پھر وہی روایتی سرکاری بیانات

ملک میں آبی ذخائر کی شدید کمی اور نئے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے کیونکہ سیلابوں میں بڑی مقدار میں پانی ضایع ہوتا آ رہا ہے


محمد سعید آرائیں September 02, 2025
[email protected]

وزیر اعظم شہباز شریف نے بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہیوں پر پھر کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث تمام صوبوں کی مشاورت سے آبی ذخائر کے سلسلے میں فیصلے کریں گے اور موثر پالیسی بنائیں گے۔ موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے جس کے لیے موثر تیاریوں سے ہی قدرتی آفات سے بچا جا سکتا ہے یہ قومی مسئلہ ہے جس پر مل کر کام کرنا ہوگا ورنہ سیلابی و برساتی تباہیوں کا ہر سال یہی حال رہے گا۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ آبی گزرگاہوں پر تعمیرات کی اجازت دیں گے نہ معاوضہ، غیر قانونی تعمیرات کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ عالمی بینک نے لاہور کو سب سے زیادہ خطرے سے دوچار شہر قرار دے دیا ہے۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے پی پی چیئرمین کو بھی ماننا پڑا ہے کہ ہم موسمی تبدیلیوں کے نشانے پر ہیں اب ہر منصوبہ ماحولیات کو مدنظر رکھ کر بنانا ہوگا۔ اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ سیلاب کی حالیہ تباہ کاریاں 2022 سے زیادہ ہیں اور دریاؤں کے سکڑنے اور دریاؤں میں تجاوزات کے قیام نے سیلاب کی شدت کو بڑھایا جس کی وجہ سے موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا واحد ملک پاکستان بن گیا ہے۔

حکومتی وزراء نے بھی کوئی نئی بات نہیں کی اور دو تین ماہ سے کے پی میں دریاؤں کے کنارے تجاوزات ہاؤسنگ منصوبوں اور غیر قانونی تعمیرات کی باتیں دہرائی ہیں جو کے پی سے متعلق مسلسل میڈیا اور عوامی حلقوں میں بلند ہوتی آ رہی ہیں۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ دریاؤں کے کنارے ہوٹل، تجاوزات اور سارے ریزورٹس امیروں کے ہیں کسی غریب کا کوئی ہوٹل تک نہیں مگر حیرت ہے کہ وہاں طاقتوروں کو غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے قیام کے لیے این او سی مل جاتی ہے۔

وزیر موسمیاتی تبدیلی کے مطابق وزیر اعظم نے اب واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب ریاست ایسے بااثر افراد کے آڑے آئے گی۔ایسے بیانات 2022 میں پی ٹی آئی حکومت میں بھی سامنے آئے تھے اور تین سال بعد اب موجودہ حکومت میں بھی سامنے آئے ہیں اور اس سے قبل بھی جس حکومت میں سیلابی اور برساتی تباہ کاریاں ہوتی تھیں حکمرانوں کی طرف سے ایسے ہی انتباہی اعلانات سامنے آتے تھے مگر بعد میں صورت حال بہتر ہونے، متاثرین کی مالی امداد اور سرکاری طور پر غریبوں کے گھر، فصلیں تباہ ہو جانے پر حکومتیں عارضی اقدامات کرکے اپنے اعلانات بھول جاتی تھیں جو اب پھر ملک گیر تباہی پر دیے جا رہے ہیں اور کچھ عرصے بعد ہونا وہی ہے جو ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ غریب لوگ ہی اپنے اوپر گزرنے والی تباہی کو یاد رکھتے ہیں اور ابھی وہ سنبھل بھی نہیں پاتے کہ پھر موسم رنگ بدلتا ہے اور بارشوں و سیلابوں کا سلسلہ پھر سامنے آتا ہے اور یہ سلسلہ سالوں سے جاری ہے کبھی حکومتیں بدل جاتی ہیں مگر سیلابی متاثرین کی قسمت کبھی نہیں بدلتی۔

چار عشروں سے سنا جا رہا ہے کہ ملک میں آبی ذخائر کی شدید کمی اور نئے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے کیونکہ سیلابوں میں بڑی مقدار میں پانی ضایع ہوتا آ رہا ہے مگر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونے کے باوجود پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں بڑھائی جاتی کیونکہ اس پر کبھی کسی حکومت، کبھی سیاسی پارٹیوں کے اعتراضات سامنے آ جاتے ہیں اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ قومی مفاد کے بجائے سیاسی مفادات ترجیح بن جاتے ہیں۔ اس عرصے میں غیر جمہوری اور متعدد جمہوری حکومتوں میں کچھ کوشش ہوئی، منصوبے بنانے پر اربوں روپے بھی ضایع ہوئے اور نئے آبی ذخائر سیاست کی نذر ہوتے گئے اور اب بھی کہا جا رہا ہے کہ صوبوں کو اعتماد میں لے کر فیصلے کریں گے۔ موجودہ صورت حال میں اہم این ایف سی اجلاس ملتوی ہونا قبول ہے مگر ملکی مفاد میں آبی ذخائر بڑھانے کے فیصلے نہیں ہوتے۔

مقبول خبریں