بھارت میں یہ سوال تیزی سے عوام و خواص میں پھیل رہا ہے کہ گزشتہ گیارہ سال میں اجیت دوول نے کیا کردار ادا کیا اور کس قسم کے کارنامے انجام دئیے؟ بلاشبہ سب سے طاقتور اور سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے قومی سلامتی مشیر (NSA)، اس ’’سیکیورٹی زار‘‘ کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ جب قومی سلامتی اور بین الاقوامی تعلقات سے نمٹنے کی بات آتی ہے تو دونوں یکساں سوچتے ہیں۔ دونوں منتخب پروپیگنڈے پہ پروان چڑھتے ہیں۔ دونوں اپنی شخصیت کے گرد دیومالائی داستانوں کی نیو بننے پر خوش ہوتے ہیں۔
مماثلتیں مگر یہاں ختم ہو جاتی ہیں۔ مودی کی عمر 75 سال ہے۔ دوول 80 سال کے ہیں۔مودی ہمیشہ منظرعام پر رہتے ہیں۔ دوول کی شخصیت کے گرد ایک پُراسرار ہالہ بنا ہوا ہے۔ وہ ایک سائے میں رہنے والے شخص بن چکے۔ وہ پردے کے پیچھے سے شاٹیں کھیلتے اور پالیسیوں پر عمل درآمد کا حکم دیتے ہیں ۔انھوں نے کبھی عوام کے سامنے ان کا دفاع نہیں کیا۔ اور اگر کوئی پالیسی ناکام ہو گئی تو بظاہر کسی کے سامنے جواب دہ بھی نہیں ہوئے۔
بھارتی دانشوروں کے مطابق یہ مشیر قومی سلامتی دوول ہی ہیں جنہوں نے وزیراعظم مودی کو آپریشن سیندورکے ساتھ آگے بڑھنے کا مشورہ دیا ۔ دونوں ’’گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘ کے مکتب فکر کو چاہت سے اپناتے ہیں، جسے میڈیا میں ’’دوول نظریے‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پھر بھی، جیسا کہ بعد کے واقعات نے دکھایا ہے، آپریشن سیندور نے کچھ حاصل نہیں کیا۔
بھارت کی نظر سے پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کا قلع قمع نہیں ہوا۔ بلکہ زیادہ تر بھارتی ماہرین کی رائے ہے کہ مودی حکومت کی یکطرفہ فوجی کارروائی کے بعد بھارت میں دہشت گردی کے حملوں کا خطرہ درحقیقت بڑھ گیا ہے۔
اس آپریشن نے پھر بقول بھارتی ماہرین کے پاکستان کا بین الاقوامی قد کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس کے برعکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے آرمی چیف ،فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں لنچ پر مدعو کیا۔ بھارتی حکمت عملی کے ماہرین پاکستان کو ’’ٹوکری کیس‘‘ کے طور پر لیتے اور اس کی اہمیت مسترد کرتے تھے۔
لیکن بھارتی حکمران طبقہ جس پڑوسی سے نفرت کرتا ہے ، اسی نے آپریشن سیندورکے بعد نہ صرف چین کی مضبوط حمایت حاصل کر لی بلکہ اس نے امریکہ، روس اور ترکی کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر بنایا ۔ اسی طرح بھارت کے احتجاج کے باوجود پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے مالیاتی بیل آؤٹ پیکج بھی پا لیا ۔
اگر، جیسا کہ ٹرمپ کا دعویٰ ہے، بھارتی فضائیہ (IAF) نے 7 مئی کو آپریشن سیندورکی پہلی ہی رات زیادہ سے زیادہ پانچ طیارے کھو دیے تو یہ بھارت کے لیے ایک شدید نقصان کے مترادف ہے۔ رائٹرز کے لیے اپنے سنگاپور انٹرویو میں، چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل انیل چوہان نے اعتراف کیا کہ جیٹ طیارے بھارتی فضائی حدود میں پرواز کر رہے تھے اور یہ کہ ابتدائی نقصانات کے بعد آئی اے ایف کے طیارے اگلے 40 تا 48 گھنٹوں کے دوران آسمان پر نہیں جا سکے۔
انڈونیشیا میں ہندوستان کے ملٹری اتاشی کیپٹن شیو کمار نے بھی ریکارڈ پر یہ اعتراف کیا کہ نقصانات ہوئے کیونکہ آئی اے ایف کو کہا گیا تھا ، وہ پاکستان کے فضائی دفاعی نظام پر حملہ نہ کرے۔
11 مئی کو پاکستان کے ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے بین الاقوامی پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ پاکستان نے 7 مئی کو تین رافیل جیٹ طیاروں سمیت چھ بھارتی طیارے مار گرائے ہیں۔ایئر وائس مارشل احمد نے وہ جگہیں بھی فراہم کیں جہاں بھارتی طیاروں کو مار گرایا گیا تھا۔ تب سے بھارتی مسلح افواج نت نئی چالوں سے اس پاکستانی حملے کا جواب دے رہی ہیں۔حتی کہ بھارتی فضائیہ کے چیف نے نوے دن بعد دعوی کر دیا کہ بھارت نے بھی پاکستان کے طیارے مار گرائے تھے۔
جنرل چوہان نے اس دوران ’’چھ سے کم‘‘ طیارے کے نقصان کا اعتراف کیا، لیکن بھارت کا مشیر قومی سلامتی خاموش رہا۔
یہ عیاں ہے، بھارت نے پاکستان کی جوابی کارروائی کی صلاحیت اور اہلیت کو واضح طور پر غلط سمجھا۔ آپریشن سیندور 7 مئی کی رات تقریباً 1.00 بجے شروع کیا گیا۔ اگلی صبح ایسا لگتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ یہ کہنے کے لیے بات چیت کی کہ اس کے حملے ’محدود ‘ تھے اور پاکستان میں نو اہداف کو نشانہ بنا کر اس نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ کیا یہ پیغام رسانی تب شروع کی گئی جب پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے پانچ لڑاکا طیاروں کو مار گرایا ؟ اگر ہاں تو کیا آپریشن سیندور کو کامیاب کہا جا سکتا ہے؟
مودی سرکار نے محض پاکستان کی فوجی صلاحیت کا غلط اندازہ نہیں لگایا بلکہ غلطیوں کا حساب کتاب مذید آگے چلا۔بقول بھارتی ماہرین ، دنیا کو یہ بتا کر کہ بھارت بلوچستان میں وہی کر سکتا ہے جو پاکستان کشمیر میں کر رہا ہے، ’’دوول نظریے‘‘ نے بھارت کو اخلاقی بلندی کے گھوڑے سے گرا دیا۔
عالمی سطح پر پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے مصدقہ ثبوت کے بغیر بھارت کی یکطرفہ فوجی کارروائی کو ’’بدمعاشی ‘‘ کی حرکت کے طور پر دیکھا گیا۔ پہلگام دہشت گردانہ حملے کی تمام ممالک نے مذمت کی مگر کسی نے بھی پاکستان پر بھارتی جوابی کارروائی کی حمایت نہیں کی۔
لیفٹیننٹ جنرل راہول آر سنگھ، بھارت کے ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف کا دعوی ہے، چین نے پاکستان کو بھارتی آپریشنل تعیناتی کے بارے میں "لائیو ان پٹس" فراہم کیے ، اس وقت بھی جب دونوں ڈی جی ایم اوز کے درمیان بات چیت چل رہی تھی۔ یہ واضح ہے کہ چین اپنے ہتھیاروں ،اے آئی اور سیٹلائٹ ان پٹ کے ساتھ کام کرنے والے جدید ریڈار سسٹم کی جانچ کے لیے شمالی سرحد کو ایک ’’زندہ لیب‘‘ کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ اس امر کی زیادہ تر معلومات بھارت کے سٹریٹیجک منصوبہ سازوں کو آپریشن سیندورشروع کرنے سے پہلے معلوم ہوں گی۔
بھارتی ماہرین کے نزدیک پہلگام حملے اور آپریشن سیندور کے آغاز سے پہلے یہ بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامیاں ہیں کہ وہ پاکستان کی عسکری طاقت و صلاحیتوں کے بارے میں نہیں جان سکیں۔ یہ ناقابل فہم لگتا ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس چین کے ساتھ پاکستان کی قریبی فوجی وابستگی سے بے خبر ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ بھارتی فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ چینی سیٹلائٹس کی طرف سے ریئل ٹائم نگرانی دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی جس کی بدولت پاکستان کی فضائی کمان کو بھارت کی فوجی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں۔
بھارت کے خفیہ ادارے،انٹیلی جنس بیورو (IB)، ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (RAW) اور دیگر انٹیلی جنس ایجنسیاں دوول کو براہ راست رپورٹ کرتی ہیں۔ اس کے باوجود اجیت دوول نے بھارت کی انٹیلی جنس شعبے کی زبردست ناکامی کے بارے میں عوام میں کوئی بات نہیں کی۔
اجیت دوول کی سروس فائل متاثر کن ہے۔ ان کو ایک ’پاکستانی ماہر‘، ’کشمیر کے ماہر‘، ’پنجاب کے ماہر‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے، وہ چین کے ساتھ ہوتے سرحدی مذاکرات میں بھارت کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے خصوصی نمائندے ہیں۔ مشیر قومی سلامتی کے طور پر وہ قومی سلامتی کونسل کے سربراہ ہیں جس میں داخلہ، خزانہ، دفاع اور خارجہ امور کے وزرا شامل ہیں۔ انہوں نے 2015 ء میں ناگا معاہدے کی سربراہی کی جس کے بارے میں نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ (NSCN–IM) کا الزام ہے کہ اسے ترک کر دیا گیا کیونکہ مودی حکومت پیچھے ہٹ گئی۔وہ ایک ’’عیسائی اکثریتی ریاست‘‘ کو خودمختاری دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ’’بریک تھرو فریم ورک معاہدے‘‘ہونے کی ایک دہائی بعد اس معاہدے کو فراموش کر دیا گیا ۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ این ایس اے کے طور پر اجیت دوول ہی بھارتی ریاست منی پور میں رونما ہوتی افسوسناک صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ اس سے پہلے کبھی کسی بھارتی ریاست کے اسلحہ خانے کو ہجوم کے ذریعے لوٹا نہیں گیا تھا ۔ لوٹے گئے اسلحے میں سے زیادہ تر اسلحہ لوٹ مار کے دو سال بعد بھی برآمد ہونا باقی ہے۔ بھارتی فوج دو متحارب نسلی گروہوں کو ایک تصّوراتی 'سرحد' کے پار الگ رکھنے سے قاصر ہے۔ منی پور کے پرنسپل سکریٹری کو چار یا پانچ بار تبدیل کیا گیا ہے لیکن وہاں فساد بدستور جاری ہے۔
بھارت میں یہ خیال جنم لے چکا …اگر گھر میں ناکامیوں (ناگا معاہدے، منی پور، کشمیر) کا ذمے دار ایک شخص ہے اور جو پڑوس (نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان، پاکستان، میانمار، سری لنکا) میں بھی تعلقات معمول پر نہیں لا سکا اور جس نے چین، امریکہ، کینیڈا اور دیگر برکس ممالک کے ساتھ تعلقات غیر مستحکم کر دئیے …تو وہ مشیر قومی سلامتی اجیت ددول ہے۔
بھارتی دانشور سمجھتے ہیں، بھارت کو کینیڈا اور امریکہ میں مٹھی بھر خالصتانی کارکنوں پر اتنی توجہ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ انہیں قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دے کر بھارت نے سکھ و مسلمان علیحدگی پسند گروپوں کے جوش وخروش کو پھر سے زندہ کر دیا ۔ بھارت کی اس وقت بھی عالمی طور پہ رسوائی ہوئی جب اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کینیڈا اور امریکہ میں وہاں کے باشندوں کے قتل کی متعدد کوششوں سے منسلک کیا گیا۔
بھارتی دفاعی ماہر سوشانت سنگھ کہتے ہیں "بھارت کی انٹیلی جنس کی بار بار ناکامیاں انتظامی مسائل، انٹر ایجنسی کوآرڈینیشن کی کمی، ناکافی اصلاحات، تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی، ایک ناقص تکنیکی سیٹ اپ اور دستیاب انٹیلی جنس پر عمل کرنے میں ناکامی سے پیدا ہوئی ہیں۔یہ ناکامیاں اس لیے بھی بڑھ گئیں کہ بھارت میں ایسی سیاسی قیادت برسراقتدار ہے جو نظریاتی طور پر زیادہ سے زیادہ حکومتی کام اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتی ہے۔‘‘
ٹرمپ کی طرف سے دھتکارے جانے کے بعد بھارتی اسٹریٹجک منصوبہ ساز چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ کئی وزرا نے آپریشن سیندورکے بعد یکے بعد دیگرے چین کا دورہ کیا۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی کے ساتھ جولائی کے آخر میں ملاقات کی ۔ بھارتی حکومت نے پانچ سال کے وقفے کے بعد چینی شہریوں کو ویزے کا اجرا دوبارہ شروع کر دیا۔ بہت امکان ہے کہ مودی سرکار بھارت میں چینی سرمایہ کاری کے لیے اپنے اصولوں میں نرمی کر دے گی۔ مودی خود اس سال کے آخر میں چین کے دورے کے لیے میدان تیار کر رہے ہیں۔
تاہم لداخ میں بھارت کی مشرقی سرحد کے ساتھ بنے بفر زونز اب بھی بھارتی فوجیوں کے گشت کی پہنچ سے دور ہیں۔ اروناچل پردیش میں حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ چین کے ساتھ بھارت کا سرحدی تنازع حل نہیں ہوا اور چین اب بھارت کو نایاب ارضی معدنیات، کھاد اور ٹنل بورنگ مشینیں پہلے کی طرح فراہم نہیں کر رہا ۔یہی نہیں ،چین نے اروناچل پردیش میں سرحد کے اس پار دنیا کے سب سے بڑے ڈیم کی تعمیر شروع کر دی ہے جس سے دریائے برہم پترا میں پانی کا بہاؤ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
یہ سبھی حالات آشکارا کرتے ہیں کہ بھارت میں مشیر قومی سلامتی ، اجیت دوول ایک متنازع شخصیت بن چکے اور ان کی کامیابیوں پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔بھارتی ماہرین کے لیے یہ بات معّمہ بنی ہوئی ہے کہ مودی حکومت اب تک ان کا متبادل کیوں تلاش نہیں کر سکی ؟گو مودی سرکار نے بولی وڈ فلموں کے مسالہ جات سے کام لیتے ہوئے ددول کو سپر ہیومن شخصیت بنا دیا ہے مگر ایک بھارتی اسٹریٹجک ماہر کا کہنا ہے:
’’دوول اب بہت بوڑھا ہو چکا ۔ اس کا عالمی نظریہ بھی اب قدیم دور سے تعلق رکھتا ہے۔اس لیے وقت آگیا ہے کہ وہ خوش اسلوبی سے سبکدوش ہو جائے۔‘‘