بھارتی فوج نے اپنے اہلکاروں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق ایک نئی اور سخت پالیسی جاری کر دی ہے، جس کے تحت فوجی اہلکار انسٹاگرام، فیس بک، ایکس (ٹوئٹر) اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تبصرہ، لائیک یا مواد شیئر نہیں کر سکیں گے۔
بی بی سی کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے جاری کی گئی اس پالیسی کا مقصد بظاہر سیکیورٹی خدشات کو کم کرنا بتایا جا رہا ہے، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے پس منظر میں دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں۔
بھارت میں فوجی اداروں اور سوشل میڈیا کے درمیان کشیدگی کوئی نیا معاملہ نہیں۔ حالیہ مہینوں میں سوشل میڈیا پر بھارتی فوجی اہلکاروں اور سابق افسران کی جانب سے مودی حکومت اور عسکری قیادت پر تنقید میں اضافہ دیکھا گیا، جس کے بعد سوشل میڈیا پر کنٹرول مزید سخت کر دیا گیا ہے۔
مبصرین کے مطابق بھارتی فوج میں بڑھتی بے چینی، حکومتی پالیسیوں پر اندرونی اختلافات اور فوج کو نظریاتی طور پر ہندوتوا اثر میں لانے کے خدشات اس فیصلے کی بڑی وجوہات سمجھی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھارتی آرمی چیف کی مذہبی سرگرمیوں کی تشہیر پر بھی کڑی تنقید سامنے آئی تھی۔
حالیہ دنوں ایک عیسائی فوجی اہلکار سیموئیل کمالیسن کے کورٹ مارشل کا معاملہ بھی سوشل میڈیا پر زیرِ بحث رہا، جس سے فوج میں مذہبی آزادی سے متعلق سوالات اٹھے۔ اس کے علاوہ بہار میں فوجی وردیاں پہن کر حکومت مخالف نعروں کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں۔
سوشل میڈیا پر بھارتی فوجیوں کی خودکشیوں، کمزور مورال، مبینہ ہراسانی کے واقعات اور غیر اخلاقی سرگرمیوں پر عوامی ردعمل نے بھی عسکری قیادت کو دباؤ میں رکھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی کا مقصد صرف سیکیورٹی خدشات نہیں بلکہ فوج کے اندر بڑھتی ہوئی تنقید، خودنمائی، ہنی ٹریپنگ کے خدشات اور قیادت پر سوالات کو کنٹرول کرنا بھی ہے۔ یہ اقدامات بھارت میں سول ملٹری تعلقات اور فوج کے غیر جانبدار کردار پر ایک نئی بحث کو جنم دے رہے ہیں۔