ماہ جولائی میں کراچی میں کافی گرمی پڑ رہی تھی اور بندرگاہ میں بھی معاشی سرگرمیاں سرد نہیں تھیں بلکہ گرم تھیں جس کے نتیجے میں مہینے کے آخر میں معلوم ہوا کہ پاکستان کی برآمدات میں 16.43 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
گویا معیشت کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ برآمدی معیشت میں سب سے نمایاں رنگ ٹیکسٹائل کا تھا۔ معلوم ہوا کہ کپڑے، دھاگے، تولیے، بیڈ شیٹ وغیرہ کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ گویا لاہور کے کارخانے ہوں، کراچی کی ملیں، یا فیصل آباد جسے پاکستان کا مانچسٹرکہا جاتا ہے ، وہاں کے کاریگروں کو کام پر واپس آنے کا پیغام ملا کہ اب شفٹوں میں مزدور بڑھانے کا وقت آ گیا ہے، لیکن یہاں غور کرنا ہوگا کہ آخر ایسا کیا ہوا، کہ ترپال، کینویس اور ٹینٹ کے پاکستان کے لیے آرڈرز کیوں کم ہو گئے؟ کہیں ایسا تو نہیں عالمی مارکیٹ میں کسی اور نے ہمارا حصہ ہتھیا لیا ہو۔
کچھ ایسی صورت حال غذائی اجناس کی برآمدات میں نظر آتی ہے، باسمتی چاول کی عالمی مانگ کم ہوگئی، سبزیاں باہر بھیجنے والے کسان مایوس ہوتے رہے، البتہ مسالہ جات، پھل اورگوشت کی عالمی مانگ میں اضافہ ہوا۔ ادھر ملک بھر میں بھی گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہوکر رہا۔ حکومت برآمد کی حد مقررکرے تاکہ ملک میں گوشت کی قلت پیدا نہ ہو اور قیمت میں اضافہ نہ ہو۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب اورکلاؤڈ برسٹ کے باعث ہزاروں افراد کی شہادت کے علاوہ لاکھوں مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں، لہٰذا معاشی حکام گوشت کی پیداوار، اس کی برآمد اور ملک میں پانی جانے والی قلت اورگائے، بکرے کے علاوہ مرغی کے گوشت کی قیمت پر بھی نظر رکھیں۔ لازمی امر یہ ہے کہ ملک میں گوشت کی پیداوار میں بہت زیادہ کمی ہو جائے گی،کیونکہ برسات کے باعث حلال جانوروں کی زبردست کمی ہو رہی ہے، لہٰذا اس معاملے کو فوری توجہ دے کر گوشت کی برآمد کی حد مقررکردی جائے یا عارضی پابندی لگائی جائے۔ جولائی 2025 کا برآمدی حجم 2 ارب 68 کروڑ ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ غذائی گروپ کی برآمدات کا حجم 42 کروڑ 69 لاکھ ڈالرز رہا جب کہ جولائی 2024 میں یہ مالیت 47 کروڑ57 لاکھ ڈالرز تھی۔ آٹو پارٹس، لیدر مصنوعات، سرجیکل آلات کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔
البتہ پلاسٹک کی اشیا، ادویات وغیرہ کی برآمد کم ہوئی ہے۔ غذائی اشیا کی برآمد میں کمی کے اثرات آیندہ بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ چاول کی برآمدات میں کمی کا جائزہ لینا ہوگا، بنگلہ دیش کو چاول کی برآمد بڑھائی جا سکتی ہے چینی کو درآمد کے دروازے سے کھینچ کر برآمدی جہازوں پر لانا ہوگا، تاکہ پچھلے سال جس طرح چینی برآمد کی تھی، اس مرتبہ یہ کام نومبر میں چینی کے کارخانوں میں کرشنگ کے بعد صحیح صورت حال سامنے آ سکتی ہے۔ فی الحال چینی کی درآمدی مقدار وسیع تر ہونے کے امکانات واضح ہیں۔
برآمدات بڑھانے کے لیے پچھلی روش ترک کر کے مشینوں کی نئی ٹیکنالوجی اور اس نئی ٹیکنالوجی پرکام کرنے کے لیے تربیت یافتہ کاریگروں کی دستیابی، توانائی کی قلت کا سدباب اور پالیسیوں کی بے سمتی کا علاج کرنا ہوگا، لہٰذا معیشت کو احتیاط کا دامن تھامنا ہوگا،کیونکہ معیشت کبھی سیدھی لکیر پر نہیں چلتی اور برآمدات کا سارا انحصار غیر ملکی خریداروں پر ہوتا ہے۔
ملک میں کہیں دھماکا ہو جائے وہ دبئی آ کر وہیں سے واپس چلے جاتے ہیں، ملک کی ٹیکسٹائل کی مشینیں بدستور چلتی رہیں۔ ادھر غیر ملکی گاہک بھی ملک میں امن و امان کی صورت حال، ہر وقت کی بجلی بحالی کا منظر، گیس نہ جائے کبھی، یہ سارا منظر دیکھ کر یورپی اور امریکی بھی ہو جائیں نہال، پھرکہیں جا کر معیشت ہوگی کچھ کچھ بحال۔ اگر دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی سفیر، تجارتی اتاشی محنت کرتے کرتے ہوجائیں بے حال تو پھر دیکھیے کمال۔ کئی سفیر و تجارتی اتاشی ایسے ہیں جنھیں ہے برآمدات میں اضافے کا خیال اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ سب مل جل کر ہی ملکی برآمدات کو بڑھا سکتے ہیں۔
فی الحال یہ پہلا مہینہ گزرا ہے، برآمدات میں اضافے کے ساتھ درآمدات میں بھی بے حد اضافہ ہو چکا ہے جس سے تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے اور پہلے مہینے سے ہی خطرے کی گھنٹی بھی بج چکی ہے۔ یعنی تجارتی خسارے کو کسی طور پر کنٹرول کرنا ہوگا، کیونکہ پہلے ہی ملکی معیشت سیلاب زدہ ہو چکی ہے، ملک کے بالائی علاقوں میں ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں۔ لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے زندگی بسرکر رہے ہیں، 2005 میں جب زلزلہ آیا تھا پوری قوم نے مل کر امدادی سامان متاثرہ علاقوں تک پہنچایا تھا۔ کراچی میں ڈرگ روڈ کے قریب ایک امدادی کیمپ قائم کر دیا گیا تھا جہاں سے ہوائی جہاز بھر بھرکر مختلف متاثرہ علاقوں میں سامان پہنچا رہے تھے۔
گلی محلوں کے بچے بوڑھے جوان گھروں میں عورتیں تک اپنے زیورات فروخت کر کے امدادی قافلوں کے لیے سامان مہیا کر رہی تھیں۔ اکثر محلوں گلیوں میں دیکھا گیا کہ امدادی ٹرک آ کر کھڑے ہوگئے چند گھنٹوں میں ہی سامان سے بھر دیے گئے۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنی پاکٹ منی امدادی قافلے کے منتظمین کو دے رہے تھے، گھروں سے بستر چادر کمبل کھانے پینے کا سامان بھجوایا جا رہا تھا۔ اب وقت بہت ہی کم ہے کہ ہم ان سیلاب زدگان کی مدد کے لیے فوراً پہنچیں۔ ان کو امداد پہنچائی جائے۔ قوم کے لیے پھر موقعہ آگیا ہے کہ وہ صف بند ہو کر کھڑی ہو جائے اور اپنے بھائیوں کی امداد کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردی جائیں تاکہ متاثرین کی بحالی کا کام جلدازجلد مکمل ہو جائے، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
بھارت کی طرف سے پنجاب میں آنے والا پانی ایک زبردست اور تباہ کن سیلابی ریلے میں تبدیل ہو چکا ہے، یہ پانی جو کبھی زمینوں کو سیراب کرتا تھا، لیکن اب اوپر سے آنے والا پانی محض دریاؤں کا تیز بہاؤ نہیں ہے، اب یہ اپنے ساتھ انسانی جانوں، سامان کے ساتھ جانوروں کو بہا کر لے جا رہا تھا۔ دراصل یہ ان معاہدوں کی لاشیں بھارت بہا رہا ہے، جن پرکبھی دونوں پڑوسیوں نے بھروسہ کیا تھا جسے بھارت نے اب آبی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے اور پاکستانی مسلمان کبھی کوئی جنگ نہیں ہارتے۔ انشا اللہ! ہم اپنے ارادوں کو مضبوط رکھیں گے اور مل کر اس مشکل کا مقابلہ کریں گے اور پوری قوم ایک دوسرے کی مدد کے لیے کھڑی ہو جائے۔