بلوچستان کے آنسو

بلوچستان کے بے شمار معدنی وسائل پر مقامی آبادی یعنی بلوچوں کے حقوق کے حوالے سے ایک طویل بحث کا سلسلہ جاری ہے


ایم جے گوہر June 10, 2025

رقبے کے لحاظ سے بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جب کہ آبادی کے حوالے سے سب سے چھوٹا۔ بلوچستان کا کل رقبہ تقریباً 347190 مربع کلو میٹر ہے جب کہ پاکستان میں ہونے والی 2023 کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ پینتالیس لاکھ باسٹھ ہزار 14562011 نفوس پر مشتمل ہے۔

بلوچستان کا صوبہ قدرتی معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں تیل، گیس، کوئلہ، تانبا، خام لوہا، ماربل سمیت 20 سے زائد قیمتی معدنی ذخائر موجود ہیں۔

سوئی کے مقام سے گیس حاصل ہوئی ہے تو ضلع چاغی میں سونے اور چاندی کے ذخائر موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق ریکوڈک میں 58 فی صد تانبے اور 28 فی صد سونے کے ذخائر کی کل مالیت کا اندازہ تقریباً 65 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں دنیا کا سونے اور چاندی کا دوسرا بڑا ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی گوادر کے مقام پر دیرینہ دوست چین کے تعاون سے جاری منصوبہ سی پیک ملک کا اہم اقتصادی منصوبہ قرار دیا جاتا ہے جو گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔

 بلوچستان کے بے شمار معدنی وسائل پر مقامی آبادی یعنی بلوچوں کے حقوق کے حوالے سے ایک طویل بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان کے وسائل پر بلوچ قوم کے اختیارات، تحفظات اور سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے مسائل کا ایک انبار ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔

بلوچ قوم کے حقوق، ان کے مفادات، ان کی محرومیوں، مایوسیوں اور حکومتوں کی عدم دلچسپی کی ایک طویل داستان ہیں جس نے بلوچوں میں منفی سرگرمیوں کے رجحانات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس پہ مستزاد وطن دشمن قوتوں اور بیرونی مداخلتوں نے اپنے آلہ کاروں کے ذریعے علیحدگی پسندی کے رجحانات کو ہوا دے کر نئی سازشوں کے جال بننا شروع کر دیے جس کے نتیجے میں حکومت اور بلوچ عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے اور دوریاں پیدا ہونے لگیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن قوتوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے معصوم بلوچوں کے جذبات کو منفی انداز سے ابھارا۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور اپنے کل بھوشن جیسے ہرکاروں کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردی کے جو بیج بوئے وہ آج تناور درخت بن چکے ہیں۔اور اس خطے میں دہشت گردی کا الاؤ روشن ہے۔

قبل اس کے کہ دہشت گردی کی آگ مزید بھڑکے ارباب اختیار کو بلوچ عوام کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ، ٹھوس اور قابل عمل اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورہ بلوچستان میں کوئٹہ شہر میں گرینڈ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا کہ آپ کے مسائل کو اجتماعی طور پر مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے یقین دہانی کرائی کہ ان کے دور حکومت میں بلوچستان میں معاشی یا سماجی ناانصافی نہیں ہو سکتی اور عمائدین بتائیں ایسی کون سی خرابیاں اور کمزوریاں ہیں جنھیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آپ کے گلے شکوے سر آنکھوں پر انھیں ہم مل بیٹھ کر دور کر سکتے ہیں۔ جو بھٹکے ہوئے لوگ ہیں انھیں ہم سب کو مل کر واپس لانا ہے لیکن جو دہشت گرد ہیں ان کو نہ آپ برداشت کر سکتے ہیں نہ میں اور نہ ہی فوج کر سکتی ہے۔ کیوں ترقی، خوشحالی اور بدامنی اکٹھے نہیں چل سکتے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ اس کی پراکسی اب ڈھکی چھپی نہیں بلکہ کھلی جارحیت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنایا جائے گا۔ بہادر بلوچ عوام اپنی خودمختاری کو چیلنج کرنے والے ہر دشمن کو کچل دیں گے۔

بلوچستان کے پیچیدہ مسائل پر بلوچوں کو ان کے شکوے شکایات دور کرنے کی یقین دہانی کرانا بجا طور پر حوصلہ افزا ہے۔ تاہم بات صرف زبانی یقین دہانی پر ختم نہیں ہونی چاہیے جیساکہ ماضی میں ہوتا رہا جس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں۔ بلوچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے، ان کی محرومیوں کے خاتمے اور ان کے مفادات و حقوق کے تحفظ کے لیے جلد نتیجہ خیز اور جامع عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں، اگر آج بلوچستان کے آنسو نہ پونچھے تو کل دشمن فتنہ الہندوستان کے آلہ کاروں کے گٹھ جوڑ سے اپنی سازش میں کامیاب ہو جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں