آسٹریلیا میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان کی زندگی اس وقت ’’ڈراؤنا خواب‘‘ بن گئی جب سوشل میڈیا پر اس کی تصویر کو وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا اور غلط طور پر اسے سڈنی کی بونڈائی بیچ پر دہشت گرد حملے کے شوٹرز میں سے ایک کے طور پر نمایاں کیا گیا۔ نیو ساؤتھ ویلز میں اپنا کاروبار چلانے والے 30 سالہ نوید اکرم نے خود کو غلط معلومات کے طوفان کے بیچ پایا جو بونڈائی بیچ پر ہونے والی مہلک فائرنگ کے بعد پھیلنا شروع ہوا اورجس میں 16 افراد ہلاک ہوگئے۔ پولیس نے مبینہ شوٹرز کی شناخت باپ اور بیٹے کے طور پر کی: 50 سالہ ساجد اکرم اور 24 سالہ نوید اکرم۔
جیسے ہی آن لائن یہ اطلاع پھیلی کہ شوٹرز میں سے ایک پاکستانی ہے جس کا نام بھی وہی ہے، اکرم کی تصاویر ایکس اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر بغیر کسی تصدیق کے بطور ملزم وسیع پیمانے پر شیئر ہونا شروع ہوگئیں۔غلط معلومات، جس میں اکرم کی تعلیمی پس منظر کو بھی شوٹر کے پس منظر کے طور پر پیش کیا گیا، مین اسٹریم میڈیا ویب سائٹس جیسے یروشلم پوسٹ اور ورلڈ اِز ون نیوز پر بھی شائع ہوئیں۔
نوید اکرم نے برطانوی اخبار گارڈئین کو دئیے گئے انٹرویو میں اپنے’’گہرے صدمے اور خوف‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی تصویر لاکھوں فالورز والے اکاؤنٹس کی جانب سے شیئر کی جا رہی ہے اور ایکس پر ٹرینڈ کر رہی ہے، تو وہ سکتے میں آ گئے۔’’یہ میرے لیے انتہائی پریشان کن تھا۔‘‘ اکرم نے کہا۔’’جیسے ہی میں نے دیکھا کہ میری تصویر کو شوٹر کے طور پر شیئر کیا جا رہا ہے، میں فوراً گھر آ گیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہ بہت خطرناک جھوٹ ہے۔ میں شدید صدمے میں تھا اور سمجھ گیا تھا کہ مجھے فوراً پیغام پہنچانا ہوگا کہ یہ میں نہیں ہوں۔‘‘
بہت سے اکاؤنٹس جنہوں نے غلط طور پر ان کی تصویر شیئر کی، بھارت سے تعلق رکھتے تھے، جہاں انتہا پسند ہندوؤں نے شوٹر کی مبینہ شناخت کو بطور اس ثبوت پیش کیا کہ پاکستان کے دہشت گردی سے روابط ہیں—بغیر اس بات کی جانچ کیے کہ وہ جس شخص کو نشانہ بنا رہے ہیں، وہ درست ہے یا نہیں۔مبینہ حملہ آور نوید اکرم آسٹریلوی شہری ہے۔ اس کا والد 1990 کی دہائی کے اواخر میں بھارت سے آسٹریلیا منتقل ہوا تھا اور وہ آسٹریلوی شہری نہیں۔
فیس بک یا ایکس پر وہ تمام پوسٹس جن میں غلط طور پر پاکستانی اکرم کی تصویر دکھائی گئی تھی، پلیٹ فارم کے فیکٹ چیکرز کی جانب سے غلط معلومات کے طور پر نشان زد کرنے کے لیے کسی وارننگ لیبل یا کمیونٹی نوٹس کے ساتھ ظاہر نہیں ہوئیں۔’’یہ فائرنگ خوفناک المیہ تھا۔‘‘ اکرم نے کہا۔’’مگر مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ لوگ ان جعلی پوسٹس کے ذریعے میری جان خطرے میں ڈال دیں گے۔اس جھوٹ نے تو میری پُرامن دنیا زیروزبر کر ڈالی۔‘‘
اکرم کا کہنا ہے، وہ غلط معلومات کی اطلاع دینے پولیس کے پاس گئے مگر انہوں نے صرف یہ کہا کہ اپنے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس غیر فعال کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایکس سے مدد لینے میں بھی ناکام رہے۔ اس کے بعد انہوں نے خود ایک ویڈیو بنائی جو فیس بک اور ٹوئٹر پر پوسٹ کی، تاکہ واضح کیا جا سکے کہ ان کی غلط شناخت کی گئی ہے اور درخواست کی کہ ان کی تصویر والی پوسٹس رپورٹ کر کے ہٹا دیا جائے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مطالبہ کیا کہ وہ غلط معلومات کو جگہ دینے کی ذمے داری قبول کریں۔’’ان میں سے بہت سی جعلی پوسٹس اب بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ میں اب بھی باہر جانے سے—حتیٰ کہ خریداری کرنے سے ڈرتا ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا۔’’اس وجہ سے میری زندگی اب بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ میری واحد ترجیح اس وقت اپنا نام صاف کرنا اور خود کو اور اپنی اہلیہ کو محفوظ رکھنا ہے۔‘‘
احمد الاحمد کی جھوٹی خبر
اکرم واحد شخص نہیں تھے جو فائرنگ کے بعد سوشل میڈیا پر پھیلنے والی جھوٹی اور بدنیتی پر مبنی خبروں کی زد میں آئے۔ ایکس پر ایک پوسٹ نے، جسے 80 لاکھ سے زیادہ بار دیکھا گیا، غلط طور پر دعویٰ کیا کہ شوٹر آئی ڈی ایف (اسرائیلی دفاعی افواج) کا سپاہی تھا، جبکہ ایک اور پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ شوٹر لبنانی نژاد فلسطینی تھا۔
اسی دوران اس شخص کی شناخت کی تصدیق ہو گئی جس نے شوٹروں میں سے ایک کو قابو کیا اور اس کی بندوق چھین لی: 43 سالہ، دو بچوں کے باپ، احمد الاحمد۔ لیکن ایکس پر صارفین نے غلط طور پر دعویٰ کیا کہ یہ ہیرو دراصل برطانیہ سے تعلق رکھنے والا 47 سالہ آئی ٹی ورکر ہے ۔
ان پوسٹس میں ‘‘thedailyaus.world’’ نامی ویب سائٹ کے لنکس دیے گئے تھے، جو WHOIS ریکارڈز کے مطابق چند دن قبل آئس لینڈ میں ایک رجسٹریشن کمپنی کے ذریعے رجسٹر کی گئی۔ اس لیے یہ واضح نہیں کہ اس سائٹ کو کون چلاتا ہے۔ (اس ویب سائٹ کا مقبول آسٹریلوی یوتھ نیوز سائٹ thedailyaus.com.au سے کوئی تعلق نہیں۔)
یہ غلط معلومات ایکس کے اے آئی چیٹ بوٹ ’’گروک‘‘ نے بھی آگے بڑھائیں، جس نے صارفین کو غلط طور پر یہ جواب دیا کہ شناخت کیے گئے برطانوی شخص نے’’بہادری سے ایک حملہ آور کو جکڑ کر اسلحہ چھین لیا، دو گولیاں کھائیں لیکن مزید اموات کو روک لیا۔‘‘
کویسلینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ٹِموتھی گراہم کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت کہ گروک کی پوسٹ کو شائع ہونے کے دس گھنٹے بعد بھی کوئی کمیونٹی نوٹ نہیں ملا، یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس طرح کے واقعے کے دوران گہری تقسیم والے مواد پر ایکس کا فیکٹ چیکنگ نظام کس طرح ناکام ہوتا ہے۔
کچھ پوسٹس جن میں احمد کی شناخت کی گئی تھی، ان پر صارفین نے کمیونٹی نوٹس جمع کرائے جن میں دعویٰ کیا گیا کہ کوئی اور شخص ملزم ہے اور آئس لینڈ والی سائٹ کے لنکس فراہم کیے گئے، لیکن یہ نوٹس ان پوسٹس پر شائع نہیں ہوئے جو مغربی صحافیوں نے دیکھیں۔کچھ اکاؤنٹس نے احمد کا نام درست لیا، مگر غلط طور پر دعویٰ کیا کہ وہ مارونائٹ عیسائی ہیں، جبکہ وہ شامی مسلمان ہیں۔
یہ جھوٹے دعوے بھی سامنے آئے کہ مسلمانوں نے مغربی سڈنی کے علاقے،بینک سٹاؤن میں اس حملے کا جشن منانے کے لیے آتش بازی کی۔ آتش بازی دراصل قریبی پیڈسٹاؤ میں ہوئی تھی اور وہ کرسمس کیرلز کے ایک پروگرام کا حصہ تھی۔اس جھوٹی مہم میں اضافہ کرتے ہوئے ایک صارف نے گوگل میپس پر مبینہ حملہ آور کے بونی رگ والے گھر کے پتے کو مسجد کے طور پر لیبل کر دیا۔ یہ لیبل بعد میں ہٹایا گیا۔
بی بی سی نے بھی سوشل میڈیا پر اس ‘‘ہیرو’’ کی شناخت سے متعلق جھوٹے دعوؤں کا کھوج لگایا جو بونڈائی بیچ کے ایک حملہ آور سے بندوق چھیننے والے شخص کے بارے میں تھے اور ان کا سراغ ایک جعلی خبروں کی ویب سائٹ تک ملا۔حملے کے چند گھنٹوں بعد جس شخص نے ایک حملہ آور کا سامنا کیا، اس کی شناخت احمد الاحمد کے طور پر کی گئی تھی۔ لیکن آن لائن یہ جھوٹے دعوے پھیلنا شروع ہو گئے کہ وہ راہگیر دراصل بونڈائی کا مقامی شخص ’’ایڈورڈ کریب ٹری‘‘ ہے۔
یہ دعویٰ پہلی بار ‘‘دی ڈیلی’’ نامی جعلی خبر رساں ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ عوامی ڈیٹا بیس ظاہر کرتے ہیں کہ اس ویب سائٹ کا ڈومین صرف کل ہی رجسٹر ہوا تھا۔اس کی سرِفہرست خبر میں ‘‘ایڈورڈ کریب ٹری’’ کو اس ’’قومی ہیرو‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا جس نے حملہ آور کو غیر مسلح کیا۔ واقعے کی ڈرامائی تفصیلات، اس کے مبینہ پس منظر کی تفصیلی معلومات اور پولیس کے جعلی بیانات بھی شامل کیے گئے ہیں۔یہ پوری جعلی نیوز ویب سائٹ صرف ایک ہی گھڑی ہوئی جھوٹی خبر شائع کرنے کے لیے بنائی گئی معلوم ہوتی تھی۔
سائٹ پر موجود تمام لنکس یا تو کام نہیں کرتے یا اس کی واحد دوسری مکمل خبر کی طرف لے جاتے جو ایک جعلی موسمیاتی تبدیلی سمٹ کے بارے میں ہے۔سائٹ کے جعلی ہونے کی ایک اور نشانی یہ تھی کہ جب بھی کوئی صفحہ دوبارہ لوڈ کیا جاتا تو دیگر خبروں کی تھمب نیل تصاویر بدل جاتی اور یہ تصاویر سرخیوں سے بالکل غیر متعلق ہوتیں۔
بہرحال اس جھوٹی ویب سائٹ کا دعویٰ ایکس پر تیزی سے پھیل گیا — ’’نام ایڈورڈ کریب ٹری ہے، بونڈائی کا مقامی، کوئی احمد نہیں‘‘ — متعدد تصدیق شدہ صارفین نے یہ پوسٹس لکھیں جو دس لاکھ سے زائد ناظرین تک پہنچیں۔بعد میں ایکس کے اے آئی چیٹ بوٹ ‘‘گروک’’ نے بھی جب صارفین نے احمد کی شناخت کے بارے میں پوچھا تو اسی دعوی کو دہرانا شروع کر دیا۔
اس چیٹ بوٹ نے یہ غلط دعوی بھی کیے کہ احمد کی جانب سے حملہ آور کو غیر مسلح کرنے والی ویڈیو پرانی ہے… حملے کے بعد احمد کی تصویر دراصل غزہ میں ایک اسرائیلی یرغمالی کی ہے، اور یہ کہ فائرنگ کی ویڈیو دراصل مارچ کے ایک سمندری طوفان کی ویڈیو ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے کمپیوٹر سائنس دان ،ڈاکٹر پیٹر بینٹلے کہتے ہیں کہ گروک جیسے اے آئی چیٹ بوٹس تربیتی ڈیٹا اور انٹرنیٹ کی بنیاد پر کسی سوال کا سب سے قابلِ قبول جواب پیدا کرتے ہیں، جو اس وقت مسائل پیدا کر سکتا ہے جب نئی معلومات سامنے آئیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ تازہ معلومات، جیسے کسی فائرنگ کی نئی فوٹیج کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ چیٹ بوٹس کے پاس دستیاب ڈیٹا اتنا نہیں ہوتا، یا اتنا درست نہیں ہوتا، کہ وہ صحیح نتیجہ دیں — اور ان کا ‘قابلِ قبول جواب یکسر غلط ثابت ہوتا ہے۔‘‘
نیا عذاب
دنیائے انٹرنیٹ کئی فائدے رکھتا ہے مگر اس کی شاید سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ دور جدید میں نفرت و شرانگیزی پھیلانے والی جھوٹی وجعلی خبروں کا گڑھ بن گیا ہے۔ پاکستانی نوید اکرم کی حالیہ مثال سے عیاں ہے کہ یہ جھوٹی خبریں اب انسانوں کی قیمتی جانیں انتہائی خطرے میں ڈالنے لگی ہیں۔ اور یہ بات تشویش ناک ہے کہ مصنوعی ذہانت پر بنی چیٹ بوٹس عام طور پر جھوٹی خبریں دبانے کے بجائے انھیں نمایاں کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اسی باعث دنیائے نیٹ پر جھوٹی خبروں کا طومار بنی نوع انسان کے لیے نیا عذاب اور ایک زبردست آفت بن گیا ہے۔
چشم کشا تحریر
ماریو نکولاس ( Mario Nicolais )امریکہ کے ممتاز ابھرتے وکیل و صحافی ہیں۔ وہ اکثر امریکی صدر ٹرمپ کے انتہا پسندانہ اقدامات کو نشانہ بناتے ہیں۔ جھوٹی خبروں کے معاملے پر انھوں نے حال ہی میں ایک طویل مضمون لکھا۔اس کا خلاصہ اور بنیادی نکات پیش خدمت ہیں:
گزشتہ دنوں مجھے ایک دوست کا پیغام ملا جس نے پوچھا کہ کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واکر استعمال کرنے کی تصویر حقیقی ہے۔ چونکہ وہ جانتے ہیں کہ میں زیادہ تر وقت سیاسی گروپوں — خاص طور پر اینٹی ٹرمپ تنظیم’’دی لنکن پروجیکٹ‘‘ کے ساتھ کام کرتا ہوں،اس لیے انہوں نے سوچا کہ میں توثیق کے لیے مناسب ذریعہ ہوں گا۔چاہنے کے باوجود مجھے انہیں بتانا پڑا کہ یہ حقیقی نہیں ۔ انٹرنیٹ پر گردش کرتی یہ تصویر اے آئی کے ذریعے بنائی گئی ہے تاکہ ٹرمپ کو حقیقت سے زیادہ بوڑھا اور کمزور دکھایا جائے۔
مصنوعی ذہانت کے بڑھتے استعمال نے گذشتہ دہائی سے سیاست پر حاوی ’’ڈیپ فیک‘‘(جھوٹی خبروں) اور سازشی نظریات کو مزید ہوا دی ہے۔ جو چیزیں کبھی انٹرنیٹ کے گوشہ گیر، ڈارک ویب کے کونوں تک محدود تھیں، وہ اب ہماری آن لائن زندگی کے تقریباً ہر حصے میں در آئی ہیں۔
اب حال یہ ہے کہ مقبول سوشل میڈیا کے اثر اندازوں (انفلوئنسرز) کی شکل و شباہت چوری کر کے جھوٹی پوسٹس بنائی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر’’دی لنکن پروجیکٹ‘‘ میں میرے ساتھی، رک ولسن کئی برسوں سے متعدد پوڈکاسٹس اور ویڈیو اسٹریمز کی میزبانی کر رہے ہیں۔ ان کی انتھک محنت نے دی لنکن پروجیکٹ کو یوٹیوب، بلیوسکائی اور ٹوئٹر/ایکس جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لاکھوں پوڈکاسٹ سبسکرائبرز اور فالوورز دلائے ہیں۔
جب گمنام یوٹیوب چینلز نے ولسن کی ایسی ویڈیوز شائع کرنا شروع کیں جن میں مبینہ طور پر وہ ٹرمپ کے خلاف اپنے معروف جلالی خطبات میں سے کسی ایک پر اتر آئے تھے، تو ہم چوکس ہو گئے۔ ویڈیوز میں سب کچھ کچھ نہ کچھ کھٹک رہا تھا: چہرے کے خدوخال حد سے زیادہ ہموار، آواز ذرا سی اونچی، حرکات کبھی کبھار جھٹکے دار جیسے اوپر نیچے ہو رہی ہوں…ہر ویڈیو اے آئی کے ذریعے تیار کی گئی تھی۔
صرف کوئی مختصر کلپ یا آواز کا ٹکڑا نہیں بلکہ مکمل 15، 20 اور 30 منٹ کی ویڈیوز۔ ان میں سے کسی میں بھی وہ باتیں شامل نہیں تھیں جو ولسن نے کبھی کہی یا خود فلمائی ہوں، لیکن مشابہت اتنی زیادہ تھی کہ ایک عام ناظر شاید فرق محسوس ہی نہ کر پاتا۔جو لوگ کام کرتے ہوئے پس منظر میں پوڈکاسٹ چلاتے ہیں، ان کے لیے بھی آواز کا مجموعی انداز اور موضوعات اتنے ملتے جلتے تھے کہ توجہ بٹی ہونے کی صورت میں یہ جعلی جھوٹا مواد آسانی سے سچا سمجھا جا سکتا ہے۔
ولسن نے ہزاروں گھنٹے ویڈیوز بنانے میں صرف کیے تاکہ اپنی پہچان اور برانڈ قائم کر سکے اور اے آئی نے انہی محنتوں کی بنیاد پر بالکل نئی چیز تخلیق کر لی۔ چند ہدایات دی گئیں اور اے آئی نے ولسن کے اپنے مواد کو اس کے خلاف ہتھیار بنا دیا۔ ان ویڈیوز کو مجموعی طور پر لاکھوں میں ویوز ملے۔
مواد کی چوری کی رفتار کے مقابلے میں اْن پلیٹ فارمز کا ردِعمل انتہائی سست ہے جہاں یہ ڈیجیٹل ڈکیتیاں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر یوٹیوب شکایات صرف اپنے معمول کے آن لائن فارم کے ذریعے قبول کرتا ہے۔ وضاحت کے لیے بہت کم جگہ ہوتی ہے اور ایک ہی چینل پر موجود متعدد ویڈیوز کو مؤثر طریقے سے رپورٹ کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
اس سے بھی بدتر یہ کہ شکایت ایک ایسے خلا میں چلی جاتی ہے جہاں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس پر کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں، کیونکہ یوٹیوب اطلاع بھی نہیں دیتا۔ بہترین صورتِ حال میں چند ہفتوں بعد ویڈیوز غائب ہو جاتی ہیں۔
یقیناً یہ مسئلہ صرف ولسن یا دی لنکن پروجیکٹ تک محدود نہیں۔ اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یوٹیوب کے ایک مشہور قانونی انفلوئنسر اس مسئلے اور یوٹیوب کے رویّے پر کس حد تک غصّے میں آ جاتے ہیں تو دیون ’’لیگل ایگل‘‘ اسٹون کی ویڈیو کے 15 منٹ دیکھ لیجیے۔ ہر گزرتے منٹ کے ساتھ اس کی آواز تقریباً ایک سْر اونچی ہوتی جاتی ہے، جوں جوں اس کی بے بسی اور جھنجھلاہٹ بڑھتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جس کسی نے بھی وقت اور محنت لگا کر بڑی تعداد میں فالوورز بنائے ہوں، وہ جھوٹ جعلی پن کا نشانہ بن سکتا ہے۔
اگرچہ یہ کہانیاں اْن لوگوں کے لیے انتہائی ذاتی نوعیت کی ہیں جن کی شکل و صورت یا آواز چرا لی جاتی ہے — اور جو مالی نقصان اور دیگر نتائج کا سامنا بھی کر سکتے ہیں لیکن جب یہ مسئلہ پورے سیاسی نظام کو آلودہ کرنے لگے تو اس کی سنگینی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ امریکی عوام طویل عرصے سے صدارتی امیدواروں اور سیاست دانوں پر عدم اعتماد کا شکار رہے ہیں اور جب اس میں مکمل طور پر جعلی و جھوٹا مواد بھی شامل ہو جائے تو اکثر لوگ مایوسی میں ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ اس مسئلے کی جڑیں انہی لوگوں میں ملتی ہیں جنہوں نے معتبر خبروں کے ذرائع پر شکوک و شبہات کو ہوا دی۔ دہائیوں سے دائیں بازو کے مبصرین ’’مین اسٹریم میڈیا‘‘ پر تنقید کرتے رہے تاکہ اپنی وفادار سامعین کی جماعت بنا سکیں۔ ٹرمپ نے اس رجحان کو مزید تقویت دی اور ہر تنقیدی میڈیا ادارے کو ’’جعلی خبر‘‘ قرار دیا — یہ اصطلاح انھوں نے انہی صحافیوں سے مستعار لی جو ان کے حامیوں کی سازشی تھیوریوں کی منظم انداز میں تردید کر رہے تھے۔

جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ لوگ رات کے نیوز اینکرز اور تجربے کار اخباری رپورٹرز سے خبریں لینا چھوڑتے گئے، ویسے ویسے انہوں نے فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام کا رخ کیا۔ ابتدا میں ان پلیٹ فارمز نے جھوٹ اور غلط معلومات کے خلاف سخت اقدامات کیے، مگر حالیہ برسوں میں جب ٹرمپ اور اُن کے ساتھیوں نے اِن کوششوں کو ’’سینسرشپ‘‘ قرار دیا تو سوشل میڈیا کمپنیوں نے تقریباً ہار مان لی۔ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ان کے لیے سستا پڑتا تھا۔
آج ہم غلط بیانی اور گمراہ کن پوسٹس کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ چاہے جلد پیسہ کمانے والے ہوں یا وہ عناصر جن کے زیادہ خطرناک عزائم ہیں اور جو انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں — سب نے ہمیں آسان شکار سمجھ لیا ہے۔وہ بغیر کسی احتساب کے خوف مواد تیار کرتے جا رہے ہیں۔ اور یہ سب اْس سے پہلے کی بات ہے کہ ہم چیٹ بوٹس کا ذکر کریں، جن کے بارے میں ایم آئی ٹی کی تحقیق نے بتایا ہے، وہ سیاسی امیدواروں کے اشتہارات سے بھی زیادہ قائل کرنے والے — اور غلط معلومات سے بھرپور ہوتے ہیں۔
اس سب کے باوجود کچھ امید کی کرنیں بھی موجود ہیں۔حال ہی میں مجھے ریاست کولوراڈو کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کی ویب سائٹ پر ایسی رہنمائی ملی جس میں ڈیپ فیکس کا حوالہ دیا گیا تھا۔ کم از کم یہ ریاست خطرہ تسلیم تو کر رہی اور تبدیلیاں لانے کے لیے جو کچھ کر سکتی ہے، کر رہی ہے۔
جھوٹی خبروں کے اثرات
حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا کی تیز رفتار ترقی نے بجا طور پر اس خدشے کو بڑھا دیا ہے کہ یہ پلیٹ فارم طب و صحت سے متعلق فیصلوں سے لے کر انتخابی نتائج تک ہر چیز کو متاثر کر سکتے ہیں اور ان کے ذریعے جھوٹی و غلط معلومات پھیلنے کا مستقل خطرہ موجود رہتا ہے۔ نمایاں مثالوں میں خسرہ، ممپس اور روبیلا (MMR) کی ویکسین لگوانے کی شرح میں وہ تیز کمی شامل ہے جو آٹزم سے مبینہ تعلق کی جھوٹی خبروں کے بعد دیکھی گئی۔ یہ واقعات بظاہر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جعلی وجھوٹی خبریں حقیقی دنیا میں ڈرامائی اثرات پیدا کر سکتی ہیں۔
ایسی رپورٹوں نے یہ عام نظریہ پیدا کیا کہ ’’جعلی و جھوٹی خبریں‘‘ محض ایک بار سامنے آنے سے بھی بڑے اور دیرپا اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک ملک کی آبادی کی سطح پر ہونے والے واقعات جیسے MMR ویکسینیشن میں کمی عموماً طویل المدت اور وسیع پیمانے پر چلنے والی مہمات سے جڑے ہوتے ہیں جہاں افراد وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائع سے آنے والی جھوٹی و غلط معلومات کا سامنا کرتے ہیں۔