بھارتی اسپانسر دہشت گردی

برصغیر کی تقسیم کے بعد سے ہی پاکستان اور بھارت کے تعلقات اعتماد کی شدید کمی کا شکار رہے ہیں۔


ایڈیٹوریل December 31, 2025

سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے علاقے خار میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر آپریشن کیا جس میں بھارتی اسپانسرڈ 5 خوارج ہلاک جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے میجر شہید ہوگئے۔ ہلاک خوارج کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔

 بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور خطے میں استحکام کا ضامن قرار دیتا ہے، مگر عملی سطح پر اس کے بعض اقدامات اور پالیسی رجحانات اس دعوے سے متصادم دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے، اندرونی خلفشار کو ہوا دینے اور ریاست مخالف عناصر کی پشت پناہی کے الزامات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں جنھیں نظر انداز کرنا حقیقت سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد سے ہی پاکستان اور بھارت کے تعلقات اعتماد کی شدید کمی کا شکار رہے ہیں۔ اس تناظر میں خفیہ جنگیں، پراکسیز کا استعمال اور ایک دوسرے کو کمزورکرنے کی کوششیں دونوں ممالک کے تعلقات کا تلخ باب رہی ہیں۔ تاہم گزشتہ دو دہائیوں میں خطے کی جغرافیائی سیاست میں جو تبدیلیاں آئی ہیں، ان کے نتیجے میں بھارتی حکمت عملی زیادہ جارحانہ اور کثیر جہتی ہوتی چلی گئی ہے۔ بھارت نے نہ صرف سفارتی اور معاشی محاذ پر پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کی بلکہ سلامتی کے دائرے میں بھی ایسے اقدامات کیے جن پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کے پس منظر میں بھارتی خفیہ نیٹ ورکس، مالی معاونت، تربیتی سہولتوں اور نظریاتی سرپرستی کے شواہد پیش کیے جاتے رہے ہیں، جن میں گرفتار ہونے والے بعض نیٹ ورک ارکان کے اعترافات، ضبط شدہ دستاویزات اور بین الاقوامی فورمز پر جمع کرائے گئے ڈوزیئرز شامل ہیں۔

بھارتی ریاستی اداروں کی جانب سے اس نوعیت کی سرگرمیوں کی تردید ایک متوقع امر ہے، مگر بین الاقوامی تعلقات میں صرف تردید کافی نہیں ہوتی بلکہ ریاستوں کے طرزعمل، پالیسی دستاویزات اور عملی اقدامات ہی اصل پیمانہ سمجھے جاتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے ہمسایہ ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے غیر روایتی ہتھکنڈوں کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ سرد جنگ کے دور میں بڑی طاقتیں جس طرح پراکسی جنگوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتی تھیں، آج وہی حکمت عملی علاقائی طاقتیں محدود پیمانے پر اپنا رہی ہیں۔

بھارت کے لیے پاکستان ایک ایسا ہمسایہ ہے جو نہ صرف جغرافیائی طور پر اہم ہے بلکہ نظریاتی، سیاسی اور عسکری سطح پر بھی ایک مستقل چیلنج سمجھا جاتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت پاکستان کو اندرونی طور پرکمزورکرنے کی حکمت عملی اپنانا بھارتی پالیسی سازوں کے لیے ایک پرکشش آپشن بن گیا۔دہشت گردی کی سرپرستی ہمیشہ براہ راست عسکری مدد کی صورت میں نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں مالی معاونت، نظریاتی بیانیہ سازی، میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا، سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا استعمال، اور مقامی ناراض عناصر کو منظم کرنا شامل ہوتا ہے۔

بھارت نے پاکستان کے بعض حساس علاقوں میں موجود سماجی محرومیوں، معاشی مسائل اور سیاسی شکایات کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ جب کسی علاقے میں ریاستی موجودگی کمزور ہو، عوامی اعتماد متزلزل ہو اور ترقی کے ثمرات نچلی سطح تک نہ پہنچیں تو بیرونی قوتوں کے لیے وہاں مداخلت کے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔ بھارتی حکمت عملی کا ایک پہلو یہی بتایا جاتا ہے کہ ایسے خلا کو شناخت کر کے مقامی سہولت کاروں کے ذریعے عدم استحکام کو ہوا دی جائے۔

مقامی سہولت کاروں کا کردار اس پورے معاملے میں نہایت اہم اور افسوسناک ہے۔ کوئی بھی بیرونی طاقت اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتی جب تک اسے اندر سے مدد نہ ملے۔ یہ سہولت کار مختلف شکلوں میں سامنے آتے ہیں، کہیں وہ نظریاتی اختلافات کے نام پر ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں، کہیں ذاتی مفادات، مالی لالچ یا اقتدار کی خواہش انھیں بیرونی ایجنڈوں کا حصہ بنا دیتی ہے اورکہیں محرومی کا احساس انھیں اس راستے پر ڈال دیتا ہے جہاں وہ انجانے میں یا دانستہ طور پر دشمن کے مہرے بن جاتے ہیں۔ ان عناصر کی نشاندہی اور سدباب کسی ایک ادارے کی ذمے داری نہیں بلکہ پورے ریاستی اور سماجی نظام کا مشترکہ فریضہ ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ نے یہ ثابت کیا ہے کہ عسکری کارروائیاں اگرچہ ناگزیر ہوتی ہیں، مگر اصل کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب فکری، سیاسی اور معاشی محاذ پر بھی ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

بھارتی اسپانسر دہشت گردی کے بیانیے کو اگر محض الزام تراشی تک محدود رکھا جائے تو اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ اس کے برعکس ایک جامع قومی حکمت عملی درکار ہے جس میں شفاف گورننس، انصاف کی فراہمی، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور عوامی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ جب ریاست اپنے شہریوں کو یہ احساس دلاتی ہے کہ ان کے مسائل سنے جا رہے ہیں اور ان کے حقوق محفوظ ہیں تو بیرونی مداخلت کے امکانات خود بخود کم ہو جاتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر بھی اس مسئلے کو مؤثر انداز میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی دنیا میں بیانیہ جنگ کی اہمیت کسی عسکری تصادم سے کم نہیں۔ عالمی برادری کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر خطے میں عدم استحکام بڑھتا ہے تو اس کے اثرات سرحدوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی امن و سلامتی بھی متاثر ہوگی۔بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری سخت گیر پالیسیاں بھی اس پورے منظر نامے سے الگ نہیں کی جا سکتیں۔

وہاں انسانی حقوق کی پامالی، سیاسی آوازوں کا کچلا جانا اور آبادیاتی تبدیلیوں کی کوششیں ایک ایسے دباؤ کا ماحول پیدا کرتی ہیں جس کا ردعمل مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کر کے اپنی داخلی پالیسیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش بھی بھارتی حکمت عملی کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔

تاہم سچ یہ ہے کہ دہشت گردی ایک لعنت ہے جس نے سب سے زیادہ نقصان خود پاکستان کو پہنچایا ہے اور اسی بنیاد پر پاکستان کا مؤقف زیادہ اخلاقی وزن رکھتا ہے، بشرطیکہ اسے مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔مقامی سہولت کاروں کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم خود احتسابی سے کام لیں۔ ہر ناکامی کا ذمے بیرونی ہاتھ پر ڈال دینا ایک آسان مگر نقصان دہ روش ہے، اگر ہمارے تعلیمی نظام میں تنقیدی سوچ کی کمی ہے، اگر نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہیں، اگر سیاسی عمل پر عوام کا اعتماد کمزور ہے تو یہ سب عوامل کسی نہ کسی سطح پر بیرونی مداخلت کے لیے زمین ہموار کرتے ہیں۔

اس لیے قومی سلامتی کا تصور صرف سرحدوں کے دفاع تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ انسانی سلامتی، معاشی استحکام اور سماجی ہم آہنگی کو بھی اس کا لازمی جزو سمجھا جانا چاہیے۔میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کا کردار بھی اس ضمن میں نہایت اہم ہے۔ ذمے دار صحافت نہ صرف حقائق کو سامنے لاتی ہے بلکہ افواہوں، مبالغہ آرائی اور نفرت انگیز بیانیے کے پھیلاؤ کو بھی روکتی ہے۔

بدقسمتی سے بعض اوقات سنسنی خیزی اور ویوز کی دوڑ میں ایسے بیانیے کو فروغ ملتا ہے جو بالواسطہ طور پر دشمن کے مقاصد کو تقویت دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا قومی مفاد، پیشہ ورانہ دیانت اور ذمے داری کے تقاضوں کو پیش نظر رکھے اور عوام کو حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرے۔ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی بھی بھارتی اسپانسر دہشت گردی کے مقابلے میں ایک کلیدی عنصر ہے، اگر پالیسی سازی میں تضاد ہو، ادارے ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا شکار ہوں اور فیصلوں میں تسلسل نہ ہو تو اس کا فائدہ مخالف قوتیں اٹھاتی ہیں۔

ایک واضح، مستقل اور طویل المدتی حکمت عملی ہی اس چیلنج سے نمٹنے کا مؤثر ذریعہ ہو سکتی ہے۔ اس حکمت عملی میں داخلی اصلاحات، علاقائی تعاون اور عالمی سفارت کاری تینوں کو یکساں اہمیت دینا ہوگی۔آخرکار یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ دہشت گردی اور اس کی سرپرستی ایک ایسا مسئلہ ہے جو صرف کسی ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اسی وقت ممکن ہے جب ریاستیں پراکسی جنگوں سے دستبردار ہوں، اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں اور عوامی فلاح کو اولین ترجیح بنائیں۔

بھارت اگر واقعی خطے میں قائدانہ کردار چاہتا ہے تو اسے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی، جب کہ پاکستان کو بھی اندرونی استحکام، شفافیت اور انصاف کے ذریعے اپنے موقف کو مضبوط بنانا ہوگا۔ مقامی سہولت کاروں کے خلاف مؤثر کارروائی، عوامی اعتماد کی بحالی اور بین الاقوامی سطح پر متوازن سفارت کاری ہی وہ راستہ ہے جو اس پیچیدہ مسئلے کے حل کی جانب لے جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر الزام تراشی، بداعتمادی اور خفیہ جنگوں کا یہ سلسلہ نہ ختم ہونے والا دائرہ بن جائے گا جس کا خمیازہ خطے کے عوام کو نسل در نسل بھگتنا پڑے گا۔

مقبول خبریں