پاکستان میں ہمیشہ سے نئے صوبوں کی بحث کا ایک سیاسی،انتظامی اور معاشی پس منظر ہے ۔اس بحث کو سمجھنے کے لیے ہمیں قومی،سیاسی ،انتظامی و مالی سطح پر اختیارات ،چھوٹے شہروں یا دیہی علاقوں کو ترقی کے عمل میں موجود رکاوٹوں کا ادراک ہونا لازم ہے ۔جب ہم ترقی کے عمل کو چند بڑے شہروں اور کسی صوبے کے مخصوص لسانی و قبائلی علاقے تک محدود رکھیں گے تو لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ انھیں انتظامی اور مالی معاملات سے دور رکھا جارہا ہے ۔
اگر اکنامک سروے آف پاکستان کی 2024-25کی رپورٹ دیکھیں تو ہمیں چاروں صوبوں کی سطح پر ایسے اعداد وشمار دیکھنے کو ملیں گے جس میں سیاسی ،سماجی ،معاشی تفریق کے پہلو نمایاں نظر آئیں گے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں موجودہ حالات میں ریاست اور حکومت کا عوام سے تعلق جہاں کمزور نظر آتا ہے وہیں ان فریقین میں ایک دوسرے کے بارے میں خلیج اور بداعتمادی پر مبنی ماحول غالب نظر آتا ہے۔
2010میں 18ویں ترمیم کے بعد جیسے مرکز نے صوبوں کو سیاسی ،انتظامی اور مالی اختیارات دیے تھے تو توقع کی جارہی تھی کہ اسی طرح ہم دیکھیں گے کہ صوبے بھی شفافیت اور اپنی سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر اضلاع، تحصیل ، ٹاون،یونین کونسل سمیت ویلج کونسل تک سیاسی، مالیاتی اور انتظامی اختیارات کی منتقلی کو بنیاد بنا کر ایک مضبوط خود مختار ،موثر ،شفاف مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنی سیاسی ترجیحات میں بنیادی فوقیت دیں گی۔
18ویں ترمیم کے بعد حکمرانی کے نظام سے جڑے مسائل کے حل کی بنیادی ذمے داری بھی وفاق کے مقابلے میں صوبوں پر عائد ہوتی ہے۔اسی طرح صوبائی خود مختاری کا اصول کا براہ راست تعلق ہی ضلعی خود مختاری سے جڑا ہوتا ہے۔لیکن صوبائی حکومتوں نے جہاں گورننس کے نظام کو خراب کیا وہیں مقامی حکومتوں کے نظام سے انحراف کی پالیسی سے چھوٹے شہر یا دیہی علاقوں کی ترقی کا پہلو جہاں کمزور نظر آتا ہے وہیںلوگوں میں احساس محرومی کی سیاست بھی بڑھی ہے۔ صوبائی حکومتیں اپنے زیرانتظامی علاقوں میں مساوات کا نظام قائم نہیں رکھ سکے ۔ آج بھی صوبوں کے اندر مخصوص بالادست گروپ اقتدار پر قابض ہے ۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 45فیصد افراد اس ملک میں غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور 36فیصد افراد بنیادی خوراک کے بحران کا شکار ہیں۔اس ملک کی تقریبا 40سے 45فیصد آبادی ناخواندہ ہے اور لڑکیوں میں شرح تعلیم چھوٹے شہروں یا دیہی علاقوں میں اور کم ہے ۔14لاکھ نوجوان ڈیڑھ برس میں معاشی بدحالی یا عدم روزگار کی وجہ سے ملک چھوڑ گئے ہیں جس میں تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہیں۔
اگر ان اعدادو شمار کو صوبوں میںتقسیم کیا جائے تو صوبائی حکومتوں کی کارکردگی اور ترجیحات کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے بھی حکمرانوں کی توجہ اس طرف دلائی ہے کہ ہم گورننس کے بحران کو حل کیے بغیر سیاسی ،انتظامی اور معاشی ترقی کے اہداف پورے نہیں کرسکیں گے۔اس سے قبل ورلڈ بینک بھی اس امر کی نشاندہی کرچکا ہے کہ موجودہ بیوروکریسی پر مبنی ڈھانچہ معاشی ترقی میں بڑی اہم رکاوٹ ہے اور اس میں سخت گیر اصلاحات درکار ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہماری تمام حکمران یا دیگر سیاسی حکومتیں چاہے وہ وفاق میں ہوں یا صوبوں میں وہ اپنے طرز حکمرانی کے باعث مرکزیت پر مبنی نظام کو اختیار کرکے اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتی رہی ہیں اور سخت گیر اصلاحات سمیت جوابدہی اور احتساب ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں رہا۔اس پس منظر میں سابق ناظم لاہور اور ماہر تعلیم میاں عامر محمود نے نئے صوبوں کی بحث کو آگے بڑھایا ہے ۔
اس پر انھوں نے تفصیل کے ساتھ ایک معلوماتی کتابچہ بھی لکھا ہے جو نئے صوبوں کی تشکیل کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتا ہے۔میں نے کتابچہ کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے جس کا عنوان Pakistan 1947-2025, Why it Continues to fail to People?۔اسی طرح اکنامک پالیسی بزنس ڈویلپمنٹ نے نئے صوبوں کی تشکیل پر تین منظرنامے اصلاحات کے تناظر میں پیش کیے ہیں۔ پہلے منظر نامہ میں ملک میں 12نئے صوبے،دوسرے میں پندرہ سے بیس نئے صوبے اور تیسرے میں تجویز دی ہے کہ 38 وفاقی ڈویژن ہوسکتے ہیں۔ وہ خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام پر بھی زور دے رہے ہیں۔
نئے صوبوں کی تشکیل پر ملک میں موجود بڑی سیاسی جماعتوں کا موقف مختلف ہے ۔ وہ بااختیار مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنی سیاست کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں ۔نئے صوبوں کی تشکیل کو بڑی سیاسی جماعتیں کیونکر درست نہیں سمجھتی ہیں اور یہ کیسے فیڈریشن کو کمزور کرنے کا سبب ہیں۔اسی طرح یہ سوال بھی سیاسی قیادت سے پوچھا جانا چاہیے کہ انھوں نے گورننس کے نظام کی بہتری میں کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ اس کا جواب بھی تضادات پر مبنی ہوگا۔ اصل میں اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے موجودہ سیاسی اور انتظامی ڈھانچوں کا نہایت سنجیدگی سے تجزیہ کرنا ہوگا ۔ ہمیں اب دنیا کے حکمرانی کے نظام میں ہی اختیار کیے جانے والے تجربات سے بھی سیکھنا ہوگا ۔آج کا دور جدیدیت پر مبنی حکمرانی کا ہے اور اس میں مقامی حکومتوں اور مقامی لوگوں کی ترقی کو ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا موجودہ حالات اور آئین کی موجودگی یا نئے صوبوں کی تشکیل کے وضع کردہ آئینی پہلوؤں یا نقاط کی موجودگی میں ایسا ممکن ہوگا۔یہ کام اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب صوبائی اسمبلی پہلے اور پھر قومی اسمبلی نئے صوبوں پر دو تہائی سے قرارداد پاس کرے جو موجودہ نہیں ہے ۔تو پھر نئے صوبے کیسے بنیں گے اور کیا ہم اس کے لیے ریفرنڈم کی طرف جائیں گے،جو مشکل کام نظر آتا ہے۔لیکن نئے صوبوں کی عملی ضرورت یا مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام اور عام آدمی کے مفادات پر مبنی نظام کی بحث کو آگے بڑھانا چاہیے ۔
اس سے قطع نظر کہ یہ بحث کس نے شروع کی ہے ہمیں اپنے گورننس کے نظام کی خرابیوں کو تسلیم کرکے اس تجزیہ کو آگے بڑھانا چاہیے کہ ہم کیسے جدیدیت یا نئے طرز حکمرانی کی بنیاد پر اپنے لیے نظام میں بہتری کے نئے امکانات پیدا کرسکتے ہیں۔