کراچی، کل اور آج

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 1 ستمبر 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

ایک زمانہ تھا کہ جب کراچی روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ دیگر شہروں کے لوگ کراچی دیکھنے کی تمنا رکھتے تھے، یہاں کی عمارتوں، روشنیوں کے نظام، تعلیمی معیار اور شہریوں کے سوک سینس کی تعریف کی جاتی تھی۔ یہاں کے بازاروں، سڑکوں اور عوامی مقامات پر غیر ملکی بڑی تعداد میں بلاخوف و خطر آزادانہ گھومتے پھرتے نظر آتے تھے۔

راقم صبح اسکول جاتے ہوئے دیکھا کرتا تھا کہ بس اسٹاپ پر مسافروں کی قطار لگی ہوتی تھی۔ بس آکر اسٹاپ پر رکتی تو لوگ بڑے منظم انداز سے بس میں سوار ہوتے تھے۔ رش کے اوقات میں دو قطاریں بھی لگا کرتی تھیں، ایک بیٹھ کر سفر کرنے والوں کی اور دوسری کھڑے ہوکر سفر کرنے والوں کی جو جلدی جانے کے متمنی ہوتے تھے۔

بس آنے پر پہلے بیٹھنے والوں کی قطار چلتی تھی اگر بس کی نشستیں بھر جاتیں تو بیٹھنے والوں کی قطار رک جاتی تھی اور اگر اس قطار کے کچھ لوگ بس کے اندر پہنچ چکے ہوتے تھے تو ایمانداری سے واپس نیچے آکر اپنی قطار میں کھڑے ہوجاتے تھے پھر کھڑے ہوکر سفر کرنے والوں کی قطار شروع ہوتی تھی آج کبھی وہ منظر یاد آتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے اپنی دماغی صحت پر شک گزرنے لگتا ہے کہ کیا واقعی کراچی کے شہریوں میں کبھی ایسا مثالی نظم و ضبط بھی تھا۔

آج کا کراچی بدامنی، قتل و غارت گری، مذہبی، لسانی اور سیاسی تقسیم کا شکار اور مختلف قسم کی مافیاؤں کے نرغے میں پھنسا ہوا ہے۔ اہل کراچی کو پہلے جو سہولتیں حاصل تھیں ان سے بھی ایک ایک کرکے محروم کردیا گیا ہے یا کیا جارہا ہے، تمام حکومتی اور شہری ادارے مفلوج اور ناکارہ ہوکر رہ گئے ہیں، شہریوں کے مسائل اور فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔

ایک وقت تھا کہ تمام جدید سہولتیں نہ سہی لیکن پھر بھی عام شہری کو بنیادی قسم کی سہولیات حاصل تھیں، ان کی شکایات بھی سنی اور ان پر کارروائی عمل میں لائی جاتی تھی، ادارے بہت مستعد و فعال نہ سہی لیکن ان کی کارکردگی تسلی بخش ضرور تھی، اگر نچلی سطح پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی تو حکام بالا کو درخواست دینے پر کارروائی ضرور عمل میں آجاتی تھی۔ ایک ڈاکیا سے لے کر کسی انجینئر تک کے خلاف شکایت کردی جاتی یا اخبار میں کوئی مراسلہ، خبر، مضمون یا اداریہ چھپ جاتا تو دوڑیں لگ جاتیں اور کھلبلی مچ جایا کرتی تھی، نوکری پر بات آجاتی تھی۔

تین عشرے قبل تک پبلک اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کی فراوانی تھی، شہر میں سرکلر ریلوے کا نظام تھا، اس سے قبل ٹرامیں بھی چلا کرتی تھیں، تمام ٹرانسپورٹ میں تمام اوقات میں طلبا کو رعایتی سفر کی سہولیات حاصل ہوتی تھیں، ان کے علاوہ اسٹیل ملز، پی آئی اے، پورٹ قاسم، یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں کی گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں ہوا کرتی تھیں جو اب ختم یا بہت کم ہوچکی ہیں۔

آج کے کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا، ٹینکر مافیا، لینڈ و کچی آبادی مافیا، ڈرگ مافیا، پارکنگ مافیا، بھیک اور تجاوزات مافیا منظم و متحرک نظر آتی ہیں۔ شہری، شہری اور حکومتی ادارے ان کے سامنے بے بس و بے دست و پا نظر آتے ہیں۔ ڈاکوؤں، بھتہ گیروں، اغوا کاروں، لٹیروں، ذخیرہ اندوزوں کا راج ہے، قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔ حق حلال کے کاروبار اور کسب حلال کمانے کے موقع بند ہوتے جا رہے ہیں۔ شہری گاڑی، املاک یا دیگر قیمتی اشیا خرید وفروخت کرتے وقت خوف و پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ نائی اور مٹھائی کی دکانوں سے لے کر اسکولوں، بیوٹی پارلرز اور عبادت گاہوں تک پرائیویٹ سیکیورٹی کے پہرے ہیں۔

محکمہ پولیس کی ناقص کارکردگی جس کی کئی وجوہات ہیں، پولیس اہلکار شدید دباؤ کا شکار ہیں، سیکڑوں کی تعداد میں قتل کیے جا چکے ہیں۔ عام طور پر ان تمام واقعات میں کسی نہ کسی طرح سیاستدانوں، ارباب اقتدار و اختیار کی آشیرباد، پشت پناہی یا مجرمانہ غفلت کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔ جب ایک شہری ادارہ پانی کی کمی کا رونا رو کر شہریوں کو پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم کردیتا ہے تو ٹینکر مافیا کے پاس اتنی وافر مقدار میں پانی کہاں سے اور کس طرح آجاتا ہے، وہ سڑکوں پر دندناتے پھرتے اور گلی گلی منہ مانگے داموں پانی فروخت کرتے ہیں۔

شہر سے پبلک ٹرانسپورٹ کہاں اور کس کی غفلت سے غائب ہوگئی، شہر کو چنگ چی زدہ کرنے میں کس کا ہاتھ ہے، ڈبل سواری پر بار بار اور بلاجواز پابندی عائد کرکے ٹرانسپورٹ مافیا کو نوازنے، شہریوں کو اذیت میں مبتلا کرنے میں کس کا ہاتھ ہے۔ لینڈ مافیا کے قبضے، گھپلے اور راتوں رات کچی آبادیاں متعلقہ محکموں اور ارباب اختیار کی نظروں سے کیوں اوجھل رہتی ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ قائم غیر قانونی کار پارکنگ سے وہ کیسے لاعلم رہتے ہیں جہاں دن میں کئی کئی مرتبہ وہ خود اور ان کے اہل خانہ گاڑیاں پارک کرتے ہیں۔

منظم پیشہ ور سیاسی اور غیر سیاسی گروہ اور سماج دشمن عناصر کی کارستانیوں کے تدارک کے لیے حکومت یا سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ٹھوس جامع حکمت عملی ایجنڈا کیوں نہیں ہے۔ محض فوجی آپریشن، رینجرز کو پولیس کے اختیارات دے کر، دفعہ 144 یا ڈبل سواری پر پابندی جیسے اقدامات شہریوں کو کوئی سہولت دینے کے بجائے ان کے لیے مصائب و پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ یہاں کے شہری انوسٹمنٹ کمپنیوں کے ہاتھوں بھی لٹے ہیں اور رئیل اسٹیٹ اسکیموں اور پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کے فریب اور دھوکے سے کھلے عام شہریوں کی دولت لوٹتے رہے ہیں۔

سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن محض عوامی انتباہ کے اشتہارات دے کر سکون سے بیٹھ جاتے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرتے وقت احتیاط سے کام لیں، کچھ کمپنیاں اور ادارے دھوکے بازی کا ارتکاب کرتے ہوئے سرمایہ کاروں کو رقم سے محروم کر دیتے ہیں جو سرکاری اداروں کی منظوری و اجازت تشہیر کرتی ہیں، یہ بیرون ممالک میں بھی جائیداد کی فروخت کے جھوٹے اشتہارات دیتے ہیں۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی شہریوں کو اشتہارات کے ذریعے یہ اطلاع دے کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوجاتی ہے کہ شہری کسی پروجیکٹ میں بکنگ کروانے سے پہلے اتھارٹی سے تصدیق کرلیں کہ وہ منظورشدہ ہے کہ نہیں ہے اور بلڈرز سے معاہدہ اتھارٹی کے نمونہ (Format) کے مطابق ہو ورنہ کسی تنازعے یا فراڈ کی صورت میں اتھارٹی ذمے دار نہیں ہوگی۔ کے ڈی اے، ایچ ڈی اے، اینٹی انکروچمنٹ سیل، کنٹونمنٹ بورڈ کے ہوتے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں ناجائز آبادیاں اور غیر قانونی تعمیرات تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔

گزشتہ دنوں ایڈمنسٹریٹر کراچی نے خود تسلیم کیا ہے کہ شہر کے وسائل پر ٹینکر، لینڈ اور کچی آبادی مافیا کا قبضہ ہے، تجاوزات کے خاتمے کے دوران 2 افسر شہید کیے جاچکے ہیں، شہر کی آبادی میں دگنی شرح سے اضافہ ہورہا ہے، جس میں 3 فیصد اضافہ اندرون ملک سے آنے والوں کا ہے، آبادی کے تیز رفتار اضافے سے شہر کا انفرااسٹرکچر بری طرح متاثر ہو رہا ہے جب کہ بلدیہ کے وسائل میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہو رہا۔

انھوں نے کہا کہ K-4 منصوبے کے بغیر کراچی کے شہریوں کو پانی نہیں مل سکتا۔ اس کی تکمیل کے لیے 5 سال درکار ہوں گے اور شہری آبادی میں 6 فیصد سالانہ شرح اضافے کی وجہ سے 5 سال بعد پھر اتنے ہی پانی کی قلت ہوگی جتنی آج ہے لہٰذا کراچی کو خصوصی فنڈ ملنے چاہئیں تجاوزات اور کچی آبادیوں کو ہٹانے کے لیے بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے۔

کراچی شہر کے نصف کے قریب مسائل خالصتاً انتظامی نوعیت کے نظر آتے ہیں جنھیں اہل و دیانتدار قیادت، گڈ گورننس اور قانون کے موثر نفاذ سے حل کیا جاسکتا ہے جن کے لیے کوئی اضافی بجٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ باقی مسائل ہنگامی نوعیت کے اقدامات اور اضافی بجٹ کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔