وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے دورہ ایران میں کہا کہ پاکستان پر امن مقاصد کے لیے ایران کے ایٹمی پروگرام کی حمایت کرتا ہے ۔ پاک ایران مضبوط اقتصادی تعلقات پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہوسکتے ہیں ۔ بھارتی جارحیت پر ایران کی حمایت کے شکر گزار ہیں ۔جب کہ ایرانی صدر مسعود پز شکیان نے کہا کہ پاک ایران مشترکہ سرحد پر کوئی دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے ۔ خطے میں پائیدار سیکیورٹی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا قیام ایران اور پاکستان کی مشترکہ پالیسیوں کا حصہ ہے ۔
تہران میں سعد آباد محل میں ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا شاندار استقبال کیا ۔ شہباز شریف نے ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنائی سے ملاقات کی ۔ وزیر اعظم پاکستان نے ایرانی سپریم لیڈر کے لیے انتہائی احترام کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وہ مسلم دنیا کی ایک نمایاں شخصیت ہیں ۔ اور اُمت مسلمہ رہنمائی اور سرپرستی کے لیے ان کی طرف دیکھتی ہے ۔
سپریم لیڈرنے کہا کہ مختلف ترغیبات کے باوجود مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے مستقل موقف کی تعریف کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ برادر ملک ایران کا دورہ کرکے خوشی ہوئی۔ ایران ہمارا دوسرا گھر ہے ۔ اپنے اور اپنے وفد کے بھر پور اور گرم جوش استقبال پر شکریہ ادا کرتا ہوں اس دورے کا سب سے اہم مقصد امریکی ایران جوہری مذاکرات پر ایرانی قیادت کو اعتماد میں لینا تھا۔ ایران نے اس معاملے پر نہ صرف سعودی قیادت کو آگاہ کیا بلکہ یورپی یونین روس وغیرہ کو بھی اعتماد میں لیا کیونکہ ایران امریکا جوہری ڈیل کے نتیجے میں خطے میں بہت بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے والی ہیں ۔
وسط مئی میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں کا انتہائی اہم دورہ کیا سب سے پہلے وہ سعودی عرب گئے جہاں امریکا اور سعودی عرب کے درمیان300ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے ۔ڈونلڈٹرمپ کی موجودگی میں سعودی امریکا سرمایہ کاری فورم سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ مملکت 600ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے مواقعوں پر غور کر رہی ہے ۔اُمید ہے کہ یہ بڑھ کر 1000ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔
ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کی موجودگی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری دلی خواہش ، تمنااور میرا خواب بھی ہے کہ سعودی عرب جس کا میں بہت احترام کرتا ہوں جلد ہی معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہو جائے ۔یہ میری عزت افزائی بھی ہوگی اور مشرق وسطی کے مستقبل کے لیے اہم پیشرفت ہو گی ۔ ٹرمپ نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محمد بن سلمان ایک عظیم اور کرشماتی شخصیت ہیں ۔
میرا دورہ سعودی عرب تاریخی اور کامیاب ہے ۔ ٹرمپ نے نہ صرف سعودی عرب کا کامیاب دورہ کیا بلکہ قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی انھوں نے سیکڑوں ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کیے ۔سعودی عرب کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ آٹھ امریکی صدور نے گزشتہ 51سالوں میں سعودی عرب کے 14دورے کیے ۔ جس میں سابق صدر بارک اوباما نے اپنے 8سالہ دوراقتدار میں اس شاہی مملکت کے چار بار دورے کیے ۔ سعودی عرب نے جس شان وشوکت سے ٹرمپ کا استقبال کیا کہ امریکی صدر نے جامنی رنگ کی ٹائی باندھی تو ان کے استقبال کے لیے ریڈ کارپٹ کے برخلاف جامنی کارپٹ بچھایا گیا۔
دنیا اگلے سات سالوں کے لیے انقلابی دور میں داخل ہو رہی ہے ۔ پرانا دور ختم اور ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے جب یہ دور 2032 میں مکمل ہو گا تو ایسی بڑی بڑی تبدیلیاں آچکی ہونگی کہ دنیا پہچانی نہیں جائے گی اور اس کا آغاز 7جولائی سے ہو جائے گا لیکن اثرات جون سے شروع ہو جائیں گے ۔ تبدیلیاں خطوں اور دنیا پر محیط ہوں گی۔ ملک قوم گروہ اس سے متاثر ہونگے ۔ کوئی بھی فرد ان ناقابل یقین حیرت انگیز تبدیلیوں سے بچ نہیں سکے گا۔ یہ تبدیلیاں مثبت بھی ہونگی اور منفی بھی۔
ہوسکتا ہے کہ ایران امریکا ڈیل کے حوالے سے کوئی سنسنی دھماکا خیز خبر جون میں ہی سامنے آجائے ۔