بارش اور حکومتی بے حسی

ہم اکثرکہتے ہیں کہ یہ آفات قدرتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تباہی بڑی حد تک انسانی ہے


زاہدہ حنا August 24, 2025

بارشوں کے ذکر پر کبھی ہمارے ذہن میں سوندھی مٹی کی خوشبو، لہلہاتے کھیت، بوندوں کی ٹھنڈک اور گلیوں میں کھیلتے بچوں کی ہنسی گونجا کرتی تھی، مگر آج یہ بارش زحمت بن چکی ہے، لوگ اب بارش سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ جہاں کبھی بارش کا مطلب خوشی تھا وہاں آج اس کا مطلب موت، اجڑی بستیاں اورکربناک کہانیاں ہیں۔

گزشتہ دنوں بونیر میں کلاؤڈ برسٹ ہونے سے چند گھنٹوں کے اندر سیکڑوں گھروں کو ملیا میٹ کردیا۔ درجنوں جانیں لقمہ اجل بن گئیں، بچے یتیم ہو گئے، عورتیں بیوہ ہوگئیں اور مرد اپنے ہی کھنڈر بنے گھروں کے ملبے میں اپنے پیاروں کو تلاش کرتے رہے، جو خبریں آرہی ہیں وہ اتنی تکلیف دہ ہیں۔ جس حال میں اس وقت لوگ ہیں وہ کسی بھی حساس دل انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں۔ یہ سب ہماری اجتماعی بے حسی اور غفلت کا آئینہ بھی ہے۔

میں اس موضوع پر اس سے پہلے بھی لکھ چکی ہوں، اُس وقت میری توجہ اس پہلو پر تھی کہ آفات کے وقت ہمارے ہاں ریسکیو اور بچاؤ کے انتظامات کیوں اس قدر ناقص ہوتے ہیں۔ بارش یا سیلاب آئے تو متاثرہ عوام کئی دن تک بے یارو مددگار رہتے ہیں، انھیں کوئی سہارا دینے والا نہیں ہوتا۔

مگر اس بار سوال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس وقت دنیا میں بہت سے ممالک ایسے حالات کا شکار ہیں مگر ہمارے ملک میں مسئلہ حکومت کی غفلت اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے جس کی بدولت پاکستان کے عوام ان حالات کا شکار ہے جو مہذب سماج میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

ندی نالے جو فطرت کے قدرتی راستے تھے جو صدیوں سے بارش کے پانی کا مسکن سمجھے جاتے تھے، آج ان پر کنکریٹ کی دیواریں ہیں، وہاں شاپنگ پلازہ کھڑے ہیں، ہاؤسنگ سوسائٹیاں آباد ہیں، کار پارکنگ بنی ہوئی ہیں اور بڑے بڑے مکانات سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ یہ سب بلڈرز مافیا کے کارنامے ہیں جنھوں نے اپنے نفع کے لیے زمین بیچی اور پانی کے راستے مسدود کردیے۔ انتظامیہ اور حکومت کی آنکھیں بند رہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ یہ عمارتیں کہاں بن رہی ہیں اور کیوں بن رہی ہیں اور کل کو یہ پانی کہاں جائے گا۔

لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے، دوسرا رخ وہ غریب آدمی ہے جس کے پاس زمین نہیں، چھت نہیں، کوئی پناہ گاہ نہیں، وہ مجبوری میں ندی نالے کے کنارے جھونپڑی کھڑی کرلیتا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ محفوظ نہیں مگر اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ زمین پہ قبضہ گروپوں کا راج ہے۔ کرائے پہ مکان بہت مہنگے ہیں، حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی نہیں کہ غریب کو سستی اور محفوظ رہائش مل سکے تو جہاں جگہ ملتی ہے، ڈیرہ ڈال لیتا ہے اور جب بارش آتی ہے، پانی اپنے اصل راستے کی تلاش میں نکلتا ہے تو سب سے پہلے یہی کمزور بستیاں بہا لے جاتا ہے۔

یہ ہے اصل المیہ ایک طرف طاقتور بلڈرز ہیں جو اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں دوسری طرف مجبور عوام ہیں جو بے بسی کا شکار ہیں۔ دوسری طرف حکومت ہے جس نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں، اگر منصوبہ بندی ہوتی، اگر قانون پر عمل ہوتا، اگر عوام کے لیے سستی اور محفوظ رہائش کا بندوبست ہوتا تو نہ یہ عمارتیں ندی نالوں پر بنتیں اور نہ یہ کچی بستیاں آباد ہوتیں۔

ہم اکثرکہتے ہیں کہ یہ آفات قدرتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تباہی بڑی حد تک انسانی ہے۔ ہم نے فطرت کے راستوں کو بند کیا، پانی کے بہاؤ کو روکا اور پھر یہ سوچا کہ زمین ہماری خواہش پر جیے گی مگر زمین اپنی مرضی سے جیتی ہے اور جب وہ اپنی مرضی سے بہتی ہے تو ہمارے سب خواب ہمارے سب دعوے سبھی بہا لے جاتی ہے۔

کراچی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ برسوں سے نالوں پر تجاوزات قائم ہیں مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کہاں ہے؟ اگر حکومت چاہے تو اس کو روکے مگر وہ ایسا نہیں کرتی، کیونکہ سرمایہ اور سیاست کا رشتہ بہت گہرا ہے اور اگر حکومت چاہے تو غریب کے لیے بستیاں بسائے مگر وہ ایسا بھی نہیں کرتی،کیونکہ اس میں ووٹ اور منافع دونوں کی گنجائش نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال جب بارش آتی ہے تو لوگ مرتے ہیں گھر اجڑتے ہیں۔

 کراچی کی حالیہ بارش ایک بہت بڑا سوال ہے۔ عوام کی نگاہیں حکومت سے سوال کر رہی ہیں۔ کراچی جو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے ساتھ ایسا سوتیلا سلوک کیوں؟ کہاں ہیں ارباب و اختیار؟ کیوں بارشوں سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی؟ شہر ڈوبتا رہا، لوگ بے بسی کی تصویر بنے رہے اور ہمارے حکمران جھوٹ بولتے رہے اور ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھراتے رہے، مگر عوام کی تکلیف اور درد کا احساس کسی کو نہیں۔

اصل ذمے داری حکومت کی ہے، وہ کیوں آنکھیں بند رکھتی ہے؟ کیوں یہ نظرانداز کرتی ہے کہ ندی نالے پر تعمیرات کل کی تباہی ہے؟ کیوں یہ بلڈرز کو اجازت دیتی ہے کہ وہ لوگوں کی جانوں کے اوپر عمارتیں کھڑی کریں؟ اور کیوں یہ غریب کو مجبور کرتی ہے کہ وہ پانی کے راستے پر زندگی بسر کرے؟

ہماری ریاست کی پالیسیوں میں پلاننگ کا لفظ ہی غائب ہے۔ شہروں کا پھیلاؤ بے ہنگم ہے، دیہات کا نظام بکھرا ہوا ہے اور ماحولیاتی انصاف کا تصور کہیں موجود ہی نہیں، یہ سب ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔کاش کہ حکومت یہ سمجھ سکے کہ ترقی صرف پل، پلازہ اور سڑکیں بنانے کا نام نہیں، ترقی اس وقت ہوگی جب انسان کی جان محفوظ ہوگی، جب اس کے سر پر محفوظ چھت ہوگی، جب بارش میں شہر ڈوب نہیں جائے گا۔

بارش ہمیں ہر سال ایک ہی سبق دیتی ہے، فطرت کے راستے کو روکو گے تو وہ تمہیں روند دے گی، مگر ہم یہ سبق بھول جاتے ہیں۔ ہم اگلے سال پھر ملبے پر کھڑے ہوں گے پھر آنسو بہائیں گے، پھر فاتحہ پڑھیں گے لیکن کیا یہی ہمارا مقدر ہے؟ کیا ہم بارش کو ہمیشہ ایک عذاب کے طور پر دیکھیں گے؟ یا ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ اب آنکھیں کھولنی ہیں، اب رہائشی آبادیوں کا پھیلاؤ روکنا ہے، اب غریب کو محفوظ چھت دینی ہے اور اب منصوبہ بندی کرنی ہے؟ یہی اصل سوال ہے اور یہی وہ سوال ہے جس کا جواب اگر آج نہ دیا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

2007 کی وہ بارش کون بھول سکتا ہے جس نے شہر کو مفلوج کر دیا تھا؟ پھر 2020 کی ریکارڈ بارشیں جنھوں نے پورے کراچی کو ڈبو دیا اور ہر گلی ہر محلہ ایک جھیل کا منظر پیش کرنے لگا۔ ان واقعات نے یہ حقیقت ثابت کر دی کہ یہ شہر برسوں سے منصوبہ بندی کے فقدان اور لالچ کی نذر ہے۔

اگر ہر بارش کے بعد یہ شہر مفلوج ہو جانا ہے تو سوال یہ ہے کہ حکمران طبقہ آخر کس دن اپنی ذمے داری یاد کرے گا؟کراچی کے باسی جانتے ہیں کہ بارش ان کے لیے خوشی کے بجائے ایک آزمائش ہے۔ حکومتیں بدلتی رہیں بلدیاتی نمایندے آتے جاتے رہے مگر مسئلہ اپنی جگہ جوں کا توں رہا۔ بارش کا پانی صرف سڑکوں پر جمع نہیں ہوتا بلکہ روزمرہ زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

مزدور کی دیہاڑی چھن جاتی ہے دکان دار کا سامان تباہ ہو جاتا ہے رکشہ بند ہو جاتا ہے، غرض زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔ بجلی کا غائب ہونا گویا اس اذیت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ گھنٹوں نہیں کئی دنوں تک شہری اندھیرے میں زندگی گزارتے ہیں اور کوئی ادارہ ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ ہر برس یہی تماشا دیکھتے ہیں، مگر اسے محض قدرتی آفت قرار دے کر اپنی نااہلی چھپا لیتے ہیں۔

بارش کراچی میں موجود تضادات کو بھی نمایاں کرتی ہے۔پوش ایریاز کی سڑکیں فوری طور پر خشک اور صاف کرا دی جاتی ہیں جب کہ لانڈھی، کورنگی اور لیاری کی گلیوں میں پانی ہفتوں کھڑا رہتا ہے۔ وہاں بچے گندے پانی میں کھیلنے کی بدولت بیمار ہوجاتے ہیں، عورتیں گھروں میں کمر تک کھڑے پانی کو نکالتے نکالتے ہلکان ہوجاتی ہیں۔

یہ فرق کسی جغرافیے کا نہیں بلکہ حکمرانوں کی سوچ کا ہے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ بارش اب محض ایک مقامی مسئلہ نہیں رہی۔ ماحولیاتی تبدیلی نے دنیا بھر کے موسموں کو بگاڑ دیا ہے۔ کبھی برسوں تک بارش نہیں ہوتی اور پھر ایک دم ایسی جھڑی لگتی ہے کہ سارا شہر ڈوب جاتا ہے۔

مگر کراچی جیسے شہر جہاں پہلے ہی منصوبہ بندی کا فقدان ہے، وہاں یہ تبدیلیاں قیامت صغریٰ بن جاتی ہیں۔ عالمی ماہرین برسوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ سمندری کنارے کے شہروں کو ماحولیاتی خطرات زیادہ درپیش ہیں مگر کراچی کے منصوبہ سازوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

اس کے برعکس شہریوں نے بارہا اپنی مدد آپ کے تحت جدوجہد کی ہے۔ کہیں نوجوان رضا کار پانی میں پھنسی ہوئی گاڑیوں کو دھکیلتے ہیں، کہیں محلے کے لوگ اپنی گلیوں سے پانی نکالنے کے لیے پمپ لگاتے ہیں، کہیں عورتیں اور بچے مل کرکچرا صاف کرتے ہیں تاکہ پانی کا بہاؤ جاری رہے۔

یہ مناظر اس بات کی گواہی ہیں کہ اس شہر کے باسی بے بس ضرور ہیں مگر غیر ذمے دار نہیں۔ اگر ان کے پاس وسائل ہوتے اور حکمران طبقہ ایمانداری سے ساتھ دیتا تو شاید کراچی کی بارش بھی کسی اور شہر کی طرح خوشی کا پیام لاتی۔اس بارش کے پیچھے اصل کہانی صرف بادل اور پانی کی نہیں بلکہ انسانی لالچ اور بد دیانتی کی ہے۔ آنکھیں بند رکھنے والے سیاست دان اور خاموش تماشائی ادارے سب نے مل کرکراچی کو ڈبویا ہے۔ اس تباہی میں حکومت کی بے حسی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ ہر برس ہمارے حکمران اپنے وعدوں کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں اور اگلی بارش تک غائب ہو جاتے ہیں۔

کراچی کے باسی بھی ہر سال انھی عطاروں سے امید رکھتے ہیں مگر وقت آ گیا ہے کہ یہ شہر اپنی تقدیر بدلنے کے لیے آواز بلند کرے، ورنہ ہر بارش کے ساتھ کراچی کی حالت مزید خستہ ہوتی جائے گی۔ کب تک یہ شہر بارش کے نام پر مفلوج ہوتا رہے گا؟ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں سے اس سوال کا جواب مانگیں۔ کراچی کے شہریوں کے ساتھ یہ سلوک کیوں روا رکھا جا رہا ہے؟ حکومت کراچی کے شہریوں کو جواب دہ ہے۔

مقبول خبریں