اسلام آباد:
پاکستان کی گلیوں، بازاروں اور محلوں میں شام ڈھلتے ہی جو معاشی سرگرمی عروج پر ہوتی ہے، وہ ملک کی غیر رسمی ریٹیل معیشت کی اصل تصویر پیش کرتی ہے،کریانہ اسٹورز، ریڑھی بان،گھریلوکاروبار،چھوٹے تھوک فروش اور اسٹریٹ وینڈرز روزمرہ ضروریات کی فراہمی میں کلیدی کردار اداکرتے ہیں، مگر یہ وسیع شعبہ اب بھی بڑی حد تک دستاویزات سے باہر ہے۔
مختلف مطالعات کے مطابق پاکستان کی غیر رسمی معیشت مجموعی قومی پیداوارکا تقریباً 35 سے 40 فیصدحصہ ہے،جبکہ تھوک اور پرچون تجارت اس کامرکزی ستون سمجھی جاتی ہے۔
غیر زرعی شعبے میں تقریباً 70 فیصد افرادغیر رسمی طور پر روزگار حاصل کرتے ہیں، جو اس شعبے کی اہمیت اور دستاویز بندی کے بڑے چیلنج کوواضح کرتا ہے۔
یہ غیر رسمی ریٹیل نیٹ ورک کم لاگت پر آخری صارف تک اشیا پہنچاتا ہے، محدود آمدن والے طبقے کوادھارسہولت دیتا ہے اورمعاشی دباؤکے ادوار میں تیزی سے خود کوڈھالتا ہے، تاہم نقد لین دین اور غیر دستاویزی طریقہ کارکے باعث دکاندار جدیدڈ یجیٹل نظام، باضابطہ قرضوں اور مالی سہولیات سے محروم رہتے ہیں،جس سے پیداواری صلاحیت جمود کا شکار رہتی ہے۔
ریاست کیلیے صورتحال کانتیجہ کم ٹیکس وصولی کی صورت میں نکلتاہے، پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب حالیہ بہتری کے باوجود اب بھی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔
ماہرین کے مطابق ریٹیل سیکٹرکی دستاویز بندی کے بغیر ٹیکس نیٹ میں خاطر خواہ توسیع ممکن نہیں۔ پالیسی ماہرین اس بات پر زوردیتے ہیں کہ رسمی نظام میں لانے کاعمل سزا کے بجائے سہولت پر مبنی ہونا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق مرحلہ وار حکمتِ عملی زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہے، بڑے ریٹیلرز کیلیے مکمل ڈیجیٹل انوائسنگ، درمیانے درجے کے دکانداروں کیلیے سادہ نظام اور چھوٹے فروشوں کیلیے کیو آر ادائیگی اورکم شرح ٹیکس،اس سے نہ صرف ٹیکس وصولی بڑھے گی، بلکہ روزگار، پیداواری صلاحیت اور پالیسی سازی کیلیے بہتر ڈیٹا بھی دستیاب ہوگا۔
ماہرین کے مطابق درست نفاذاور اعتمادسازی کے ذریعے پاکستان کی یہی غیررسمی ریٹیل معیشت گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔