مون سون اور بپھرا ہوا سمندر

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعـء 8 اگست 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

عید سعید مسلمانوں کی خوشیوں کا سب سے بڑا دن ہے۔ رمضان المبارک کے فرائض کی ادائیگی کے بعد ایک سچے مسلمان کی توقعات اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہوتی ہیں، جس میں روزے کے اجر و انعام کا وعدہ خود اپنے ذمے لیا ہے۔ اس لیے مسلمان اس دن کو بڑے اہتمام اور خوشیوں سے مناتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں رمضان شروع ہوتے ہی عوام کو گراں فروشوں، ذخیرہ اندوزوں، بھتہ گیروں، گداگروں سڑکوں بازاروں میں ڈاکوؤں لٹیروں کے ہاتھوں لوٹ مار، عیدی، عطیات، فطرے، چندے، تاوان، بسوں کے کرایوں میں لوٹ مار اور پانی و بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ جیسے لاتعداد مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے اس کے بعد جیسے تیسے وہ عید کی خوشیوں کا تہوار مناتے ہیں۔

پاکستان میں ایک طویل عرصے سے گاہے بہ گاہے رونما ہونے والے سیلابوں، زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات کی وجہ سے عید کو بوجھل اور مغموم دل کے ساتھ منایا جاتا ہے حکومتیں بھی عید سادگی سے منانے کی اپیلیں کرتی ہیں۔ پہلے پہل اس کا سرکاری اور عوامی سطح پر عمل مظاہرہ دیکھنے میں آتا تھا افطار پارٹیاں اور عید ملن پارٹیاں منسوخ کر دی جاتی تھیں، لوگ نئے کپڑے پہننے سے اجتناب کرتے تھے لیکن پھر جیسے جیسے معاشرے میں بے حسی، خود غرضی اور مفاد پرستی بڑھتی گئی یہ باتیں محض زبانی جمع خرچ تک محدود ہو کر رہ گئیں۔

اب اعلانات کے باوجود پارٹیاں بھی ہوتی ہیں عید بھی اسلامی اقدار سے ہٹ کر دھوم دھڑکے اور خلق خدا کو پریشان کر کے منائی جاتی ہے۔ المناک واقعات اور خبروں کی نشر و اشاعت کے ساتھ ہی ہلہ گلہ، دھینگا مستی کی خبریں اور پروگرام چلتے رہتے ہیں جن سے ظاہر ہی نہیں ہوتا کہ اس قوم کے ساتھ کوئی المیہ پیش آیا ہے۔ اس سال عید کے موقعے پر سارا ملک اور عالم اسلام زخموں سے چور چور اور مایوس و مغموم ہے عین عید کے دنوں میں بھی مظلوم فلسطینیوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔

مسلم ممالک میں خانہ جنگی، بغاوت، حریت پسندی، آمریت اور جمہوریت کے نام پر اپنے اپنے مفادات کی خاطر بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے مسلم حکومتیں خود اپنے شہریوں پر بمباری کر رہی ہیں متحارب گروہ اپنے ہاتھوں اپنے ہم وطنوں اور مسلمانوں کا خون کر رہے ہیں فوجی و سول حکمران اور سیاستدان غیر مرئی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل کر اپنے ملکوں اور عوام کو ذلت اور ہلاکت کی کھائیوں میں دھکیل رہے ہیں، عراق، افغانستان، مصر، شام، لیبیا اور خود پاکستان ان مسائل سے دوچار ہیں۔ فلسطین میں اسپتالوں، اسکولوں، رفاہی مراکز، پناہ گزیں کیمپوں، مساجد، بازاروں اور گھروں پر بمباری کرکے ہزاروں بے گناہ شہریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔

اسرائیل کی سفاکیت و بربریت کا نشانہ بننے والوں میں بڑی تعداد بچوں، خواتین اور عام شہریوں کی ہے یو این او کے مطابق وہاں 22 اسپتال تباہ کیے جا چکے ہیں جن کی وجہ سے زخمیوں کے علاج  میں بڑی مشکلات پیش آ رہی ہیں خوراک کے ذخائر تباہ ہو جانے کی وجہ سے بھوک سے ہلاکتیں بڑھتی جا رہی ہیں لاکھوں فلسطینی پناہ گزیں کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں جن کے کیمپوں کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اسرائیل ظلم و بربریت کی وہ تاریخ رقم کر رہا ہے جس کی روداد سناتے ہوئے خود یو این او کا ترجمان بھی رو پڑا۔ اسرائیل کے مظالم کے خلاف دنیا بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے مسلمان حکمرانوں اور اسلامی تنظیموں سے اس جارحیت کے خلاف عملی اقدامات اٹھانے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں لیکن جو حکمران اور حکومتیں خود اپنے شہریوں کو ہلاک کرنے اور غلام بنانے کے عمل میں مصروف اور غیروں کے آلہ کار بنی ہوئی ہیں ان سے فلسطینیوں کے معاملے پر کسی مثبت اقدام کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔

عید کے موقع پر پاکستان کو اندرونی و بیرونی سطح پر بہت سے مصائب و مسائل درپیش ہیں اور کئی ناگہانی واقعات نے عید کی خوشیوں کو ماند کر دیا ہے۔ عید کے موقع پر لاکھوں شہری اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ دھماکے، بمباری اور دخل اندازی جاری ہے۔ عید کے دنوں میں مختلف ناگہانی حادثات میں سیکڑوں افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس دن مختلف شہروں میں حادثات میں 91 افراد کی زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں 20 افراد دریاؤں کی لہروں کی نذر ہوگئے سب سے المناک سانحہ کراچی کے ساحل سمندر پر پیش آیا جس نے 40 انسانی زندگیاں نگل لیں ایک درجن کے قریب افراد لاپتہ ہیں جن کے لواحقین نے لاشوں کے انتظار میں چار دن رات سمند رکے کنارے گزار دیے ان کا کہنا ہے جب تک انھیں ان کے پیارے یا ان کی لاشیں نہیں مل جاتیں وہ یہاں سے نہیں جائیں گے۔

ہلاکتیں تو اپنی جگہ افسوسناک ہیں لیکن ان کے لواحقین کا گزرتی مدت کے ساتھ دن رات ساحل سمندر پر لاشوں کے انتظار میں بے سروسامانی کی کیفیت میں پڑے رہنا بھی ایک کرب ناک منظر ہے۔ حادثے کا شکار افراد کی اکثریت کا تعلق غریب طبقے اور اندرون ملک سے ہے جن کے رشتے دار بھی اس شہر میں کم ہیں یا نہیں ہیں اور عید کے دنوں میں ان کی تفریح کے لیے آسان، سستا اور واحد ذریعہ بھی ساحل سمندر یا چڑیا گھر وغیرہ ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے انتظامیہ عید کے دنوں میں چڑیا گھر میں خواتین اور بچوں کے داخلے پر پابندی بھی عائد کرتی ہے۔ ملک بھر میں عوام کے لیے تفریحی سہولیات کا فقدان ہے۔

روزنامہ ایکسپریس کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ بدین میں عید کے موقعے پر گدھوں کی ریس ہوئی پپو نامی گدھے نے ریس جیت لی جس پر اس کے مالک کو 20 ہزار کا انعام دیا گیا، اس میں شہر بھر کے شائقین گاڑیوں میں سوار ہوکر شرکت کرتے اور محظوظ ہوتے ہیں شائقین بھی جیتنے والے کو انعامات سے نوازتے ہیں بدین میں تفریحی مقامات نہ ہونے کی وجہ سے ان مقابلوں کو ہی یہاں تفریح کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ مری میں بڑی تعداد میں تفریح کے لیے آنے والے افراد اور ان کی 93 ہزار گاڑیوں کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام ہوا۔ 60 ہزار گاڑیوں کو واپس کردیا گیا اسی طرح کراچی میں ہاکس بے، سینڈ ڈپٹ، کیپ ماؤنٹ ودیگر ساحلی علاقوں پر جانے والے افراد کو راستہ بند کر کے واپس کر دیا گیا۔

شہریوں کو تفریحی سہولیات باہم پہنچانا حکومت کا کام ہے جس میں وہ بری طرح ناکام نظر آتی ہے جس سے شہریوں کو پریشانیوں اور حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سانحہ کراچی میں ڈوبنے والے افراد کی ہلاکتوں میں خود ان کی لاپرواہی اور لاعلمی کا دخل بھی ہے لیکن اس سلسلے میں بڑی ذمے داری حکومت اور متعلقہ اداروں کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ سمندر کی کیفیت اور پانی کی طاقت کا صحیح اندازہ ماہرین اور متعلقہ ادارے ہی لگا سکتے ہیں عام آدمی کے لیے یہ اندازہ مشکل کام ہے اگر کرین کے مالک کو پانی کی کیفیت کا پتا ہوتا تو وہ پانی میں پھنسی جیپ کو نکالنے کے چند ہزار روپے کے معاوضے کی خاطر لاکھوں کی کرین سمندر کی نذر نہ کرتا۔

ہمارے ارباب اقتدار و اختیار کو عوامی مفادات کی ذرا پروا نہیں ہے ان کی ساری توجہ اپنے مفادات کے حصول، خوش آمد پرستی اور خوش آمد پسندی تک محدود ہے سمندر میں نہانے پر پابندی کے معاملے میں بھی دروغ گوئی سے کام لیا جا رہا ہے حکومت سندھ کی جانب سے جاری پابندی کا نوٹیفکیشن 13 جولائی کو ختم ہو چکا تھا اس میں کوئی توسیع نہیں کی گئی تھی جب کہ کمشنر کراچی نے حادثے کے بعد 31 تاریخ کو 28 جولائی کی تاریخ میں متعلقہ اداروں کو پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ تفصیلات کے باعث وزارت داخلہ کو اس کا موقع نہیں ملا تو ڈپٹی کمشنر ساؤتھ نے پابندی کا حکم نامہ جار کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ انتظامیہ نے بپھرے ہوئے سمندر اور مون سون کے موسم کے باوجود حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کیے؟ اگر کیے تو نظر کیوں نہیں آئے؟ ساحل سمندر پر کسی قسم کے انتباہی اور آگاہی کے بورڈ کہیں آویزاں نہیں ہیں لائف گارڈز بھی شاذو نادر کسی جگہ نظر آتے ہیں حادثے پر صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، گورنر وغیرہ کی جانب سے تعزیت کا اظہار، واقعے کا نوٹس لینے اور رپورٹ طلب کرلینے کا روایتی مرہم متاثرین کے زخموں کا مداوا نہیں ہے۔ یہاں پر شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے تھے؟ ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ بورڈ اور پولیس سب کرائے، ٹیکس اور بھتہ وصول کرتے ہیں ذمے داری نبھانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے لواحقین کے ان سوالوں کا جواب دینا حکمرانوں کی ذمے داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔