان لڑکیوں اور خواتین کی مدد کر رہی ہیں اور لوگوں میں awareness لا رہی ہیں۔

یہ سلسلہ 2002 میں ہونے والے مختاراں مائی کے کیس سے شروع ہوا جس نے بہت جلدی بین الاقوامی توجہ حاصل کرلی تھی، مختاراں مائی نے پاکستان بھر میں زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے ساتھ کیا ہوتا ہے، کے بارے میں کئی کانفرنسیں کیں، اسی طرح 2005 میں ڈاکٹر شازیہ خالد کا کیس سامنے آیا جس نے اخباروں میں خبریں بنائیں۔

میڈیا کو آزادی ملنے اور ڈیجیٹل میڈیا کے آجانے کی وجہ سے اب کئی دروازے کھل گئے ہیں ان خواتین کے لیے جو اس بدنصیبی کا شکار ہوئی ہیں۔

’’گواہی ڈاٹ آرگ‘‘ نامی ویب سائٹ دو خواتین چلا رہی ہیں جس پر ان عورتوں کی کہانیاں، ویڈیوز، انٹرویوز دستیاب ہیں جو اس قسم کی زیادتی اور تشدد کا شکار ہوئیں۔

اس سائٹ کے بنانے والوں نے یہ سائٹ اس امید سے شروع کی ہے کہ ان مظلوموں کو خود کو کمزور نہ سمجھنے میں مدد ملے، انھیں بھی لگے وہ اس معاشرے میں رہ سکتے ہیں، وہ کس بیک گراؤنڈ سے آتی ہیں اس سے فرق نہیں پڑتا، بس ان کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ کئی کمزور آوازیں مل کر ایک مضبوط آواز بناسکتی ہیں۔

پاکستان میں ظلم اس وقت ظلم نہیں ہوتا ہے جب اس کو کرنے والا لڑکی کا اپنا شوہر ہو، نکاح کے ساتھ ہماری سوسائٹی شوہر کو وہ سرٹیفکیٹ دے دیتی ہے جس میں وہ اپنی بیوی پر اگر تشدد کرے، ہاتھ اٹھائے تو وہ صرف اس کا گھریلو معاملہ ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔

پاکستانی معاشرے میں عورتیں گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور مرد گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے باہر جاکر کام کرتے ہیں۔

آدمی گھر کا ’’باس‘‘ ہے جس کی مرضی کے خلاف کوئی کام ہو تو وہ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔ کئی لوگوں کے خیال میں ماڈرن اور بڑے شہروں میں ایسا کم ہوتا ہے اور جو آدمی اپنی بیویوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں وہ عموماً جاہل ان پڑھ ہوتے ہیں اور ان کا تعلق چھوٹے علاقوں سے ہوتا ہے لیکن پڑھے لکھے لوگوں کے شہر میں بھی یعنی ڈاکٹر، انجینئرز، بزنس مین جو ہماری سوسائٹی میں مڈل اور اپر کلاس بناتے ہیں ان میں بھی تیس فیصد مردوں نے کبھی نہ کبھی اپنی بیویوں پر ہاتھ اٹھایا ہے۔

پاکستان میں گھریلو تشدد کرنے والے لوگ عموماً یہ حرکت مستقل کرتے ہیں جس میں مارپیٹ میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے، کئی عورتوں کو کوئی اور سہارا نہ ہونے کی وجہ سے یہ تشدد مستقل برداشت کرنا پڑتا ہے۔

یونائیٹڈ نیشنز کی بہت ہی غوروفکر کے بعد بنائی گئی تشدد کی تعریف پاکستان پہنچتے پہنچتے غلط ہوجاتی ہے، اگر کوئی آدمی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھائے تو وہ ان کا گھریلو مسئلہ ہے جس میں کوئی بھی اتھارٹی کچھ بھی نہیں کرسکتی، کوئی ایف آئی آر، کوئی تفتیش، کوئی کیس، کوئی گرفتاری نہیں۔

نہ جانے میری قوم کی کتنی بیٹیاں روز لگے نئے زخموں کے ساتھ ساری رات تکیہ سرہانے خاموش آنسو بہاتی ہوں گی۔

کئی گھریلو تشدد کی شکار خواتین، ریپ وکٹمز سے زیادہ برے ظلم سے گزرتی ہیں کیوں کہ زیادتی ہونے والی خواتین کو سسٹم کے نہ ساتھ دینے کے باوجود کہیں نہ کہیں سہارے اور انصاف کی امید ہوتی ضرور ہے لیکن گھریلو تشدد کو جب آپ کی خود کی سوسائٹی صحیح سمجھے تو اس کا شکار کیا کرے؟

بیس فروری 2012 میں پاکستان سینیٹ میں ایک نیا بل پاس کیا گیا، جس میں اب خواتین اور بچوں پر ہاتھ اٹھانے والے کو جیل کی سزا اور جرمانہ کیا جائے گا۔

پاکستان میں پہلی بار ایسا قانون بنا ہے جس میں میاں کا بیوی پر ہاتھ اٹھانا جرم ہے۔ اگست 2009 میں پیش کیے جانے والے اس بل کے پاس ہوجانے پر کسی بھی آدمی پر بیوی پر ہاتھ اٹھانے کا جرم ثابت ہوگیا تو اسے جیل کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

بیویوں پر ہاتھ اٹھانے والے انھیں کمزور سمجھنے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اب ان کا گھریلو مسئلہ نہیں ہے، ان کے گھر میں رہنے والی لڑکی اکیلی اور کمزور نہیں ہے، وہ بیٹی ہے پوری قوم کی جس پر تشدد نہ ہو کے لیے اب پاکستان میں قانون ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔