پاکستان میں غیر محفوظ انتقالِ خون سے ایچ آئی وی پھیلنے کا انکشاف

15 فیصد مریض غیر محفوظ انتقالِ خون کے باعث اس وائرس کا شکار ہوئے، طبی ماہرین


دعا عباس December 27, 2025

کراچی:

طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ملک بھر میں ایچ آئی وی کے 15 فیصد مریض غیر محفوظ انتقالِ خون کے باعث اس وائرس کا شکار ہوئے جبکہ سفلس، ملیریا اور ڈینگی بھی خون کے ذریعے پھیل سکتے ہیں جس کے پیشِ نظر نیشنل بلڈ ٹرانسفیوژن پالیسی متعارف کروائی گئی ہے۔

نیشنل بلڈ ٹرانسفیوژن پالیسی کے تحت محفوظ انتقال خون کو یقینی بنانے کے لیے سی ایل آئی اے اور نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ کو لازمی قرار دیا گیا ہے، ڈاکٹرز کے مطابق اس نظام کو مؤثر بنانے میں سب سے بڑا چیلنج رضاکارانہ خون عطیہ کرنے کے رجحان کی کمی ہے۔

اس حوالے سے آغا خان یونیورسٹی اسپتال (اے کے یو ایچ) کے سیکشن آف ہیماٹولوجی اینڈ ٹرانسفیوژن میڈیسن کی سربراہ اور پاکستان سوسائٹی آف ہیماٹولوجی کی صدر پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ معیز نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ پاکستان کا بلڈ بینک سسٹم طویل عرصے تک فریگمینٹڈ رہا کیونکہ ملک میں مختلف معیار کے بلڈ بینکس کام کر رہے تھے۔ کچھ بلڈ بینکس بین الاقوامی معیار پر پورا اترتے تھے جبکہ کئی نچلی سطح پر کام کر رہے تھے۔ ماضی میں اگرچہ پالیسی موجود تھی اور اس میں کم از کم معیارات بھی طے کیے گئے تھے، تاہم اٹھارویں ترمیم کے بعد ہر صوبے میں بلڈ بینکنگ کے لیے علیحدہ ریگولیٹری اتھارٹیز قائم ہوئیں۔

ڈاکٹر بشریٰ معیز کے مطابق سندھ میں سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی (SBTA) کا قیام عمل میں آیا، جس کا بنیادی مقصد بلڈ بینکنگ میں فریگمینٹیشن کا خاتمہ اور ریجنل بلڈ سینٹرز کا قیام تھا، یہ ماڈل بڑی حد تک کامیاب رہا اور ملک بھر میں 18 ریجنل بلڈ سینٹرز قائم کیے گئے۔ ان کے قیام کے نتیجے میں آئی ٹی ٹیکنالوجی، اسکریننگ کے نظام اور دیگر معیار میں نمایاں بہتری آئی۔ یہ ریجنل بلڈ سینٹرز اسپتالوں سے منسلک تھے اور مریضوں کو مفت اور محفوظ خون فراہم کر رہے تھے۔ یہ اصلاحاتی دور 2014 سے 2020 تک جاری رہا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اب 2030 تک کے لیے قومی بلڈ ٹرانسفیوژن پالیسی تیار کی گئی ہے جس میں مجموعی طور پر 15 اہداف شامل ہیں۔ اگر ان اہداف کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو ان کے تین بنیادی ستون ہیں جس میں گورننس اور اسٹراکچر، مریضوں کی حفاظت اور نظام کی پائیداری (سسٹینیبلٹی) شامل ہے، نئی پالیسی کے تحت بلڈ اور بلڈ پروڈکٹس، جن میں پلازما سے تیار کی جانے والی مصنوعات شامل ہیں، کو اب ڈرگ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلڈ بینکس کو اب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ساتھ شراکت داری میں ریگولیٹ کیا جائے گا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ پلازما سے حاصل ہونے والی مصنوعات میں البومن، کلاٹنگ فیکٹرز، امیونوگلوبلنز، اینٹی ٹیٹنس اور اینٹی ریبیز امیونوگلوبلن شامل ہیں۔ ان کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معیارات کے تحت بھی بلڈ اور بلڈ پروڈکٹس کو ڈرگ کے طور پر ہی ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور پاکستان کی نئی پالیسی بھی انہی عالمی اصولوں سے ہم آہنگ ہے، مریضوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے نئی قومی پالیسی میں پہلی بار بلڈ اسکریننگ کے طریقہ کار کو واضح اور معیاری بنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر بشریٰ معیز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت بلڈ اسکریننگ کے دوران پانچ بیماریوں کی جانچ کی جاتی ہے جن میں ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی، سفلس اور ملیریا شامل ہیں۔ نئی پالیسی کے تحت اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ملک بھر میں اسکریننگ کے لیے اسٹینڈرڈائزڈ انٹرنیشنل لیول کی میتھاڈولوجی اپنائی جائے، جسے سی ایل آئی اے (CLIA) کہا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں زیادہ تر بلڈ بینکس کِٹ بیسڈ یا ریپڈ ٹیسٹنگ پر انحصار کرتے تھے جس کے نتیجے میں بعض اوقات ہیپاٹائٹس بی اور سی جیسے وائرس تشخیص سے رہ جاتے تھے اور آگے پھیلنے کا خطرہ موجود رہتا تھا۔ نئی پالیسی کے تحت تمام بلڈ بینکس کو سی ایل آئی اے بیسڈ ٹیسٹنگ کا پابند بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو پی سی آر بیسڈ طریقہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض اوقات وائرس اتنی کم مقدار میں موجود ہوتا ہے کہ سیرولوجی ٹیسٹس میں ظاہر نہیں ہوتا مگر وہ انتقالِ خون کے ذریعے انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے، ایسے کیسز کی نشاندہی نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ سے ممکن ہوگی۔ اس پالیسی کے ذریعے مریض سے لے کر ڈونر تک مکمل ٹریسنگ ممکن ہو سکے گی۔ یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ کس ڈونر نے کب اور کہاں خون عطیہ کیا، وہ خون کس بلڈ بینک کے ذریعے کس اسپتال اور کس مریض کو منتقل ہوا۔ اگر کسی مریض میں بعد ازاں وائرس منتقل ہونے کی تصدیق ہو جائے تو انٹرنیشنل سوسائٹی آف بلڈ ٹرانسفیوژن کے ٹریکنگ سسٹم کے ذریعے اس ڈونر کو دنیا کے کسی بھی حصے میں ٹریس کیا جا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی ڈونر سے ہیپاٹائٹس یا کوئی اور انفیکشن منتقل ہوا ہو تو مستقبل میں وہ مزید کسی کو خون عطیہ نہ کر سکے۔ اس طرح بلڈ بینکس کے پاس واضح ڈیٹا ہوگا کہ کون سا ڈونر ہیپاٹائٹس سی یا دیگر بیماریوں کا کیریئر ہے اور اس سے خون نہیں لیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ 2022 میں ریجنل بلڈ سینٹرز کے ڈیٹا کے مطابق شمالی پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے کیسز زیادہ پائے گئے، جبکہ اندرونِ سندھ میں ہیپاٹائٹس سی کی شرح 8 سے 9 فیصد تک رپورٹ ہوئی۔ کراچی میں ہیپاٹائٹس بی کی شرح تقریباً 5 فیصد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ کے علاقوں میں ہیپاٹائٹس سی کے کیسز زیادہ ہیں، جبکہ پشاور اور اسلام آباد میں بھی ہیپاٹائٹس بی کے کیسز سامنے آ رہے ہیں، سندھ ہیپاٹائٹس سی کا ہاٹ اسپاٹ بنتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پالیسی میں پہلی بار تھیلیسیمیا کے بچوں پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ چونکہ تھیلیسیمیا کا علاج مہنگا ہے، اس لیے پالیسی میں علاج کے بجائے بچاؤ اور روک تھام پر زور دیا گیا ہے۔

انفیکشن ڈیزیز کے ماہر پروفیسر سید فیصل محمود کا کہنا ہے کہ خون کے ذریعے منتقل ہونے والی بیماریوں میں ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی اور سی شامل ہیں، جبکہ اس کے علاوہ سفلس، ملیریا اور ڈینگی بھی خون کے ذریعے پھیل سکتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی کا علاج ممکن ہے تاہم ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس بی کا مکمل علاج تاحال دستیاب نہیں، یہ وائرس طویل عرصے تک یا زندگی بھر انسان کے جسم میں موجود رہ سکتے ہیں۔

پروفیسر فیصل محمود کے مطابق اگر خون انفیکٹڈ ہو تو اس کے ذریعے بیماری سو فیصد دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتی ہے، اسی لیے بلڈ ٹرانسفیوژن سے قبل اسکریننگ اور ٹیسٹنگ نہایت ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ غیر محفوظ انتقال خون وہ ہے جو معیاری اسکریننگ اور حفاظتی طریقہ کار کے بغیر مریضوں کو لگایا جائے، جس سے خون کے ذریعے منتقل ہونے والی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی اسپتال (اے کے یو ایچ) میں کیے گئے سروے میں ملک بھر کے 15 فیصد ایچ آئی وی مریضوں نے انکشاف کیا کہ انہیں غیر محفوظ انتقالِ خون کے باعث ایچ آئی وی منتقل ہوا۔  اُن کے بقول 15 فیصد بظاہر ایک چھوٹا عدد لگتا ہے، لیکن جدید دور میں یہ شرح صفر ہونی چاہیے۔ اگر ایک فرد کو بھی غیر محفوظ بلڈ ٹرانسفیوژن سے ایچ آئی وی ہو جائے تو یہ ہمارے معاشرے کے لیے باعثِ شرمندگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں میں بلڈ بورن انفیکشنز کی منتقلی صرف خون کی منتقلی تک محدود نہیں بلکہ استعمال شدہ سرنجوں اور جراحی آلات کے ذریعے بھی یہ بیماریاں پھیلتی ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پاؤڈر کی شکل میں موجود انجیکشن کے لیے سرنج کا پانی ایک ہی بڑی بوتل یا تھیلی سے بار بار نکالا جاتا ہے، اگر اس دوران جراثیم شامل ہو جائیں تو وہ متعدد افراد میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ یہ عمل خاص طور پر بچوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے، تاہم بزرگ اور خواتین بھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

پروفیسر فیصل محمود کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی کے رپورٹ ہونے والے کیسز اصل تعداد کے مقابلے میں کم ہیں، جبکہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہے، جس کے باعث پاکستان ہیپاٹائٹس سی کے حوالے سے دنیا میں سرِفہرست ممالک میں شامل ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ایچ آئی وی کے علاج کے لیے مؤثر ادویات موجود ہیں، جن کے باقاعدہ استعمال سے مریض نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ جو مریض علاج پر ہوتے ہیں وہ وائرس کو دوسرے افراد میں منتقل نہیں کرتے۔ ایچ آئی وی کے مریض اکثر معاشرتی منفی رویوں کے خوف سے اپنی بیماری چھپاتے ہیں حالانکہ یہ کسی کو بھی ہو سکتی ہے کیونکہ دانتوں کے علاج، سرنج کے استعمال اور دیگر طبی اقدامات سے ہر فرد گزرتا ہے۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ بعض اوقات معالج کی جانب سے ایچ آئی وی کی ٹیسٹنگ پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ سندھ میں انفیکشن کنٹرول کے حوالے سے ہزاروں افراد کو تربیت دی جا چکی ہے، جو آگے مزید لوگوں کو ٹرین کر رہے ہیں، تاہم ملک بھر کے طبی مراکز میں انفیکشن کنٹرول کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ ایک مہنگا عمل سمجھا جاتا ہے۔

نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام سروے کے مطابق منشیات کے عادی افراد میں 30 سے 50 فیصد، ٹرانس جینڈر افراد میں 7 فیصد، ہم جنس پرستوں میں 5 فیصد جبکہ فیمیل سیکس ورکرز میں 2 فیصد افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب یہ مخصوص آبادیوں تک محدود نہیں۔

مقبول خبریں