پاکستان ایک نظر میں ’’مولا جٹ‘‘ کی ضرورت ہے

ڈاکو دہشت کی علامت تھے مگر وہ اس نظام کے خلاف تھے، اور ان میں سے کسی نے بھی اپنا نظام نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔


شہباز علی خان July 22, 2014
ڈاکو دہشت کی علامت تھے مگر وہ اس نظام کے خلاف تھے، اور ان میں سے کسی نے بھی اپنا نظام نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ فوٹو فائل

میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔
جب میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے خلقت کو پیدا کیا۔
اور اس خلقت مین اشرف المخلوقات انسان تھا۔
شیطان نے چیلنج کیا۔
یہ زمین پر فساد برپا کرے گا۔
خدائے برتر نے دعویٰ کیا۔
یہ میری خلافت کا بوجھ اٹھائے گا۔
اس وقت سے لیکر آج تک انسان دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔
ایک گروہ زمین پر فساد برپا کرنے والا شیطان کا پیروکار ہے۔
دوسرا گروہ خدائے برتر کافرما بردار اور مخلوق سے انصاف کرنے والاہے۔
اور یہی مولا جٹ کی کہانی کی بنیاد ہے۔
مولا جٹ ایک منصف انسان اور نوری نت زمین پر فساد برپا کرنے والوں کا سردار تھا۔

1979 میں بننے والی اس فلم نے ریکارڈ بزنس کیا اور طویل عرصے تک سینما کی زینت بنی رہی یہاں تک کے اس وقت کی خاکی سرکار نے اس پر پابندیاں لگانے کی کوششیں کیں اور آخر میں اسے سینماؤں سے اتارنے میں کامیاب ہوئے ۔ احمد ندیم قاسمی کی ایک شارٹ سٹوری " گنڈاسا" کے مرکزی خیال "مولا" کوجب عوام نے ایک جیتے جاگتے کردار کی صورت میں ظلم کا مقابلہ کرتے دیکھا توانہوں نے دل کھول کر داد دی۔ ایک طبقہ اس فلم کو ہماری فلمسازی کی صنعت کے زوال کی ایک وجہ گردانتا ہے اور ان کے پاس بہت سی وجوہات بھی ہونگی۔

ایک مدت تک لوگوں نے اس کے تسلسل میں بننے والی فلموں کو پسند کیا مگر پھر یکسانیت کا شکار ہو گئے۔اور فلمسازوں کی سوئی اس نقطے پر پھنسی رہی۔ لوگوں نے اسے پسند کیوں کیا؟ یہ دو سال سے بھی زائد عرصے تک سینما کی ا سکرین پر دکھائی دیتی رہی۔اس کی وجوہات پر اگر ہم غور کریں تو ہمیں معاشرے کے رویوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا احساس ہوگا ، اس دور میں ظلم آج کے مقابلے میں کہیں کم تھا۔ ڈاکو خوف کی علامت تھے مگر ایک خاص طبقے کے لیے۔اور ڈاکوؤں کا ذکر ہوتے ہی غریب طبقے پر ایک سکون کی لہرچھا جاتی تھی،ان کی غریب بیٹیوں کی شادی کا مسئلہ ہو،یا قرض کے سود کا،یا زمین کے رہن کا۔ سرکاری ادارے ان کے مسائل حل کرنے سے قاصر تھے اور یہ خدمات اس زمانے کے نامی گرامی ڈاکوؤں نے اپنے سر لی ہوئی تھی۔

اگر پولیس کی نفری گاؤں کا گھیرا بھی کر لیتی تو سارا گاؤں ڈاکو کا ساتھ دیتا۔ کیونکہ انہیں انصاف بھی تو انہی سے ملتا تھا۔ ڈاکو دہشت کی علامت تھے مگر وہ اس نظام کے خلاف تھے اور ان میں سے کسی نے بھی اپنا نظام نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ حالات کی پیداوار تھے جس طرح ہمارے موجودہ سیاستدان ہیں یہ دونوں کردار مخصوص حالات میں پیدا ہوتے ہیں اور ان مخصوص حالات کے بدلتے یا ختم ہوتے ہی اپنا وجود بھی کھو دیتے ہیں۔

آپ میں سے کسی نے وزیرستان کے کسی کیمپ کے اندر چند گھڑیاں رک کی سانسیں لی ہیں، یہ لوگ بجلی، صاف پانی، گیس، ٹی وی کیبلز سے دور ایک ایسی زندگی گزار رہے تھے جس کی مثال ہم شہری لوگ نہیں دے سکتے، ان کے ذہن معصوم تھے۔بیمار ہوتے تو خدا کی طرف دیکھتے کہ ان کا اگر آخری وقت ہے تو وہ ہی آسانیاں پیدا کرنے والا ہے۔ہر طرح کی جدید زندگی کی خواہش تک ان میں نہ تھی،مگر ہم نے انہیں ایک ایسی جنگ میں فریق بنا دیا جس کی قیمت ہر پاکستانی آج دے رہا ہے۔ہم نے انہیں اچھی زندگی کا خواب تک نہیں دیکھنے دیا بلکہ انہیں اپنی ہی سر زمین پر مہاجرین کا خطاب دے کر امداد اکٹھی کرنے کا کھیل شروع کر دیا۔

آج بھی ڈرون حملے ہوتے ہیں، لیکن ان میں سارے دہشت گرد تو نہیں مارے جاتے۔ کچھ آنکھیں ایسی بھی ہوتی ہوں گی جو اپنے سامنے کے منظر میں اپنے ہی پیاروں کے جسموں کو ٹکڑوں میں اڑتے دیکھتی ہونگی۔کیا ان کے ذہن میں نفرت جنم نہیں لیتی ہوگی؟ اور ان کا ردعمل کیا ہوتا ہو گا؟۔

ہم مسلمان ایک اپنا نظام بنانے میں ہر جگہ ناکام ہیں ، چاہے وہ فلسطین ہو یا کوئی بھی ریاست ،اس میں ہر طرح کی نا ہمواری ملے گی۔ہم میں سے کوئی بھی حالات و واقعات کا جائزہ نہیں لے رہا ہے، ہمارے پالیسی میکر ز میں صرف معاشی ماہرین کی تعداد ملے گی کوئی بھی سوشل سائنسز کا بندہ دکھائی نہیں دے گا جو معاشرے کی ناہمواریوں کو سمجھے اور اس کی سمت کی وضاحت کرے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔