پاکستان کے روشن مستقبل اور قوم کے فخر کو سلام، جن کی کہانیاں نہ صرف متاثر کن ہیں بلکہ ایک نئی راہ بھی دکھاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک داستان ہے کراچی سے تعلق رکھنے والے فلم میکر عمر عادل کی، جنہوں نے نہ صرف خواب دیکھے بلکہ انہیں حقیقت میں بدل کر ایک مثال قائم کی۔
عمر عادل بتاتے ہیں کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے اور وہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان کا خواب تھا کہ وہ ایسی فیلڈ میں کام کریں جس سے معاشرے میں مثبت پیغام دیا جا سکے۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نے انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر میں داخلہ لیا۔ ان کا ماننا ہے کہ فلم میکنگ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم لوگوں کی حقیقی کہانیاں دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔
2005 میں بالاکوٹ میں آنے والے زلزلے کے بعد انہوں نے لینڈ سلائیڈنگ کے مسئلے پر ڈاکومنٹریز بنائیں اور ماحول کو بہتر بنانے کے لیے شعور اجاگر کیا۔ مگر 2018 کا سال ان کی زندگی کا بدترین موڑ لے آیا، جب کراچی میں فائرنگ کے واقعے کے دوران ان کی بیٹی زخمی ہو گئی۔ بدقسمتی سے اسپتال لے جانے کے باوجود ان کی بیٹی کا بروقت علاج نہیں کیا گیا، اور وہ جان کی بازی ہار گئی۔
ایسے دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد اکثر لوگ ہمت ہار دیتے ہیں، لیکن عمر عادل اور ان کی اہلیہ نے کراچی چھوڑنے کے بجائے یہیں رہ کر نظام کی بہتری کے لیے جدوجہد کی۔ انہوں نے ہیلتھ سیکٹر، پولیس اور سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں ’’امل عمر بل‘‘ پاس ہوا، جو اب قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے تحت کسی بھی مریض کو علاج سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
عمر عادل نے اپنی بیٹی کی یاد میں ’’راہِ امل‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تاکہ بچوں پر توجہ دی جا سکے۔ انہوں نے ’’پکے دوست‘‘ کے نام سے اردو میں بچوں کےلیے ایک ورچوئل ورلڈ بھی تیار کی۔ پاک-چین تعلقات پر مبنی فلم ’’چلے تھے ساتھ‘‘ بنائی، جسے دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ نیٹ فلکس پر بھی دکھایا گیا۔
عمر عادل مختلف اداروں کے ساتھ مل کر معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے بامقصد ڈاکومنٹریز بناتے رہے۔ ان کا پیغام ہے: ’’آپ جہاں کہیں بھی ہوں، امید نہ چھوڑیں... آپ ہی پاکستان کا مستقبل ہیں!‘‘