کراچی والے بھی جاگ گئے

سلیم خالق  بدھ 20 مارچ 2024
فائنل سے ایک روز قبل جس طرح مفت پاسز کیلیے متواتر کالز آنے لگیں میں اس سے سمجھ گیا کہ اسٹیڈیم خالی نہیں رہے گا۔ فوٹو: پی سی بی

فائنل سے ایک روز قبل جس طرح مفت پاسز کیلیے متواتر کالز آنے لگیں میں اس سے سمجھ گیا کہ اسٹیڈیم خالی نہیں رہے گا۔ فوٹو: پی سی بی

فائنل سے ایک روز قبل جس طرح مفت پاسز کیلیے متواتر کالز آنے لگیں میں اس سے سمجھ گیا کہ اسٹیڈیم خالی نہیں رہے گا، کراچی والے جاگ گئے اور اب ٹکٹوں کیلیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، دیگر میڈیا کے دوستوں نے بھی ایسی ہی باتیں بتائیں، پی سی بی کا کہنا تھا کہ میچ کے تمام ٹکٹ فروخت ہو چکے ہیں، متوقع رش کا سوچ کر میں نے روزہ افطار کرنے کے بعد نماز پڑھی اور اسٹیڈیم روانہ ہو گیا۔

تقریبا خالی روڈز پر گاڑی چلا کرخوشگوار احساس ہوا، پھر جب اسٹیڈیم پہنچا تو وہاں بھی سکون کا عالم تھا، میڈیا سینٹر میں کام میں مگن ہو گیا کہ تھوڑی دیر بعد دو صحافیوں کو باتیں کرتے سنا کہ باہر ٹریفک کا بہت بْرا حال ہے، یہ سن کر میں نے شکر ادا کیا کہ جلدی آنے کا درست فیصلہ کیا تھا، ٹاس کے وقت تک اسٹیڈیم میں زیادہ لوگ نہیں تھے مگر پھر آہستہ آہستہ تعداد بڑھنے لگی، کچھ ہی دیر میں ’’ہاؤس فل‘‘ ہو چکا تھا، طویل عرصے بعد نیشنل اسٹیڈیم کو مکمل بھرا دیکھ کر خوشی ہوئی، اس سے یہ تاثر غلط ثابت ہو گیا کہ کراچی والے اسٹیڈیم جا کر میچ نہیں دیکھتے، دراصل اچھا مقابلہ ہو تو وہ تمام مسائل پس پشت رکھ کر پہنچ ہی جاتے ہیں۔

میڈیا سینٹر سے باہر نکلا تو اچانک ہلچل سی دکھائی دی پتا چلا کہ محسن نقوی میڈیا کانفرنس کیلیے آرہے ہیں، جب انھوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا تو میں نے کہا کہ آج آپ سے ملاقات ہو ہی گئی، چیئرمین پی سی بی نے ہر صحافی کے سوال کا جواب دیا، البتہ کئی باتیں مجھے ایسے محسوس ہوئیں کہ پہلے بھی سن چکا ہوں، جیسے پچز کیلیے آسٹریلوی مٹی تو رمیز راجہ نے بھی منگوائی تھی جس پر خوب رقم خرچ ہوئی اور شاید اب وہ مقامی مٹی میں مل چکی ہے، گراس روٹ کرکٹ کو فروغ دوں گا، یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا۔

ایسی باتیں ہر نیا چیئرمین کرتا ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ عمل کتنا ہوتا ہے،ایک بات محسن نقوی متواتر کہہ رہے ہیں کہ پی سی بی کا پیسہ بینک میں رکھنے کیلیے نہیں ہے اسے خرچ کریں گے، انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک حد تک پیسہ لٹانا درست ہوتا ہے، اگر خزانہ خالی کر گئے تو کرکٹ بورڈ کا حال بھی ہاکی فیڈریشن کی طرح ہو جائے گا جو حکومت سے گرانٹ مانگتی رہتی ہے۔

البتہ اس سے پی سی بی کی سربراہی کے لیے لڑائیاں ضرور ختم ہو جائیں گی، محسن نقوی نے یہ بات اچھی کہی کہ وہ سلیکشن کمیٹی کو بااختیار کریں گے اور کپتان کا تقرر بھی وہی کرے گی، اس کیلیے یہ بھی ضروری ہے کہ سابق عظیم کرکٹرز کو کمیٹی کا حصہ بنایا جائے، وہاب ریاض ان کے دوست ضرور ہیں لیکن اکیلے وہ سب کچھ نہیں کر سکتے، ایک سوال پر انھوں نے شین واٹسن کے کوچ نہ  بننے کا ملبہ میڈیا پر ڈال دیا اور کیس خراب کرنے کا الزام لگایا، میں ایک عام سا صحافی ہوں، میں یہ نہیں مان سکتا کہ میری رپورٹس کی وجہ سے واٹسن کوچ نہیں بن سکے۔

میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ انھیں 20 لاکھ ڈالر سالانہ کی آفر ہوئی تھی، دراصل رپورٹ شائع ہونے پر جو ردعمل آیا بورڈ اس سے بیک فٹ پر چلا گیا، اب الزام میڈیا پر ڈالا جا رہا ہے،محسن نقوی کی باتیں سن کر لگا کہ وہ ملکی کرکٹ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، اگر وہ اپنی کہی ہوئی باتوں میں سے آدھی پر بھی عمل کر گئے تو یقینی طور پر کافی بہتری آ سکتی ہے، میں نے ان سے پی سی بی ملازمین کی چھانٹی کا سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ ’’11 کھلاڑی اور 900 ملازمین ہیں باقی آپ خود اندازہ کر لیں، ان کی بات سن کر یہی لگا کہ عنقریب تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔

میڈیا کانفرنس کے بعد ایک دوست کا فون آیا جو درخواست کر رہا تھا کہ مین گیٹ پر اس کی والدہ موجود ہیں 8 ہزار روپے کا ٹکٹ لیا مگر اندر نہیں آنے دیا جا رہا، میں نے ایک آفیشل سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ باہر افراتفری مچی ہوئی ہے، عوام کا جم غفیر دیکھ کر دروازہ بند کرنا پڑا، ایک اور صاحب سے فون پر بات ہوئی وہ نام نہاد وی آئی پی حنیف محمد انکلوژر میں موجود تھے، انھوں نے بتایا کہ سیڑھیوں پر بیٹھے ہیں، کرسیاں خالی نہیں ہیں، بہت سے لوگ تو جنگلے کے ساتھ کھڑے ہو کر میچ دیکھ رہے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوا کہ زیادہ ٹکٹیں فروخت کر دی گئی تھیں یا اعزازی ٹکٹ زیادہ دیے گئے۔

میں حالات کا جائزہ لینے باہر گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مرکزی دروازے پر آنے والی سڑک پر بھی لوگوں نے گاڑیاں پارک کر دی تھیں، میں نے نیشنل اسٹیڈیم میں ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا، مرکزی ایریا میں صرف وی وی آئی پی اسٹیکر کی حامل گاڑیاں ہی آ سکتی ہیں، اس بار یہ اسٹیکر بھی تھوک کے حساب سے بانٹے گئے۔

ظاہر ہے بااثر شخصیات کو پولیس والے روک نہیں پاتے لہذا جس کا جہاں دل کیا وہاں گاڑی پارک کر دی، یہ بھی پتا چلا کہ ٹکٹیں ’’اندر کے لوگوں‘‘ نے فروخت بھی کی ہیں، حد تو یہ تھی کہ پی ایس ایل گیلری تک کے اعزازی ٹکٹ لاکھوں میں بیچنے کی اطلاعات سامنے آئیں، عام شائقین کیلیے ٹکٹوں کا حصول ویسے ہی بہت دشوار تھا،پہلے فون نمبر دیں پھر او ٹی پی آئے گا، اس کے بعد نام، شناختی کارڈ و دیکھ تفصیلات لکھیں، ہر ٹکٹ کیلیے ایسا ہی کرنا پڑتا، تعلیم کتنی ہے، عمر پتا نہیں کیا کیا سوال پوچھے گئے۔

بھائی آپ ٹکٹ بیچ رہے ہو یا رشتہ دے رہے ہیں، پھر جب آن لائن ٹکٹ خرید لیا تو کمپنی سے پرنٹ بھی لیں، اس بار پی ایس ایل کی ہائپ خاصی تاخیر سے بنی، چیئرمین نے بھی اسے محسوس کر لیا تھا لہذا بجٹ بڑھا دیا مگر پھر بھی فائدہ نہ ہوا، آٹوپائلٹ موڈ پر چلتے ایونٹ کو ہمیشہ کی طرح اچھی کرکٹ نے عروج پر پہنچایا، کراچی میں فائنل کے سوا خالی اسٹیڈیمز سے خراب تاثر سامنے آیا۔

ڈی آر ایس کا تنازع ہوا، بڑے کرکٹرز پاکستان نہیں آئے، کھلاڑیوں کو ادائیگیوں میں بھی تاخیر ہوئی، یقینی طور پر محسن نقوی ان باتوں سے آگاہ ہوں گے، انھیں چاہیے کہ اب آپریشن کلین اپ کریں، پروفیشنلز پر مبنی پی ایس ایل کی ٹیم بنائیں،اس میں کام کے لوگ رکھیں تاکہ معاملات بااحسن انداز میں چلتے رہیں۔

میری بات کا یقین نہ کریں آپ ایک سروے کرا لیں، فرنچائز مالکان سے پوچھ لیں، اس بار انتظامی لحاظ سے تاریخ کی بدترین پی ایس ایل کا انعقاد ہوا، البتہ کرکٹ کی کوالٹی ہمیشہ کی طرح زبردست رہی، اسی نے بہت سی خامیوں پر پردہ ڈال دیا لیکن پی سی بی حکام کو اپنی آنکھوں پر پردہ نہیں ڈالنا،جہاز مسلسل آٹو پائلٹ موڈ پر رہے تو کریش بھی ہو سکتا ہے، امید ہے محسن نقوی ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔