امریکی صدر نے اعلان کر دیا ہے کہ تجارتی رعایت معاہدے میں انڈونیشیا کو رعایت دیتے ہوئے 32 فی صد سے کم کرکے 19 فی صد کر دی ہے۔ امریکی صدر نے بہت بڑی تجارتی دور اندیشی سے کام لیا، اس رعایت کے جواب میں انڈونیشیا نے امریکی مصنوعات کی خریداری بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
اسی دوران انڈونیشیا کے وزیر دفاع نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور اس میں تجارتی درآمد و برآمد کے معاملات، دفاعی تعاون کو بڑھانے اور اسٹرٹیجک تعاون کو فروغ دینے کی بات کی، لیکن آئیے پہلے 1965 کی جنگ کی طرف چلتے ہیں۔ 17 روزہ جنگ کے دوران انڈونیشیا کے صدر نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ ہیں اور ہر طرح سے عملی طور پر اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا۔
بھارت کی گہری نظر مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنے کی تھی لیکن شاید انڈونیشیا کی پاکستان کے لیے عملی حمایت کا اعلان کام کرگیا اور انڈونیشیا نے ثابت کر دیا کہ وہ صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی اقدام اٹھانے والا ایسا قابل اعتبار بھائی ہے جس پر ہم آنکھ بند کرکے اعتماد کر سکتے ہیں۔ اس دوستی کے توازن کو تاریخ نے خوشگوار طریقے سے سنبھال رکھا ہے لیکن باہمی تجارت کے عدم توازن نے ظاہر کر دیا ہے کہ 70 یا 80 یا نئی صدی کے پہلے ربع تک 60 سالہ دوستی کے اس سفر میں تجارت کے میدان میں ہم نے کھویا ہے کچھ نہیں پایا کیونکہ ہم ان کی طرف سے حمایت والی بے مثال محبت کو تجارتی پیمانے پر کھینچ کر لائے ہیں تو معلوم ہوا کہ ہم دو سے ڈھائی ارب ڈالر کا پام آئل منگواتے رہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان خوردنی تیل کا تقریباً 70 فی صد حصہ انڈونیشیا سے درآمد کرتا ہے اور بدلے میں انڈونیشیا ہماری ٹیکسٹائل اور لیدر مصنوعات، سرجیکل آئٹمز، انجینئرنگ اور زرعی مصنوعات کو بڑی حد تک نظراندازکر رہا ہے۔
امریکی رعایت کے جواب میں انڈونیشیا امریکا سے بوئنگ ہوائی جہاز، توانائی اور زرعی اجناس کے شعبے میں بہت زیادہ خریداری کرنے والا ہے، معاشی صف بندی کی نئی دنیا کب کی وجود میں آ گئی ہے۔ انڈونیشیا اور چین میں تعاون بڑھ رہا ہے اور وہ آسیان میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ادھر پاکستان اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ برآمدات کو نصف سے بھی زیادہ کم کرچکا ہے۔ پاکستان انڈونیشیا کے درمیان کئی تجارتی معاہدے ہوئے لیکن برآمدات 3 سو سے 5 سو ملین ڈالر سے زیادہ نہیں اور درآمدات 3 سے ساڑھے چار ارب ڈالر تک ہے۔
اس شدید تجارتی عدم توازن کو بدلنے کے لیے تقریباً 60 برس لگے تھے۔ اب تجارت میں اتنی وسعت آگئی ہے کہ پاکستان کے لیے انڈونیشیا کی مارکیٹ کو پھیلایا جا سکتا ہے۔پاکستان اگر حلال گوشت، کاسمیٹکس اور فارماسیوٹیکل اور بہت سی مصنوعات پر توجہ دے تو اربوں ڈالر کی نئی مارکیٹ کھل سکتی ہے۔ ہم اس دو طرفہ دوستی میں یک طرفہ درآمدات کو بڑھنے دیتے رہیں تو یہ دوستی صرف ’’دل سے دل‘‘ تک رہے گی۔ اس سے بند کارخانوں کی مایوسی ختم نہیں ہوگی، بے رونق بندرگاہوں میں رش نہیں بڑھے گا۔
پاکستان بھی ’’دل سے دل کے رشتے‘‘ کی بنیاد پر انڈونیشیا سے ایسی معاشی شراکت داری تشکیل دے سکتا ہے جو صرف پام آئل پر نہ چلے بلکہ ایکسپورٹس، ٹیکنالوجی، تعلیمی تبادلے اورگرین انرجی، ٹیکسٹائل، لیدر کی بنی مصنوعات اور بہت سی اشیا کی برآمدات کے ساتھ تجارتی توازن کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اگر یہ دوستی ہم 60 سال سے کیش کرا رہے ہوتے ان کے 3 سے 4 ارب ڈالر کی درآمد کے بدلے میں اپنی دو سے ڈھائی ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کر رہے ہوتے تو ہم اپنے تجارتی خسارے کو ہر سال تقریباً 2 ارب ڈالر تک کم کر سکتے تھے۔ 2024-25 کے دوران پام آئل کی درآمدات ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد کی ہیں، اس کا 70 فی صد تقریباً انڈونیشیا سے درآمدات ہیں۔
پاکستان کی کل برآمدات میں انڈونیشیا کا حصہ محض 1.03 فی صد ہے۔ گزشتہ سال جولائی تا مارچ 2024 کے مطابق پاکستانی برآمدات برائے انڈونیشیا کی مالیت 117,879 ملین روپے کی تھیں۔ پاکستان وسطی ایشیا اور روس کے لیے ایک ایسا تجارتی پُل بن رہا ہے جسے پار کرکے پاکستان اپنی برآمدات میں مزید 5 تا 7 ارب ڈالر یعنی 40 ارب ڈالر تک لے جا سکتا ہے۔ لیکن فی الحال پاکستان ایک کمزور مسافر کی طرح کنارے پر کھڑا ہے اور ٹرین کے دھوئیں میں لپٹا ہوا نظر آ رہا ہے۔
کیونکہ پاکستان کے پاس خام تیل تو ہے اس سے مصنوعات بنا سکتا ہے لیکن نسبتاً مہنگا بنا رہا ہے۔ تجارتی میٹنگ کی میز پر معمولی مہنگا مال بھی بیچا جا سکتا ہے، لیکن اس کا ہنر ان لوگوں کے پاس ہے جو جدی پشتی کاروباری ہوں جن کی چھٹی حس ان کو باور کرا دیتی ہے کہ بظاہر معمولی نقصان والا سودا ہے لیکن اس کے پیچھے غیر معمولی منافع ہی منافع ہے۔