ملک کی موجودہ سیاست

ملک کی سیاست میں وفاقی حکومت کے خلاف 1973 کے آئین کے بعد دو بار تحریک اعتماد آئی ہیں


[email protected]

بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ملکی سیاست میں اب آئین قانون اور اخلاقیات والی بات نہیں ہے تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہاں واقعی کوئی آئینی و قانونی بات ہوگی اور ہم ساری صورتحال کو دوچار چیزوں سے لنک کر کے دیکھتے ہیں کہ اب کے پی میں کیا ہوگا کیونکہ موجودہ کے پی حکومت میں تبدیلی کے لیے اپوزیشن کو مزید 21 ارکان کی ضرورت ہے اور پی ٹی آئی حکومت کے جو آزاد حامی ارکان ہیں ان کا تعلق کے پی سے ہے اور انھیں وہیں سیاست کرنی ہے انھیں توڑنا آسان نہیں ہوگا اور انھیں توڑنا اپوزیشن کے لیے مشکل ٹاسک ہوگا مگر سیاست میں سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے اور ملک کی سیاست میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے پر جہاں تنقید ہو رہی ہے، وہاں اس فیصلے کی تعریف کی جارہی ہے۔ وکلاء ، تجزیہ کار اور کئی سیاستدان فیصلے کو درست اور آئین کی ضرورت قرار دے رہے ہیں کہ آئین کے تحت اسمبلی میں ارکان کی تعداد پوری ہونی چاہیے۔ متنازعہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں جب کہ فیصلے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ کے پی میں اپوزیشن کی تعداد 27 ہے جب کہ انھیں مزید 25 نشستیں مل جانے سے ان کی تعداد 52 ہو جائے گی۔

ملک کی سیاست میں وفاقی حکومت کے خلاف 1973 کے آئین کے بعد دو بار تحریک اعتماد آئی ہیں ۔ پہلی بار بے نظیر بھٹو کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی تو اس وقت پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلیٰ اور تحریک کے لیے متحرک تھے اور وفاقی حکومت تحریک عدم اعتماد کو ناکام اور پنجاب حکومت تحریک کی کامیابی میں مصروف تھیں مگر تحریک ناکام ہو گئی تھی مگر کچھ عرصہ بعد صدر مملکت نے 58-2/Bکے تحت بے نظیر حکومت برطرف کر دی تھی ۔

1988 سے 1999 تک پی پی اور میاں نواز شریف کی دو حکومتیں صدر مملکت نے تین بار اور ایک بار جنرل پرویز مشرف نے برطرف کی تھی کیونکہ وہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف حکومتوں کے خلاف تھے اور 2001 کے الیکشن میں انھوں نے دونوں پارٹیوں کے ارکان تڑوا کر مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوائی تھی اور پہلی بار حکومتی مدت مکمل بھی کرائی تھی۔

(ق) لیگ کی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کم اور پیپلز پارٹی کے ارکان زیادہ ٹوٹے تھے جو وزیر بنائے گئے تھے۔ بے نظیر اور نواز شریف دونوں طویل عرصہ جلاوطن اور آصف زرداری نے لمبی قید کاٹی تھی مگر بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پھر اقتدار میں آئی اور آصف زرداری اور نواز شریف نے اپنی پارٹیوں کی حکومت بنوا کر صدارت اور وزارت عظمیٰ حاصل کی تھی اور یہ سب جنرل پرویز کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جنرل مشرف کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔

(ق) لیگ کی حکومت میں جو پی پی اور (ن) لیگی ارکان شامل ہوئے تھے جنھوں نے اپنی سیاسی وفاداری اپنے سیاسی مفاد کے لیے تبدیل کی تھی اور اس وقت بھی بہت سے سیاستدانوں نے آئین و قانون اور اخلاقیات کے بجائے اپنا سیاسی مفاد مدنظر رکھا تھا اور سیاسی وفا داریاں اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر تبدیل کی تھیں مگر 2008 میں پی پی کی اور 2013 میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں بنی تھیں تو (ق) لیگ کی کابینہ کے متعدد وفاداری بدلنے والے سیاستدان پھر اپنی پارٹیوں میں لوٹ آئے تھے اور اپنی پارٹی میں واپسی پر کسی کو شرمندگی نہیں تھی اور اس بات پر فخر کرتے تھے وہ اپنی پرانی پارٹی میں لوٹ آئے ہیں۔2018 میں جب پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی تھی تو پی ٹی آئی کی وفاق، پنجاب، کے پی حکومتوں اور سندھ کی حکومت میں وہی لوگ وزیر بنے تھے جو پہلے پی پی اور (ن) لیگ کی حکومتوں میں اقتدار کے مزے لوٹ چکے تھے۔

پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی اور مسلم لیگ (ن) کی موجودہ سوا سالہ حکومت اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ ان میں پی ٹی آئی دور کا کوئی وزیر شامل نہیں اور بلوچستان کی تو سیاسی صورت حال ہی مختلف ہے جہاں سب سے زیادہ سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوتی ہیں اور وہاں اس کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا بلکہ سیاسی ضرورت سمجھا جاتا ہے اور وہ سیاستدان ہر حکومت میں فٹ ہو ہی جاتے ہیں اور ہر پارٹی انھیں قبول بھی کر لیتی ہے۔

موجودہ حکومتوں کو پی ٹی آئی فارم 47کی پیداوار قرار دیتی آ رہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے جس پر (ن) لیگ کہتی ہے کہ 2018 میں بھی یہی ہوا تھا۔ 8 فروری کو پی ٹی آئی نے جو نشستیں حاصل کیں اور کے پی میں حکومت بنائی اس کی اہم وجہ بانی کا جیل میں رہ کر مظلوم بن جانا تو ہے ہی مگر نگران حکومت میں بڑھائی گئی مہنگائی کا بھی بڑا دخل ہے۔ بانی اور پی ٹی آئی رہنماؤں پر بنائے گئے مقدمات، ان کی مقبولیت کی ایک وجہ ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف عوام کو ریلیف دینے کے بجائے بیرونی دورے زیادہ کرتے رہے جس سے ان کے مخالفین ان پر تنقید کرتے ہیں۔ بہرحال آج پی ٹی آئی کے لیے حالات بدل گئے اور اس کے اقتدار کا امکان فی الحال نہیں رہا جس کے بعد اس کے مفاد پرستوں کی سوچ بدلنے لگی ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی نے (ن) لیگ میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور اب اقتدار سے مایوس کئی ایم این ایز اور کے پی اسمبلی کے ارکانکی وفاداری تبدیل کرنے کی خبریں گرم ہیں اور یہاں سب کچھ ہو سکتا ہے۔

پاکستان کی سیاست میں پارٹیا ںبدلنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔آج بھی ایسا ہو رہا ہے اور ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ موجودہ اسمبلیوں میں جنھیں ہم پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کہتے ہیں وہ قانون کی نظر میں آزاد رکن اسمبلی ہیں‘ان پر ڈی فیکشن کلاز بھی نہیں لگے گی۔ پی ٹی آئی نے اپنے پانچ ارکان کو ویسے ہی پارٹی سے نکال دیا‘ اس طرح اس کے ارکان کی تعداد میں کمی ہو گئی ہے۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی جنھیں پی ٹی آئی کا رکن اسمبلی قرار دیا جا رہا ہے ‘وہ پہلے سنی اتحاد کونسل کے رکن بنے تھے لیکن بعض آئینی اور قانونی پیچیدگیوں کے باعث وہ بھی آزاد ارکان ہی سمجھے جائیں گے۔

پاکستا ن میں پے در پے عدالتی فیصلوں کے باعث بھی کئی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔بہر حال اب صورتحال بہت حد تک واضح ہو چکی ہے۔ آیندہ سینیٹ کے الیکشن میں بہت سی چیزیں کھل کر سامنے آ جائیں گی اور پتہ چل جائے گا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے کتنے ارکان پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں اور کتنے ارکان کسی دوسرے کو ووٹ ڈالتے ہیں۔

اس ساری صورت حال میں مسلم لیگ ن کی عددی طاقت میں خاصا اضافہ ہو گیا ہے۔اگر کوئی آئینی اور قانونی رکاوٹ حائل نہ ہوئی تو پی ٹی آئی کے کئی ارکان اسمبلی دیگر جماعتوں میں شامل ہو سکتے ہیں یا آزاد رہ کر ہی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی حمایت کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ایسا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ بانی پی ٹی آئی جس انداز میں سیاست کر رہے ہیں ‘اس کی وجہ سے پارٹی میں یکجہتی کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ پارٹی لیڈر ایک دوسرے کے بارے میں منفی بیانات دے رہے ہیں۔

مقبول خبریں