کراچی: اندھیروں میں ڈوبا رہے گا۔۔۔۔۔؟

عبداللطیف ابو شامل  جمعرات 10 جولائی 2014
بجلی غائب، پانی نایاب، شہری جائیں تو جائیں کہاں۔۔۔  فوٹو : فائل

بجلی غائب، پانی نایاب، شہری جائیں تو جائیں کہاں۔۔۔ فوٹو : فائل

’’ دھابے جی میں گھارو پمپنگ اسٹیشن پر کراچی کو پانی فراہم کرنے والی لائن نمبر 2 اور 5 پھٹ گئیں جس کے باعث شہر میں پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا۔

ترجمان واٹر بورڈ کے مطابق لائنوں کے پھٹنے سے کراچی کو 10 کروڑ گیلن پانی فراہم نہیں کیا جاسکا‘‘۔ ایسی خبروں پر اب حیرت نہیں ہوتی کہ ایسے راگ سن سن کر شہریوں کے کان پک گئے ہیں۔ کراچی کے متعدد علاقوں میں پانی کا بحران ہے اور شہری ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں۔

شہر قائد کے مکین رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں بھی پانی سے محروم ہیں، یا محروم رکھے گئے ہیں۔ پانی کی عدم فراہمی سے واٹر ٹینکرز مافیا کی چاندنی ہو گئی ہے اور ٹینکر مافیا نے رمضان المبارک کے مہینے میں پانی کی عدم فراہمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واٹر ٹینکر کے دام بڑھا دیے ہیں۔ سنگل واٹر ٹینکر کے ریٹ 8 سو روپے سے بڑھا کر 2000 اور ڈبل واٹر ٹینکر 1500 سے بڑھا کر 3000 روپے کر دیا ہے۔ جس کے باعث شدید منہگا ئی میں شہریوں کے جیب پر رمضان المبارک میں اضافی بوجھ پڑگیا ہے۔

شہریوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کا خیال رکھتے ہوئے روزے داروں پر رحم کریں اور پانی کی سپلائی کو فوری یقینی بنا ئیں۔ شہر قائد کے مکین شدید پریشانی اور شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں اور شدید گرمی اور ماہ صیام میں ساری رات پانی کے انتظار میں جاگ کر گزارتے ہیں۔

ایم کیو ایم کے اراکین سندھ اسمبلی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں کراچی میں پانی کے سنگین بحران اور کئی علاقوں میں پانی کی فراہمی مسلسل معطل رہنے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں کراچی کے عوام کو پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم رکھنا اور پانی کی فراہمی کے لیے کسی قسم کے مثبت اقدامات بروئے کار نہ لانا سراسر ظلم اور ناانصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے اور رمضان میں وضو بنانے تک سے محروم ہیں۔ پانی کے سنگین بحران کے باعث مساجد سے یہ اعلانات کئے جارہے ہیں کہ عوام اپنے گھروں سے ہی وضو بنا کر آئیں۔ رمضان کے مبارک مہینے میں پانی کی شدید قلت کے باعث شہری مذہبی فرائض کی ادائی میں مشکلات کا شکار ہیں۔ شہری پانی کی مد میں باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن جب بھی شہر میں پانی کا سنگین بحران پیدا ہوتا ہے تو ٹینکر مافیا بے لگام ہوجاتی ہے اور شہری منہ مانگے نرخوں پر پانی کے ٹینکر خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

سیاسی راہ نماؤں نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے مطالبہ کیا کہ کراچی میں پانی کے سنگین بحران کے خاتمے کے لیے فی الفور مثبت اور عملی اقدامات بروئے کار لائے جائیں اور شہریوں کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں پانی کی قلت سے پہنچنے والی اذیت اور مشکلات سے جلد از جلد نجات دلائی جائے۔

شہر میں پانی کی قلت کا ذمے دار واٹر بورڈ بجلی کے محکمے کو ٹہراتا ہے۔ پانی اور بجلی کے محکموں کی باہمی چپقلش دیرینہ مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو کون حل کرے گا ۔۔۔؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ارباب اختیار کے پاس ضرور ہوگا لیکن اس جواب سے شہریوں کو محروم رکھا گیا ہے۔

کے الیکٹرک کی جانب سے گزشتہ ہفتے کی درمیانی رات ایک بجکر 45 منٹ پر دھابیجی پمپنگ اسٹیشن اور کے تھری نظام فراہمی آب کو بجلی کی فراہمی بند کردی گئی جو ڈھائی بجے رات کو بحال کی گئی اس وجہ سے فیز فور کے پمپوں کے ذریعے2 بج کر 45 منٹ اور کے تھری نظام کے تحت چلنے والے پمپوں کے ذریعے رات 3 بجے شہر کو پانی کی فراہمی شروع کی جاسکی۔

ادارۂ فراہمی و نکاسی آب کے ترجمان کے مطابق شہر میں بارشیں نہ ہونے اور حب ڈیم سے پانی کی فراہمی منقطع ہونے سے پیدا قلت آب کا بحران مزید سنگین ہوگیا ہے، بجلی کی فراہمی بند ہونے اور پمپنگ نہ ہونے سے کراچی کو ہفتہ کے روز ایک کروڑ 50 لاکھ گیلن پانی فراہم نہ ہوسکا، ڈیڑھ کروڑ گیلن پانی کی کمی کے باعث شہر کے زیادہ تر علاقے متاثر ہوئے ہیں اور اگر بجلی کی غیر اعلانیہ بندشں کا یہ سلسلہ نہ رکا تو خدشہ ہے کہ رمضان المبارک میں پانی کا بحران مزید سنگین صورت اختیار کرلے گا۔

دوسری طرف لوڈشیڈنگ کا جن بے قابو ہوگیا ہے اور اس جن نے شہریوں کے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کرکے انہیں چلتی پھرتی لاشوں میں بدل دیا ہے۔ ماہ صیام کی آمد سے قبل سحر و افطار کے اوقات میں بجلی بند نہ کرنے کے حکومتی بیانات ریکارڈ پر ہیں لیکن لوڈ شیڈنگ کا جن پھر بھی بے قابو ہے۔

معمول کے اوقات تو ایک طرف سحر و افطار کے دوران بجلی کی بندش نے روزہ داروں کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں شہری اندھیرے میں روزہ رکھنے اور افطاری کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مساجد میں وضو کے لیے پانی بھی نایاب ہے ۔ سحر و افطار کے علاوہ بھی بجلی کی گھنٹوں طویل بندش جاری رہتی ہے اور شہری گرمی کا عذاب جھیلتے رہتے ہیں۔ پانی نایاب، بجلی غائب اور شہری ہلکان۔ بجلی پانی کے ادارے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں۔ آخر مسئلہ کیا ہے جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ آئیے اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستان میں بجلی کی کمی5000 میگا واٹ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ بجلی کی طلب اور پیداوار میں فرق 2018 تک ختم ہو سکے گا۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ نے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر اور لوگوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔

پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 19246 میگا واٹ بتائی جاتی ہے، لیکن فرنس آئل کی عدم دستیابی، پانی اور گیس کی کم یابی اور بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بہت کم بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آج کل بجلی کی کل طلب 18262 میگا واٹ جب کہ اس کے مقابلے میں 13051 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ اس وجہ سے ملک کو 5211 میگا واٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان کے نیوکلیئر پاور پلانٹس سے 725 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔

آج کل پانی سے 4871 میگا واٹ، تیل اور گیس سے2015 میگا واٹ، نجی پاور پلانٹس سے 6700 میگا واٹ اور رینٹل پاور پلانٹ سے158 میگا واٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ 5000 میگا واٹ سے زیادہ بجلی کی کمی کے شکار اس ملک میں ایک لاکھ میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں پانی سے 50 ہزار میگا واٹ، کوئلے سے 30 ہزار میگا واٹ، سورج کی روشنی سے 20 ہزار میگا واٹ اور ہوا سے10 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

ان ماہرین کے بقول شمالی سندھ، مشرقی بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں ہوا سے بھی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کی کارکردگی بہتر بنا کر، لائن لاسسز کم کرکے، تعطل کا شکار بجلی کے پیداواری منصوبوں کو تیزی سے مکمل کر کے اور گیس فیلڈز پر پاور پلانٹس بنا کر پاکستان سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کی جا سکتی ہے لیکن آخر یہ سب کون کرے۔۔۔؟

ہمارے حکمرانوں کو دعوے کرنے کی بیماری ہے اور ایسی بیماری جو لاعلاج ہے۔ چلیے ایکسپریس  کی یہ خبر پڑھیے اور سر دھنیے اور سوچیے کہ آنے والے دن ہماری مشکلات کو کم کرسکیں گے یا ہم مزید بدترین بحران کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔

وفاقی حکومت نے ملک میں بجلی کی پیداوارکی موجودہ سطح برقراررکھنے کے لیے پاکستان اسٹیٹ آئل کوفرنس آئل کی خریداری کے لیے درکار 78 ارب روپے دینے سے انکارکردیا ہے۔ اس فیصلہ سے اگلے ہفتوں میں بجلی کا بحران بدترین ہونے کاخطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ مالی بحران کا شکار پی ایس او انتظامیہ نے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کو ایندھن سپلائی برقرار رکھنے کے لیے وزارت خزانہ سے یہ رقم دینے کی درخواست کی تھی۔

وزارت پانی و بجلی کے حکام کے مطابق گزشتہ روز بجلی کا شارٹ فال ساڑھے 3 ہزار رہا جو اس سے ایک روز قبل کے 3 ہزار میگاواٹ شارٹ فال کے مقابلے میں 500 میگاواٹ زیادہ ہے۔ آئی پی پی کی جانب سے تیل کے بلوں کی عدم ادائیگی پر سرکلر ڈیٹ بڑھ رہا ہے اور پی ایس او شدید مالی بحران کا شکار ہے لیکن وزارت خزانہ صورت حال کا ادراک کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کی حد تک سرکلر ڈیٹ کی رقم ادا کی جارہی ہے لیکن بلوں کی وصولی میں کمی اور لائن لاسز کی وجہ سے آئی پی پیز پی ایس او کو تیل کے بل ادا نہیں کرسکے۔ وزارت پٹرولیم کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق پی ایس او کے ایم ڈی امجد پرویزجنجوعہ نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات میں فنڈز دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے بتایا گزشتہ بل ادا کرنے کے لیے 23 ارب روپے جب کہ بجلی پیداوار کی موجودہ سطح برقرار رکھنے کے لیے پاور پلانٹ کو روزانہ 22 ہزار میٹرک ٹن تیل کی فراہمی کے لیے 55 ارب روپے مانگے گئے تھے۔ سرکلر ڈیٹ دوبارہ 300 ارب روپے ہوگیا ہے لیکن وفاقی حکومت نے موجودہ بجٹ میں اس کے لیے کوئی رقم نہیں رکھی۔ آئی پی پیز کو بلوں کی ادائیگیاں نہ ہونے پر وہ پی ایس او کو ادائیگی سے قاصر ہیں۔ حکام کے مطابق پی ایس او نے 160 ارب روپے وصول کرنے ہیں۔ تیل خریداری کے لیے پی ایس او کو رقم دینے کے بجائے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ہدایت کی کہ پی ایس او رقم کا مسئلہ وزارت پانی و بجلی کے حکام کے ساتھ مل بیٹھ کر حل کرے۔

پی ایس او مئی میں ہی بین الاقوامی لیٹر آف کریڈٹ کی ادائیگیوں سے ڈیفالٹ کرگیا تھا اور اس وجہ سے ساکھ پر بھی منفی اثر پڑا۔ اس وجہ سے پی ایس او کی جانب سے مقامی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ معمول کے لین دین میں بھی کچھ مشکلات پیدا ہوئیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کچھ بینکوں نے پی ایس او کے ساتھ لیٹر آف کریڈٹ کھولنے سے بھی انکار کردیا ہے۔ وزارت خزانہ سے جاری ایک بیان کے مطابق پی ایس او کے ایم ڈی نے وزیر خزانہ کو کمپنی کی مالی صورت حال اور ایندھن کی سپلائی سے متعلق جائزہ پیش کیا تھا، انہوں نے وزیرخزانہ کو بتایا کہ حالیہ موسم گرما میں آئی پی پیز کی ایندھن کی طلب بڑھ گئی ہے لیکن پی ایس او کو ادائیگیاں نہ ہونے سے طلب کے مطابق فرنس آئل کی فراہمی مشکل ہے۔

آئی پی پیز کو بجلی پیداوار کے لیے یومیہ 22 ہزار میٹرک ٹن فرنس آئل درکار ہے لیکن 16ہزار ٹن فراہم کیا جارہا ہے۔ وزارت خزانہ نے ان اعداد و شمار سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ آئی پی پیز کی ضرورت 18 ہزار میٹرک ٹن یومیہ ہے۔ ہینڈآؤٹ کے مطابق اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی پی پیز کی تیل کی طلب ان کی پیداوار کے مطابق ہونی چاہیے۔ حکام کے مطابق اس اجلاس میں پاور پلانٹس کو گیس فراہمی بڑھانے سے متعلق بھی کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ اجلاس میں شرکا کو بتایا گیا کہ رواں سیزن میں ڈیموں میں پانی کی آمد کم ہونے سے صرف 5,200 میگاواٹ ہائیڈل بجلی پیدا کی جارہی ہے، ماضی میں 6,500 میگاواٹ بجلی پیداکی جاتی رہی ہے۔ اس شارٹ فال کی وجہ سے آئی پی پیز کی تیل کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔