اسلام آباد:
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر کمیٹی اجلاس کے منٹس کے رد میں اپنا مؤقف بیان کر دیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط میں دونوں ججوں نے کہا ہے کہ بطور کمیٹی اراکین ہم نے 26ویں ترمیم پر فل کورٹ کا فیصلہ کیا تھا لیکن کمیٹی فیصلے کی خلاف ورزی میں کیس مقرر نہیں کیا گیا تھا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ 31 اکتوبر 2024 کو بطور کمیٹی ہم نے فل کورٹ کا فیصلہ کیا اور کیس نہ لگنے پر 4 نومبر کو پھر خط لکھا۔
منٹس کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہمارے فیصلے پر چیف جسٹس کے لکھے دونوں نوٹس ہمیں نہیں دیے گئے، چیف جسٹس نے اپنا نوٹ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں پڑھا حالانکہ جوڈیشل کمیشن اس معاملے پر مجاز فورم نہیں تھا۔
دونوں ججوں نے کہا ہے کہ منٹس میں کہا گیا بینچ تشکیل کا معاملہ آئینی بینچ اورآئینی کمیٹی کو بھیجا گیا، اس وقت آئینی بینچ اور آئینی کمیٹی کا وجود ہی نہیں تھا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ سوال یہ ہے کہ اجلاس کی کارروائیوں کو اب پبلک کیوں کیا گیا، کارروائی پبلک کرنے کی وضاحت ستمبر میں آئینی بینچ کے دوبارہ فنکشنل ہونے پر واضح ہوگی۔
ججوں نے کہا ہے کہ 31 اکتوبر اجلاس کے منٹس واضح کرتے ہیں کہ دونوں ججوں کا اجلاس ہوا تھا، فیصلے کے بعد فل کورٹ بنانا لازم تھا اور کوئی اس کو ختم نہیں کرسکتا، چیف جسٹس کے لکھے گئے دو خطوط میں اکثریتی فیصلے کی بے توقیری کی وجہ بتائی گئی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ 31 اکتوبر 2024 کو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس کو فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے ملاقات کی، ملاقات میں ہم نے کہا عوامی اعتماد کی بحالی کا حل اجتماعیت(فل کورٹ) ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ملاقات میں چیف جسٹس فل کورٹ کی تشکیل پر ہچکچاہٹ کا شکار رہے اور اس معاملے پر ایک گھنٹے بعد دوبارہ ملاقات کا کہا، ایک گھنٹے بعد جسٹس منیب اخترکے چیمبر میں آئے اور تمام ججوں سے انفرادی طور پر ملاقات کا بتایا۔
دونوں ججوں نے کہا ہے کہ ہم نے چیف جسٹس کے انفرادی طور پر رائے لینے کو قانون اور پریکٹس کے برعکس قرار دیا کیونکہ ججوں سے انفرادی طور پر لی گئی رائے کی کوئی حیثیت نہیں اور چیف جسٹس کی رائے کے بعد قانونی طور پر کمیٹی اجلاس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔
خط میں کہا گیا کہ نوٹس کے باوجود چیف جسٹس کارروائی میں شامل نہیں ہوئے اور اکثریت کی بنیاد پر ہم نے 4 نومبر کو فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا اور فل کورٹ کے لیے رجسڑار کو بھی ہدایات جاری کردی گئیں۔
مزید بتایا گیا کہ کمیٹی اجلاس کے فیصلے پر چیف کا لکھا گیا نوٹ ہمیں نہیں دیا گیا، 4 نومبر کو خط کے باوجود بھی فل کورٹ تشکیل نہیں دی گئی، جوڈیشل یا انتظامی طور پر فل کورٹ کی تشکیل کے لیے ہم نے بہت کوشش کی، نتیجتاً ادارہ جاتی رسپانس نہ آسکا۔
دونوں ججوں نے خط میں ایک مرتبہ 26 ویں ترمیم پر فل کورٹ تشکیل کا مؤقف اپنایا گیا۔