پاکستان امریکا تعلقات میں نئے امکانات

ماضی میں امریکا کا حد سے بڑھتا ہوا بھارت پر انحصار پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرتا رہا ہے اور امریکا ہمیں سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا


سلمان عابد September 05, 2025
[email protected]

پاکستان اور امریکا کے درمیان کئی برسوں سے تعلقات سرد مہری یا بداعتمادی کا شکار تھے۔کچھ سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ پاکستان و امریکا کے تعلقات میں بہتری کے امکانات بھی بہت کم ہوںگے یا امریکا کو پاکستان کی وہ ضرورت نہیں ۔لیکن حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کی نئی جہتوں کو سامنے لایا ہے جو یقینی طور پر پاکستان کے سیاسی مفاد کے قریب تر ہے۔

عموماً کہا جاتا تھا کہ امریکا اور بھارت دونوں اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں۔کچھ لوگ امریکا، اسرائیل اور بھارت کا باہمی گٹھ جوڑ پاکستان کی مخالفت میں سمجھتے تھے ۔لیکن اب جس طرح سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے درمیان نئی گرم جوشی کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ یقینی طور پر حیرانی کے پہلو کی عکاسی کرتا ہے ۔

جس طرح یا جس اندازمیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حمایت کررہے ہیں، وہ بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔کیونکہ ایک سے زیادہ مرتبہ امریکی صدر بھارت کی خواہش پر پاک بھارت جنگ بندی کا کہہ چکے ہیں جو یقینی طور پر بھارت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے کہ وہ امریکا کے پاکستان پر بڑھتے ہوئے انحصار کو کیسے کم کرسکے۔

امریکا میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ون ٹو ون ملاقات ،فیلڈ مارشل کا دو دفعہ دورہ امریکا،  دونوں ممالک کے اعلی سفارت کاروں کے درمیان دو طرفہ ملاقات ، وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی امریکی حکام سے ملاقاتیں سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ یہ عمل پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ اور مستقبل کے تعلقات میں نئے سیاسی ،معاشی اور دفاعی امکانات کو سامنے لانے کا سبب بنے گا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بقول بہت جلد پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک بڑا تجارتی ماہدہ بھی ہوجائے گا ۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ دونوں ممالک کے درمیان نئے تعلقات کا عمل محض تجارتی معاملات تک محدود رہے گا یا ان تعلقات کو ہم نئے اسٹرٹیجک تعلقات کی صورت میں بھی دیکھ سکیں گے، یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے ۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ ہمیں جو امریکا اور بھارت کے تعلقات میں مسائل دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ مستقل بنیادوں پر ہوںگے یا کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر پھر دونوں ممالک کے تعلقات میں بداعتمادی کم ہوسکتی ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت امریکا اور بھارت کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے جس کا بڑا فائدہ خود پاکستان کو بھی ہورہا ہے۔ کیونکہ ماضی میں بھارت اور امریکا کے تعلقات میں گرم جوشی یا ایک دوسرے پر کمال کا اعتماد پاکستان کے لیے کوئی مثبت پہلو نہیں تھا۔

حال ہی میں جس طرح پاکستان کی حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے وہ یقینی طور پر امریکی صدر کے لیے اچھا پہلو ہے۔کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر یہ ہی رویہ یا سوچ بھارت سے بھی رکھتے تھے مگر بھارت نے ایسا نہیں کیا، جس پر امریکی صدر ان سے نالاں نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے لیے امریکا سے بہتر ی پر مبنی تعلقات کے تناظر میں ایک بڑا چیلنج پاکستان اور چین کے دو طرفہ تعلقات بھی ہیں۔

ہماری عالمی سفارت کاری میں اب چین کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ۔یقینا امریکا کی خواہش ہوگی کہ پاکستان حد سے زیادہ چین کی طرف اپنا جھکاؤ بڑھانے کی بجائے عالمی وبالخصوص اس خطہ کی سیاست میں امریکی مفادات کو بھی اہمیت دے اور اسے پس پشت نہ ڈالے۔فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے بھی کہا ہے کہ ہمیں دونوں ممالک یعنی امریکا و چین سے توازن پر مبنی پالیسی اختیار کرنی ہے اور یہ کام ہم بہتر طور پر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔لیکن ماضی میں پاکستان اور امریکا کے تعلق کو دیکھیں تو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے امریکا اور چین دونوں کو بغیر کسی ٹکراؤ کے ساتھ لے کر چلنا خود ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں سیاسی اور عسکری سطح سمیت علاقائی سیاست میں اپنے کردار کو نہ صرف نمایاں کرنا ہوگا بلکہ خود کو مختلف جہتوں میں عالمی و علاقائی دنیا میں خود کو ایک بڑی ضرورت کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔

پاکستان کے لیے ایک چیلنج جہاں امریکا اور چین سے بہتر تعلقات کو استوار کرنا ہے وہیں اس کا علاقائی سیاست میں دوسرا بڑا چیلنج افغانستان اور بھارت کے ساتھ بداعتمادی کا ہے۔پاکستان، امریکا اور چین دونوں پر انحصار کرتا ہے کہ اس کے افغانستان سے تعلقات کی بہتری میں دونوں ممالک اپنا کردار ادا کریں ۔کیونکہ پاکستان کو دہشت گردی کا جو بڑا چیلنج ہے اس کا بڑا انحصار افغانستان سے بہتر تعلقات اور افغان حکومت کی ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن سے جڑا ہوا ہے۔

ایک اہم پیش رفت یہ بھی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ بھارت کی سفارت کاری میں امریکا پر انحصار کی بجائے متبادل پالیسی کے تحت چین اور روس کی طرف دیکھا جارہا ہے۔دوسری طرف امریکا اور بھارت کے سفارت کار دونوں ممالک کے تعلقات میں پیدا ہونے والی خلیج کو کم کرنے یا اس میں بڑا بریک تھرو کرنے کوشش کررہے ہیں ۔ لہذا ان دونوں پہلووں پر بھی پاکستان کو اپنی نظر رکھنی ہوگی ۔

ماضی میں امریکا کا حد سے بڑھتا ہوا بھارت پر انحصار پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرتا رہا ہے اور امریکا ہمیں سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے، ایک طرف امریکا ہے تو دوسری طرف چین اور دونوں پاکستان کی موجودہ ضرورت کو سمجھتے بھی ہیں اور اس کو اپنے حق میںبھی سمجھتے ہیں۔امریکا جس انداز سے پاکستان کے حق میں آیا ہے۔

اس پر بھی ہمیں نظر رکھنی ہوگی کہ ان تعلقات کے عوض خود امریکا پاکستان سے کیا چاہتا ہے ۔پاکستان واضح کرچکا ہے کہ اب ہمارے تعلقات کی نوعیت کسی بھی ملک کے خلاف یا تنازعات یا جنگوں میں حصہ دار بننے کی نہیں ہوگی۔اس وقت عملا دنیا اور بالخصو ص علاقائی سطح پر موجود ممالک کی سفارت کاری اور تعلقات میں نئے امکانات اور نئی جہتیں سامنے آرہی ہیں اور کئی ممالک خود اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں لارہے ہیں تو ایسے میں ہمیں بھی علاقائی اور عالمی سیاست میں اپنے کارڈ بہتر طور پر کھیلنے ہوں گے۔

مقبول خبریں