بھارت اور چین میں سرمایہ کاری کے معاہدے

ایشیا میں چین اور بھارت مستقبل کی دو بڑی ابھرتی ہوئی اقتصادی قوتیں ہیں


Editorial September 19, 2014
ایشیا میں چین اور بھارت مستقبل کی دو بڑی ابھرتی ہوئی اقتصادی قوتیں ہیں. فوٹو: رائٹرز/فائل

TEHRAN: بھارت اور چین نے نئی دہلی میں 12 معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن میں سے ایک معاہدے کے تحت چین اگلے پانچ برسوں میں بھارت میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ سرمایہ کاری کے منصوبے میں چین بھارت کے پرانے ریلوے نظام کو تیز رفتار ٹرین سسٹم کے ساتھ جدید اور بہتر بنانے میں مدد کرے گا اور گجرات میں ایک صنعتی پارک بھی تعمیر کرے گا۔ چین اور بھارت کے درمیان تجارتی معاہدے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات میں ایک اہم پیشرفت ہیں۔

ایشیا میں چین اور بھارت مستقبل کی دو بڑی ابھرتی ہوئی اقتصادی قوتیں ہیں اور دونوں کو بخوبی ادراک ہے آنے والے وقت میں وہی ممالک ترقی کریں گے جو عالمی سطح پر اپنی معیشت کو زیادہ سے زیادہ وسعت دیں گے۔ چین بڑی تیزی سے عالمی مارکیٹ پر قبضہ کر رہا ہے اور بھارت بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا ۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات بھی موجود ہیں، چینی صدر ژی جی پنگ کے ساتھ ملاقات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سرحدی تنازعات کا مسئلہ ضرور اٹھایا مگر انھوں نے ان تنازعات کو تجارتی تعلقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔

چینی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ ترقی کے لیے سرحد پر امن بہت اہم ہے، چین بھارت کا اہم اقتصادی شراکت دار ہے لیکن دونوں ممالک خطے میں اثرورسوخ اور سرحد پر تنازعے میں الجھے رہتے ہیں۔ چینی صدر نے بھی بھارتی صدر کو مثبت جواب دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے سرحدی تنازعہ طے کرنے کا عزم کر رکھا ہے اس سلسلے میں باہمی اختلافات کا خاتمہ کرینگے۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ بہت پرانا ہے جب 1941 میں برطانیہ نے تبت کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت میک موہن لائن دونوں ملکوں کے درمیان عملی طور پر سرحد قرار دی گئی تھی لیکن چین اسے تسلیم نہیں کرتا۔ عالمی سطح پر خارجہ پالیسیاں تشکیل دیتے وقت تمام ممالک اپنے تجارتی مفادات کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں آج چین اور بھارت بھی اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے تجارتی مفادات کو اولین ترجیح دے رہے ہیں۔

بعض ماہرین کے مطابق چین کو امید ہے کہ بھارت آیندہ دس سے پندرہ سال میں 150 ارب ڈالر کے کنٹریکٹس دے گا۔ چینی صدر نے آیندہ پانچ سال میں جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ سالانہ باہمی تجارت 150بلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لیتے ہوئے اسے تجارتی بنیادوں پر تشکیل دینا ہو گا۔ جب چین اور بھارت سرحدی تنازعات کے باوجود تجارتی تعلقات کو زیادہ سے زیادہ وسعت دے سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔

افسوس ناک امر ہے کہ بھارتی وزیراعظم چین کے ساتھ تو دوستانہ اور تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے بے تاب ہے مگر پاکستان کے ساتھ سرحدی اور پانی کے تنازعات حل کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں۔بھارت جانے سے قبل چینی صدر نے پاکستان آنا تھا مگر پاکستان کے سیاسی حالات پیچیدہ ہونے کے باعث وہ یہاں نہ آ سکے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے چینی صدر کے جلد پاکستان آنے کی یقینی دہانی کرائی ہے۔ پاکستان ، بھارت اور چین مشترکہ پلیٹ فارم سے تجارتی تعلقات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں تو اس خطے میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔

مقبول خبریں