موسم گرما کا چاند

عمر قاضی  پير 23 جون 2014
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

آرٹسٹ لوگ چاند کے تمنائی ہوا کرتے ہیں۔ انھیں بادلوں میں چھپتے اور نکلتے چاند کا روپ بہت پیارا لگتا ہے۔ اس لیے ہماری شاعری، مصوری اور موسیقی میں چاند کا تذکرہ بہت زیادہ ہے۔ اردو کے رومانوی شاعر ابن انشاء نے چاند پر اتنی پیاری شاعری کی ہے کہ جی چاہتا ہے سارا کالم اس ’’چاند نگر‘‘ کے باسی کی نذر کروں جس نے لکھا تھا کہ:

وہ لڑکی جو چاند نگر کی رانی تھی

جس کی الہڑ آنکھوں میں نادانی تھی

اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے

سب مایا ہے!

ہاں! چاند کو تکتے ہوئے انسان کو یہ خیال گھیر لیتا ہے کہ ’’سب مایا ہے‘‘ ۔

یہ دنیا، یہ آماجگاہ تمنا، ایک خواب،ایک خیال نہیں تو اور کیا ہے؟ مگر یہ خیالات ہی ہیں جو انسان کو کبھی ہنساتے ہیں اور کبھی رلاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا انسان اپنے خیالات کے ہاتھوں میں ایک کھلونا ہو۔ ہم خیالات سے کھیلتے ہیں یا خیالات ہم سے کھیلتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے شاید ہم بہت دور نکل جائیں۔ اس لیے لوٹ آتے ہیں اس چاند کی طرف جس کے بارے میں پروین شاکر نے لکھا ہے کہ:

بات وہ آدھی رات کی

رات وہ پورے چاند کی

چاند بھی عین چیت کا

اس پر تیرا جمال بھی!

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ

ہوتا رہا ملال بھی!!

مگر میں اس وقت سوچ رہا ہوں کہ وہ چاند جو شاعروں اور عاشقوں کی نیند چراتے ہوئے آسمان میں نہ جانے کس منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے؟ وہ کس موسم میں سب سے زیادہ حسین لگتا ہے؟ موسم سرما میں یا موسم گرما میں؟

میں نے سرد علاقوں میں چاند کے حسن کو دیکھا ہے۔ مجھے یاد ہے چترال کی خوبصورت وادیوں میں صاف اور شفاف آسمان پر ابھرا ہوا چاند کس درجہ پرکشش ہوا کرتا ہے۔ حالانکہ یخ بستہ ہواؤں میں چاند کے حسن کو دیکھنا آسان نہیں۔ مگر ان شاعروں کے اشعار ہمیں تپش اور توانائی فراہم کرتے ہیں جو ایسے الفاظ لکھتے ہیں کہ:

اس لیے بھی رات کو باہر نکل آتا ہوں میں

سردیوں کے چاند کو احساس تنہائی نہ ہو

ہمیں حسن اور خاص طور پر فطرت کے حسن سے الفت کا درس یہ شاعر لوگ ہی دیتے ہیں۔ان شعراء میں سندھی زبان کا وہ عظیم شاعر شیخ ایاز بھی شامل ہے جس نے کچھ نظمیں اور غزلیں اردو میں اس لیے لکھیں کیوں کہ وہ تصور اور وہ تخیل سندھی زبان میں سمانا ناممکن تھا۔ آپ ایاز کی اس نظم کو پڑھیں اور بتائیں کہ کیا یہ نظم سندھی زبان میں لکھنا ممکن تھی؟ وہ نظم جو اس نے سردیوں کے موسم میں برفاب پہاڑ پر ابھرتے ہوئے چاند کے حوالے سے لکھی ہے۔ جس میں ایاز نے ہم سب کو بتایا ہے کہ:

’’دور کیلاش سے… چاند ہیمنت کا… میرے من کو… ہمیشہ بلاتا رہا… میں کہ رنبیر تھا… لو میں لڑتا رہا… برچھیوں کے تلے… جھپکیاں نیند کی… مجھ کو راس آگئیں… ریت تانبا بنی… میرے تلوے جلے… برچھ کی چھاؤں میں… میں نہ بیٹھا کبھی… گھاؤ جب بھر گئے… میرے ہر انگ پر… کتنے کالے گلابوں کے… پودے ملے… بیریوں نے کبھی… یہ شکایت نہ کی… میں لڑتے ہوئے… وار اوچھے کیے… مارنے سے ہچکچاہٹ… نہ مرنے کا ڈر… ہاں مگر دور کیلاش سے… چاند ہیمنت کا… میرے من کو ہمیشہ بلاتا رہا‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ موسم سرما کے چاند میں بہت کشش ہوا کرتی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ موسم گرما کا چاند حسین نہیں ہوتا۔ موسم گرما میں تو چاند کا ایک نیا روپ نکھر آتا ہے۔ مگر اس روپ کو دیکھنے کے لیے ہمیں شہروں سے نکل کر ان دیہاتوں کی طرف چلنا ہوگا جہاں زندگی مشکل تو ہے مگر اس میں اک عجیب طرز کا حسن ہے۔ وہ کنوارا اور مقدس حسن جو جنگلوں کے قریب بستیوں میں ہے، وہ ان شہروں میں کہاں جہاں ٹریفک کا دھواں چاند کو نگل جاتا ہے۔ اس لیے چاند کے عاشق شاعر نے کراچی کے آسمان میں گم ہوجانے والے چاند کے بارے میں لکھا تھا کہ:

’’کہیں نہیں ہے چاند… کراچی میں… ہر سو دھواں… ہر سو دھواں… کیسے چاند لے سانس… کراچی میں؟‘‘

مگر اس ملک کے وہ میدانی علاقے جہاں فطرت کا حسن زخمی نہیں وہاں چاند کا موسم گرما میں سنہرا روپ قابل دید ہے۔ گرمیوں کے موسم میں چاند کے حسن کو اپنی نظم میں سماتے ہوئے ایاز نے لکھا ہے کہ:

’’موسم گرما کی تنہا رات میں… چاند ایسے چل رہا ہے… جیسے اپنی چاندنی میں… جل رہا ہے!… اور وہ شاعر… وہ سپنوں کا سنار… سوچتا ہے… یہ پگھل کرچاند… جس پل… اس کے دل… میں آئے گا… اک نظم بن جائے گا!!‘‘

ممکن ہے کہ ’’سنار‘‘ لفظ کسی کے لیے خوبصورت بھی ہو مگر مجھے اس میں کبھی کوئی رومانیت نظر نہیں آئی۔ مگر جس طرح شاعر نے اس نظم میں چاند کو سپنوں کا سنار کہا ہے اس سے ایک عجیب کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ سنار جب سونے سے گہنے بناتا ہے تو اس کا وہ کام الگ نوعیت کا ہوا کرتا ہے مگر جب چاند سنار بن کر محبت کے سپنوں کے زیور بنانا شروع کرے تو پھر یہ پوری کائنات سج سی جاتی ہے۔

سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے میدانی، صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں موسم گرما کے دوران جس جس نے چاند کو دیکھا ہوگا اور چاند کو دیکھ کر کسی چاند جیسے چہرے کو سوچا ہوگا وہ جانتا ہے کہ پورے چاند کی گرم ہواؤں والی رات میں ایسا لگتا ہے جیسے چاند اپنی حسین اور دلکش سی آگ میں جل رہا ہو اور کبھی تو چاند اس طرح بھی محسوس ہوتا ہے کہ ابھی یہ پھٹ جائے گا اور پورا آسمان چاندنی سے بھر جائے گا مگر پسینے میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو کبھی ایسا لگتا ہے جیسے چاند آہستہ آہستہ پگھلنا شروع کرے گا۔ چاند کا پگھلنا شاعر کو اس طرح نظر آتا ہے جیسے سنار کی دکان میں سونا پگھلتا ہے اور جب سونا پگھلتا ہے تب ہی اس سے کوئی زیور بن پاتا ہے۔ اس حوالے سے شاعر سوچ رہا ہے کہ جب سونے کا چاند پگھل کر اس کے دل میں آئے گا تب وہ ایک زیور جیسی نظم بن جائے گا!

وہ زیور جو سجے گا کسی کے ماتھے پر۔ کسی کے ہاتھوں میں کنگن بن کر کھنکے کا اور کسی کے کانوں میں بالیوں کی طرح نظر آئے گا۔ ایک شعر کی اس سے بڑی خوبصورتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ محبوب کا زیور بن جائے اور وہ زیور بھی بنے تو پگھلے ہوئے چاند کے سونے کا!! مگر تصور کا یہ حسن، یہ تصور کی ترکیب ایک شاعر کیسے بنا پاتا اگر موسم گرما کے آسمان پر چاند نہ ابھرتا۔ یہ چاند جو ہمیں حسن کے قریب لاتا ہے۔ یہ چاند جو ہمیں اکثر اوقات دیوانہ بنا دیتا ہے۔ اس چاند کے لیے انگریزی زبان کے عظیم شاعر شیکسپیئر نے اپنے ڈرامے ’’اوتھیلو‘‘ میں کتنی خوبصورت اور گہری بات کہی تھی، جب اوتھیلو شک کی بنیاد پر اپنی محبوب بیوی ڈیسڈ مونا کو قتل کردیتا ہے اور قتل کے بعد اسے اپنی ملازمہ بتاتی ہے کہ وہ معصوم اور بیگناہ تھی۔ تب اوتھیلو محل کی کھڑکی سے پورے چاند کو دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ:

یہ چاند یہ حسین چاند

دھرتی کے اس قدر قریب آجاتا ہے

کہ انسان دیوانہ ہوجاتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔