والدین کی خدمت تمام بچوں پر فرض ہے

 کسی ایک کو سارا ذمہ دے کر باقی اولاد سبک دوش نہیں ہو سکتی


ڈاکٹر صبا ناز August 26, 2025

ہمارے معاشرے میں ایک عام رویہ یہ ہے کہ جب والدین بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں، تو ان کی دیکھ بھال کا سارا ذمہ ایک ہی بیٹے یا بیٹی کے سپرد کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات پھر یہی ایک اولاد اپنی پوری زندگی والدین کی خدمت میں لگا دیتی ہے، جب کہ باقی بہن بھائی خود کو اس سے بالکل بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ یہ نہ صرف غیر منصفانہ عمل ہے، بلکہ یہ اس ایک فرد یا گھرانے کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بھی بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔

والدین کی خدمت اور ان کی عزت کرنا ہر اولاد کے لیے چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی یک ساں طور پر ایک سعادت اور فرض ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ’’بیٹیاں تو شادی کے بعد اپنے گھروں کی ہو جاتی ہیں‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیٹیاں بھی والدین کی ذمہ داری سے کسی طرح سبک دوش نہیں ہو سکتیں۔

شادی کے بعد بھی وہ والدین کی خدمت، ان کی ضرورت کے وقت ساتھ کھڑے ہونے، اور مالی و اخلاقی معاونت کی پابند ہوتی ہیں۔ صرف بیٹے ہی نہیں، بلکہ بیٹیاں بھی اپنے والدین کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک ہونی چاہئیں۔ بیٹی ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ صرف زبانی ہمدردی یا معمولی سا مالی تعاون کرے، بلکہ اس پر بھی والدین کی خدمت ہر معانی میں فرض ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ بیٹا جو والدین کے ساتھ رہتا ہے اور دن رات ان کی خدمت کرتا ہے، وہ اور اس کے اہل خانہ اپنی نجی زندگی اور ذاتی وقت کی ہمیشہ قربانیاں دیتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ والدین صرف اپنی اولاد کے شکر گزار نہ رہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی بہو یا داماد اور ان کی اولادوں کی حوصلہ افزائی کریں اور انھیں کھل کر سراہیں۔ ان کے حصے کی قربانیوں کو نظرانداز کرنا یا انھیں صرف ’فرض‘ قرار دے کر ایک طرف ہوجانا اچھی خاصی ناانصافی کے مترادف ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی دعاؤں اور محبت میں سب سے زیادہ قدر اسی بیٹے اور اس کے گھرانے کو دیں، جو ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وہ فرد جس پر والدین کی خدمت کی زیادہ ذمہ داری آ جاتی ہے، وہ اکثر ذہنی دباؤ، تھکن اور اکثر احساسِ محرومی کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اس کی ’’ذہنی صحت‘‘ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ خدمت کرنے والے فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کچھ حدود ضرور قائم کرے۔ مثلاً:

اپنی نجی زندگی اور والدین کی ضروریات کے درمیان توازن رکھنا۔

بہن بھائیوں سے عملی تعان اور مالی طور پر ہاتھ بٹانے کا مطالبہ کرنا۔

اپنے آرام اور ذہنی سکون کے لیے وقت نکالنا۔

اگر سب بہن بھائی والدین کی خدمت میں شریک ہو جائیں، تو نہ صرف والدین خوش رہیں گے، بلکہ ان کی اولاد کے دلوں میں بھی فرق نہیں ہوگا اور اس سے آنے والے وقت میں ان کے درمیان محبت اور انصاف بھی بڑھے گا۔ مالی تعاون، وقت دینا، والدین کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا اور ان کی دعائیں لینا سب کے لیے سکونِ قلب کا باعث ہے۔ بہت سے گھرانوں میں دیگر بہن بھائی والدین کے اخراجات کے لیے معاونت کرکے یا تمام اخراجات اٹھا کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انھیں اب اپنے والدین کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں، کیوں کہ وہی تو سب کچھ کر رہے ہیں، جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

پیسے سے بہت کچھ ہوتا ہے، لیکن پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ والدین کو وقت دینا،  ان کے ساتھ رہنا اور ان کی دیکھ بھال ایک پوری اور بہت اہم ذمے داری ہوتی ہے۔ اس لیے اِس ذمے داری کو بھی اہمیت دینی چاہیے اور اولاد کے درمیان باہم بانٹ لینا چاہیے اور اسے کسی ایک بیٹے یا بیٹی پر ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے، سب اس ذمے داری کو سمجھیں اور اس میں مساوی طور پر برابر حصہ ڈالیں۔ بیٹے ہی نہیں بیٹیاں بھی اپنے والدین کے دکھ سکھ میں ساتھ کھڑی ہوں۔ اگر وہ اپنے الگ گھر میں رہتی ہیں، تو خصوصیت کے ساتھ  انھیں ضرور بیٹوں کی طرح اپنے والدین کو اپنے ہاں ٹھیرانا چاہیے۔

والدین کے ساتھ دیگر بہن بھائیوں کو والدین کے  ساتھ رہنے والے بیٹے اور اس کے گھرانے کی قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ سب بہن بھائی والدین کے معاملات میں مشاورت سے فیصلہ کریں۔ والدین کو بوجھ سمجھیں اور نہ کسی کو سمجھنے دیں، ان کا رتبہ اور وقار ہر لمحہ ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی خدمت کریں۔ والدین کی تیمار داری اور ان کی خدمت کرنے والے فرد کی ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھیں۔

یاد رکھیے! والدین اللہ کی عظیم نعمت ہیں۔ ان کی خدمت سب اولاد پر فرض ہے، چاہے بیٹا ہو یا بیٹی۔ یہ بوجھ ایک فرد پر ڈال دینا ناانصافی ہے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ رہنے والے بیٹے اور اس کی فیملی کو محبت اور عزت دیں۔ انصاف اور توازن سے نہ صرف والدین خوش رہیں گے بلکہ بہن بھائیوں کے درمیان تعلقات بھی مضبوط ہوں گے۔

مقبول خبریں