ڈمپر جلانے کے کیس میں گرفتار ملزمان کی بے گناہی کے حوالے سے وکلا کے انکشافات

اے ٹی سی عدالت نے ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں خصوصی عدالت نمبر پانچ کو منتقل کردیں


ناصر بٹ August 21, 2025

انسداد دہشتگردی کی منتظم عدالت نے راشد منہاس روڈ پر ڈمپرز جلانے کے مقدمات میں ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں خصوصی عدالت نمبر 5 کو منتقل کردیں۔

راشد منہاس روڈ پر ڈمپرز جلانے کے مقدمات میں گرفتار ملزمان کے وکلا نے ضمانتیں دائر کیں۔ یوسف پلازہ پولیس نے 9 جبکہ ایف بی انڈسٹریل ایریا پولیس نے 7 ملزمان کی گرفتاری ڈالی تھی۔

یوسف پلازہ کے مقدمے میں ملزمان میں عمر ایوب، محمد مراد، محمد ولید، ضمن حسین، وسام عابد، محمد معاذ، امام علی، سید ثقلین اور مومن شامل ہیں، جبکہ ایف بی انڈسٹریل ایریا میں درج مقدمے میں گرفتار عمر ایوب، محمد مراد، محمد ولید، ضمن حسین، وسام عابد، کاشان اور فرہاد شامل ہیں۔

وکلا صفائی نے کہا کہ مقدمات میں سے اے ٹی اے ایکٹ ہٹایا جائے یہ ٹرائل اے ٹی اے کا بنتا نہیں، جس پر عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ جانج پڑتال کرلے رپورٹ دی جائے۔

انسداد دہشتگردی کی منتظم عدالت نے دونوں مقدمات خصوصی عدالت نمبر 5 کو منتقل کردی۔ وکلا صفائی نے ایکسپریس کو بتایا کہ معصوم اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو اس کیس میں پکڑا گیا ہے جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں اے ٹی ایکٹ کی دفعہ لگتی نہیں لیکن پولیس نے مقدمے میں دفعات شامل کردی ہیں۔ جس ڈمپر ڈرائیور نے معصوم جانیں لیں اسے نارمل دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا گیا ہے جبکہ نوجوانوں کو اے ٹی اے ایکٹ کے دفعات مقدمے میں پکڑا ہے۔

اس موقع پر  گرفتار ملزمان کے اہلخانہ بھی وکلا کے ہمراہ موجود تھے۔ جنہوں نے نمائندہ ایکسپریس کو بتایا کہ اس کا بھائی مراد کام سے باہر گیا کافی دیر گزر گئی گئی لیکن وہ واپس نہیں آیا۔ سات آٹھ گھنٹے گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ایک واقعہ ہوا جس میں بھائی بہن چاں بحق جبکہ والد شدید زخمی ہوئے اور مشتعل افراد نے ڈمپر کو آگ لگادی اور پولیس بھائی کو گرفتار کرکے لے گئی۔

اس مقدمے میں کم عمر 15 ثقلین بھی شامل ہیں۔ ان کے عزیز کا کہنا تھا کہ ثقلین اپنی خالہ کے گھر مجلس میں گیا ہوا تھا۔ والدہ کی طبیعت خراب ہونے پر دوا لینے نکلا تو پولیس نے پکڑ لیا، چندہ ماہ پہلے اس کے والد کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔

نمائندہ ایکسپریس سے اس واقعے کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حسان صابر ایڈووکیٹ نے کہا کہ وقوعہ دو تھانوں کی حدود میں ہوا ہے، تو مقدمات بھی حدود کے حساب سے درج ہونگے۔ لیکن واقعہ ایک ضلع کا ہے تو دونوں مقدمات کو یکجا کردینا چاہئے تھا۔

ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سینٹرل کو چاہئے کہ احکامات جاری کریں۔ کیونکہ ملزمان اور گواہ ایک ہیں تو تفتیش منتقل کرکے ایک تفتیشی افسر کو تفتیش کرنی چاہئے۔ حسان صابر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہلاکتوں کے مقدمے کو کاؤنٹر کرنے کے لیے عوام کے ردعمل پر مقدمہ درج کیا ہے تو پولیس کو سوچنا چاہئے، کتنے بے گناہوں کو گرفتار کرتے چلے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی حوالے سے ایس ایس پی نے جو گفتگو کی تھی اور مائنڈ سیٹ کی بات کی جبکہ مائنڈ سیٹ تو حکومت اور پولیس کی طرف نظر آرہا ہے، بجائے اس کے ڈمپرز کو ان مافیاز کو روکا جائے جو بغیر دستاویزات کے شہر قائد کی سڑکوں پر دھندھناتے پپر رہے ہیں۔

حسان صابر ایڈووکیٹ نے کہاکہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ نہ تو ٹریفک یا ڈسٹرکٹ پولیس توجہ نہیں دیتی نہ ہی انہیں روکتی ہے۔ جس طرح گاڑی کے ڈرائیور کو ٹریننگ دی جاتی ہے لیکن ڈمپرز، لوڈرز اور ہیوی ٹریفک کی ٹریننگ سے متعلق کوئی طریقہ کار وضح نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو ڈمپر کا کلینر ہوتا ہے وہ چلاتے چلاتے سیکھ جاتا ہے اور پھر وہی کلینر پرموشن پا کر ڈرائیور بن جاتا ہے۔ جتنوں سے بھی پوچھیں وہ یہی بتاتا ہے کہ پہلے کلینر تھا۔ لیکن افسوس ہے کہ کلینر کے ڈرائیور بننے پر کوئی تحقیقات نہیں ہوتی۔ کیونکہ اب یہ مافیا کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب یہاں تک بات پہنچ گئی ہے کہ ڈمپر مافیا دھمکیاں دیتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو پولیس ڈرا رہی ہے، اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عدالتیں اس معاملے کو دیکھیں، سندھ حکومت اس مسئلے کو خاک دیکھے گی جو شہریوں کے مخالف چل رہی ہوتی ہے اور مائنڈ سیٹ کی بات کررہی ہوتی ہے۔

اسی حوالے سے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے سینئر وکیل عابد زمان ایڈووکیٹ نے ایکپریس سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ایکسیڈنٹ کے واقعات میں 320، 322 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے۔ جو سیشن ٹرائل ہوتا ہے۔ مگر جو اس واقعے میں جنرل پبلک پر اے ٹی ایکٹ کے تحت جو مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ نہیں بنتا۔ 147، 48 اور 49 سیکشن کے تحت تو مقدمہ بنتا ہے لیکن اے ٹی اے نہیں بنٹی۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو روڈ ہے وہ شارع عام ہے، جہاں سے ہزاروں لوگ گزرتے ہیں رہائیشی اور دکانوں کے مالکان ہیں۔ جب ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو لوگوں کا جمع غفیر جمع ہوجاتا ہے۔ تو ایسے میں پولیس کیا کرتی ہے جو وہاں شہری ویڈیوز بناتے ہیں جس میں لوگ کھڑے نظر آرہے ہوتے ہیں ان کو پولیس ملزم بناتی ہے۔ اب اس میں کوئی سودا، دوا لیتے ہوئے وہاں واقعہ دیکھ رہا ہوگا اس کی ویڈیو بن جاری ہے۔ جبکہ اس میں کچھ لوگ گاڑیاں جلارہے ہونگے جو گنتی کے ہونگے۔

اس لیے اس پر 7 اے ٹی اے نہیں لگنی چاہئے تھی۔ یہ ایک الگ بات ہے عوام کو سبق سیکھانے کے لئے انسداد دہشتگردی کی دفعات مقدمے میں شامل کی ہوں۔ اس سے ڈمپر والوں کو فیور ملتی ہے۔

عابد زمان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈمپرز ایسوسی ایشن کو بھی یہ کرنا چاہئے کہ ان کے جو ڈرائیورز ہیں ان کے پراپر لائسنس ہونے چاہئے یہ ذمہ داری اسٹیٹ کی بنتی  ہے، روذ پر کوئی بھی ڈمپر آئے اس کی فٹنس ڈرائیور کا لائسنس اور دیگر چیک ہونی چاہئے۔

عابد زمان ایڈوکیٹ نے کہا کہ جب تک پولیس انتظامیہ ان چیزوں کو کنٹرول نہیں کریگی تو عوام ایسا ہی کریگی۔ جو ڈمپرز جلے وہ پولیس کی ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ جب تک انتظامیہ سہی نہیں ہوگی معاملات جوں کے توں رہینگے۔ اب واقعی کے جو مقدمات درج ہوئے اس میں بہت سے بے گناہ لوگ ملزم بنے تو حالات ایسے ٹھیک نہیں ہونگے جس طرح حکومت چاہ رہی ہے۔

منتظم عدالت نے مقدمات میں گرفتار ملزمان کو 19 اگست کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا تھا۔ پولیس کے مطابق ملزمان پر ڈمپرز جلانے کا الزام ہے۔ راشد منہاس روڈ لکی ون کے سامنے ڈمپر کی ٹکر سے بہن بھائی جاں بحق ہوئے تھے۔  جس کے بعد مشتعل افراد نے ڈمپرز کو آگ لگادی تھی۔  واقعہ کا مقدمات یوسف پلازہ اور ایف بی انڈسٹریل ایریا تھانے میں درج کیا گیا تھا۔ مقدمات انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج کیئے گئے۔

مقبول خبریں