بھارت میں مودی سرکار نے اقلیتوں پر عرصۂ حیات تنگ کرکے رکھ دیا اور مذہبی آزادیاں سلب کر رکھ ہیں جس پر اب امریکا نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی کانگریس کے ارکان اور عالمی مذہبی آزادی کمیشن کے اعلیٰ عہدیداروں نے اپنی ہی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو عالمی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت خصوصی تشویش کا حامل ملک قرار دیا جائے۔
ری پبلکن رکن کانگریس اور امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی (USCIRF) کی چیئرپرسن وکی ہرزلر اور نائب چیئرمین ڈاکٹر آصف محمود نے وزیر خارجہ مارکو روبیو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کی صورتحال مسلسل بگڑ رہی ہے اور اس پر خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔
امریکی اخبار میں شائع ہونے والے ایک مشترکہ آرٹیکل میں ان رہنماؤں نے لکھا کہ چین میں مذہبی پابندیوں سے دنیا واقف ہے مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت بھی اب مذہبی آزادی کے حوالے سے سنگین سوالات کی زد میں ہے۔
ان کے بقول بھارتی حکومت مختلف ریاستوں میں نافذ مذہب تبدیلی کے خلاف قوانین کو مذہبی اقلیتوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے جن کے نتیجے میں سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا اور مذہبی رہنماؤں پر بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے۔
امریکی رہنماؤں نے نشاندہی کی کہ بھارت کی 12 ریاستوں میں مذہب تبدیلی کے خلاف قوانین موجود ہیں جنھیں مسیحی اور مسلم برادری کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
انھوں نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ ایسے کئی واقعات میں مذہبی کشیدگی اور تشدد بھی سامنے آیا جس میں حکومت اور مقامی انتظامیہ کا کردار مثبت نہیں تھا۔
امریکی ارکان نے اپنے آرٹیکل میں گوا کی مثال دیتے ہوئے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ ’لو جہاد‘ جیسے متنازع تصورات کو بنیاد بنا کر سخت قوانین کی بات کی گئی جوکہ محض ہندو قوم پرستانہ پروپیگنڈا ہے۔
ایک اور مثال دیتے ہوئے لکھا کہ اتر پردیش میں بھی ایک مسیحی پادری اور ان کی اہلیہ پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کے ذریعے لوگوں کو زبردستی مذہب تبدیل کروانے کی کوشش کر رہے تھے جو کہ بے بنیاد الزام تھا۔
امریکی ارکان اسمبلی نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ مدھیہ پردیش میں جبری مذہب تبدیلی کے الزام پر سزائے موت تجویز کی جا رہی ہے جو انسانی حقوق کے عالمی اصولوں کے منافی ہے۔
امریکی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر بھارت واقعی امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ اقلیتوں کیخلاف قوانین کو ختم کرے اور عملی طور پر مذہبی آزادی کے عالمی اصولوں کی پاسداری کرے۔
انھوں نے مزید کہا کہ مذہبی حقوق کا احترام نہ صرف بھارت کے اندرونی استحکام بلکہ عالمی سطح پر اس کی ساکھ کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
خیال رہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی نژاد امریکی مسلمان ڈاکٹر آصف محمود اس حساس امریکی کمیشن میں قیادت کے منصب پر فائز ہیں۔
رکن اسمبلی ڈاکٹر آصف محمود کا تعلق ریاست کیلیفورنیا سے ہے اور وہ پاکستان کے شہر کھاریاں سے امریکا منتقل ہوئے تھے۔