عالمی تنازعات؛ امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے میں رکاوٹ

محمد عاطف شیخ  اتوار 28 ستمبر 2014
بھارت کی اسلحہ خریداری میں 2004  سے 2013 تک 111 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔   فوٹو: فائل

بھارت کی اسلحہ خریداری میں 2004 سے 2013 تک 111 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ فوٹو: فائل

انسان اکیلا رہ نہیں سکتا اور اکٹھا رہتا ہے تو آپس میں جھگڑتا ہے۔ انسانی فطرت کا یہ انوکھا امتزاج دنیا میں تشدد کے فروغ اور امن کو تہہ وبالا کرنے میں ابتدا سے ہی کار فرما رہا ہے۔

ملکیت کا حصول اسے برقرار رکھنے کی کوشش اور اپنی برتری کے اظہار نے انسان کو ہمیشہ تشدد کی راہ دکھائی اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ معاشی، مذہبی، لسانی، تہذیبی اور سیاسی عوامل کی بنیاد پر ہونے والے تنازعات نے سرحدوں کے اندر اور سرحدوں کے باہر مسلح تصادم اور جنگوں کے بہت سے دلخراش واقعات رقم کئے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔امن کو سبوتاژ کرنے والا ہر انسانی رویہ اور عمل چاہے وہ سرحدوں کے اندر شورش برپا کرے یا سرحدوں کے باہر جارحیت کا باعث بنے ہمیشہ سے قابلِ مذمت اور قابلِ گرفت رہا ہے۔ اور ایسے ہر عمل کی فوری روک تھام اور تنازعات کے مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کے لئے دنیا بھر میں مختلف ادارے اور فورمز کی بنیاد ڈالی گئی جن میں لیگ آف نیشن اور اقوامِ متحدہ قابلِ ذکر ہیں۔

لیگ آف نیشن اپنے قیام کے مقاصد کے عدم حصول کے باعث اپنی موت آپ مرگئی جبکہ اقوامِ متحدہ (جس کے تحت ہر سال 21 ستمبر کو امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے ) بعض طویل عرصہ سے موجود تنازعات (مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین) کے حل میں ناکامی کے ساتھ ساتھ بعض تنازعات ( مشرقی تیمور، سوڈان) کے حل میں جانبدارانہ تیزی کے ساتھ دنیا میں امن کے قیام کے لئے سرگرم عمل ہے۔

دنیا میں موجودہ تنازعات کا حل منتج ہے امن پر۔ اس کی ایک بڑی واضح مثال سری لنکا میں تامل ٹائیگرز اور سرکاری افواج کے مابین سالہاسال سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ اور امن کا قیام ہے۔ دنیا میں سرد جنگ کے اختتام پر تنازعات اور تشدد کے واقعات میں کمی کی امید کی جا رہی تھی۔ لیکن 9/11 کے واقعہ نے دنیا کو ایک نئے چیلنج دہشت گردی سے متعارف کروادیا ہے۔ جس کی روک تھام کے سلسلے میں ہونے والے اقدامات (ردعمل ) نے دنیا کو پُر امن بنانے کی بجائے مزید بے امن کر دیا ہے۔ اور پاکستان، افغانستان اور عراق اس ردعمل ( دہشت گردی کے خاتمہ) کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔

امریکا کے نیشنل کائو نٹر ٹیرر ازم سینٹر کے اعداد وشمار کے مطابق 2005 سے 2011 تک دنیا بھر میں دہشت گردانہ کاروائیوںکے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا آدھے سے زائد حصہ عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہونے والی ہلاکتوں پر مشتمل تھا۔ 2005 میں دنیا بھر میں دہشت گردی کے باعث ہونے والی 64 فیصد ہلاکتیں ان تینوںممالک میں ہوئیں۔ 2006 میں یہ تناسب بڑھ کر 74 فیصد ہو گیا۔ 2007 میں اس تناسب میں مزید اضافہ ہوا اور یہ 77 فیصد تک جا پہنچا جبکہ 2008 میں یہ کم ہوکر 59 فیصد پر آگیا لیکن اُس کے بعد اس تناسب میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا گیا اور یہ 2011 تک 68 فیصد تک پہنچ گیا۔

دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ نے پاکستان کو دہشت گردی کے جس آسیب کا شکار بنایا ہے۔ اس عفریت نے 2003 میں 189 افراد کو لقمہ اجل بنایا جبکہ 2013 میں اس کے شکنجے میں4160 افراد آئے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسڈیز اسلام آباد کے ریسرچ پیپر ’’ امپیکٹ آف ٹیررازم آن پاکستان ‘‘ کے ان اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ عرصہ کے دوران پاکستان میں دہشت گردی سے وابستہ اموات میں 2101 فیصد اضافہ ہوا۔ ان اموات میں اضافہ کی بڑی وجہ امریکی ڈرون حملے اور افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے قریب بھارت کے بڑی تعداد میں قائم ہونے والے قونصل خانے ہیں جو پاکستان کے امن کو تہہ و بالا کرنے کا موجب بنے اور بن رہے ہیں۔

مستقبل کا یہ امکانی منظر نامہ قابلِ بحث ہو سکتا ہے۔ لیکن ماضی سے حال تک امن کے قیام اور اس کو تہہ و بالا کرنے کا سفر حقیقت کا حامل ہے۔ جو اس پہلو کو عیاں کر رہا ہے کہ ماضی کی طرح اس وقت بھی دنیا کے امن کو نقصان پہنچانے والے تنازعات موجود ہیں۔ جو 2013 کے دوران 20 جنگوں، 25 محدود جنگوں اور 176 تشدد پر منتج ہونے والے بحرانوں کی صورت میں ظہور پذیر ہوچکے ہیں۔

جرمنی کے Heidelberg انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل کانفلیکٹ ریسرچ کے جاری کردہ کانفلیکٹ بیرو میٹر 2013 کے یہ اعدادو شمار اور غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت، روس یو کرائن تنازعہ، شام، عراق اور پاکستان کی اندرونی سکیورٹی کی صورتحال، پاکستان بھارت سرحد پر بھارت کی اشتعال انگیزی پر مبنی جارحانہ اقدامات، پاکستان افغانستان سرحد پر افغانستان کی جانب سے غیر ریاستی عناصر کی دہشت گردانہ کاروائیاں، افریقہ کے مختلف ممالک میں خانہ جنگی، نسل کشی اور قتلِ عام کے واقعات وغیرہ پُر امن دنیا کے خواب کو چکنا چور کر رہے ہیں۔

اس تمام صورتحال میں ایک طرف جنگی طاقت میں اضافہ کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں تو دوسری طرف جارحیت کے خطرات کے دفاع کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اندرونی سکیورٹی بہتر کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ تو عسکریت پسند اپنے عزائم کو پورا کرنے کا سامان حاصل کرنے کی سعی بھی کر رہے ہیں۔ یہ تمام صورتحال اسلحہ کے زیادہ سے زیادہ حصول کے سلسلے میں اس کی دھڑا دھڑ خرید پر آکر ٹھہرتی ہے۔

عالمی امن پر کام کرنے والے بین الاقوامی تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری)کے مطابق2011 میں دنیا میں 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں ( چین کی کمپنیوں کے علاوہ) نے 410 ارب ڈالر مالیت کا بھاری اسلحہ فروخت کیا۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے ڈیپارٹمنٹ آف پبلک انفارمیشن کے مطابق دنیا میں ہر سال 04 ارب ڈالر مالیت کے ہلکے ہتھیار فروخت ہوتے ہیں۔ 410 ارب ڈالر مالیت سے زائد اسلحہ سازی کی یہ صنعت کیا دنیا میں تنازعات کوختم ہونے دے گی؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے کیونکہ جو ممالک دنیا میں اس وقت امن کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔

ان ہی ممالک کی اسلحہ ساز کمپنیاں دنیا بھر میں اسلحہ کی فروخت سے اپنے ممالک کو معاشی توانائی مہیا کر رہی ہیں۔  SIPRI کے اعداد و شمار اس پہلو کی پردہ کشائی یوں کرتے ہیں کہ 2008 سے 2012 تک دنیا میں فروخت ہونے والے اسلحہ کی کل مالیت کا 30 فیصد امریکی کمپنیوں نے کمایا جبکہ 26 فیصد اسلحہ کی عالمی کمائی روس کی کمپنیوں کے حصہ میں آئی۔ جرمنی نے اس عرصہ کے دوران اسلحہ کی فروخت سے دنیا کی تیسری بڑی مالیت حاصل کی جو عالمی فروخت کا 7 فیصد تھی۔

اس کے علاوہ فرانس، چین،برطانیہ، اسپین، اٹلی، یوکرائن اور اسرائیل یہ اُن دس ممالک کی فہرست ہے جنہوں نے 2008 سے 2012  کے دوران سلحہ کی فروخت کی عالمی مالیت کا مجموعی طور پر 87 فیصد حاصل کیا۔ ان ممالک میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے وہ تمام مستقل ارکان موجود ہیں جو دنیا میں قیام امن کے مقاصدکو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں جو ایک طرف امن کی بات کرتے ہیں تودوسری طرف امن کو برباد کرنے والے ہتھیاروں کی فروخت میں مصروف ہیں یعنی بغل میں چھری منہ میں رام رام۔ اسی طرح 2009 سے 2013 کے دوران امریکا، روس، جرمنی، چین اور فرانس ان پانچ بڑے اسلحہ بر آمد کنندگان نے عالمی مارکیٹ کا 74 فیصد حصہ کمایا۔

اسی سکیورٹی کونسل کی مستقل رکنیت کے حصول میں مصروف بھارت اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے اپنی جنگی قوت میں مسلسل اضافہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کی وجہ سے اُس نے 2008 سے 2012 کے دوران اسلحہ کی سب سے زیادہ مالیت کی خریداری کی جو دنیا میں فروخت ہونے والے اسلحہ کا 12 فیصد حصے پر مشتمل تھی۔ دوسری بڑی خریداری چین کی تھی جس نے مذکورہ عرصہ کے دوران 6 فیصد عالمی اسلحہ درآمد کیا۔ پاکستان عالمی سطح پر اسلحہ کی درآمد کے حوالے سے 5 فیصد حصہ کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان کی اس خریداری کی بنیادی طور پر دو بڑی وجوہات باعث بنیں۔

ایک تو ملک کی اندرونی سکیورٹی کو دہشت گردوں کی صورت میں درپیش چلینجز اور دوسری بھارت کا بڑھتا ہوا جنگی جنون ۔کیونکہ یہ امر روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت اسلحہ کے جو ڈھیر لگانے میں مصروف ہے اس کا پہلاہدف پاکستان دوسرا خطہ میں اپنی دھونس اور بالا دستی قائم کرنا اور تیسرا ہدف ایک بڑی فوجی قوت کی صورت میں ابھرنا ہے۔ بھارت کے یہ جارحانہ عزائم پاکستان کو اپنے اندرونی اور بیرونی دفاع کے لئے ہر ممکن انتظام کرنے کے حوالے سے چوکس کئے ہوئے ہیں۔

بھارت، چین اور پاکستان کے علاوہ 2008 سے 2012 کے دوران جن دیگر ممالک نے سب سے زیادہ مالیت کا اسلحہ خریدا ان میں بالترتیب جنوبی کوریا، سنگاپور، الجیریا، آسٹریلیا، امریکا، متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب شامل ہیں۔ ان 10 ممالک نے مجموعی طور پر مذکورہ عرصہ کے دوران عالمی سطح پر فروخت ہونے والے اسلحہ کا نصف حصہ درآمدکیا۔ اگر ہم 2009 سے 2013 کے دوران دنیا میں اسلحہ کے پانچ بڑے درآمد کنندگان کی فہرست پر نظر ڈالیں۔ تو بالترتیب بھارت، چین، پاکستان، متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب اس فہرست میں موجود ہیں ۔ ان پانچ ممالک نے مذکورہ عرصہ کے دوران عالمی سطح پر درآمد شدہ اسلحہ کا 32 فیصد حصہ (مالیت کے حوالے سے) حاصل کیا۔

بھارت کی اسلحہ خریداری میں 2004  سے 2013 تک 111 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اور اس عرصہ کے دوران بھارت نے عالمی سطح پر ہونے والی اسلحہ کی درآمدات کا 14 فیصد حاصل کیا جو پاکستان اور چین سے تقریباً تین گنا زائد ہے۔ یوں اس وقت بھارت دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ بھارت اپنے اسلحہ کی درآمدات کا 75 فیصد روس، 7 فیصد امریکا اور  6 فیصد اسرائیل سے حاصل کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان اپنے اسلحہ درآمد کا 54 فیصد چین اور  27 فیصد امریکا سے لیتا ہے۔ پاکستان کا 2004  سے  2008 اور 2009   سے 2013 کے عرصہ میں اسلحہ درآمدات میں119  فیصد اضافہ ہوا۔

دنیا میں اسلحہ کی تیاری اور حصول کا آخر کار نتیجہ انسانی ہلاکتوںاور انفاسٹرکچر کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 1989  سے اب تک دنیا میں 128  مسلح تصادم نے ہر سال کم ازکم اڑھائی لاکھ افراد کی جانیں لیں۔ جبکہ تنازعات سے مبرا علاقوںمیں ہتھیاروں کا استعمال ہر سال 3 لاکھ افراد کو موت کی آغوش میں سلا دیتا ہے۔ یہی ہتھیار تشدد کے واقعات میں استعمال ہوتے ہیں اور لوگوں کی اموات اور اُنھیں زخمی کرنے کا موجب بنتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار سے مرتب کردہ تشدد کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی عالمی درجہ بندی میں گوٹیمالہ سرفہرست ہے۔ جہاں تشدد کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 74.9  اموات فی لاکھ آبادی ہے۔ اس فہرست کے پہلے دس ممالک میں زیادہ تر کا تعلق افریقہ کے خطے سے ہے۔ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں نیپال 10.4  اموات فی لاکھ کے ساتھ خطے میں سر فہرست اور دنیا میں 73 ویں نمبر پر ہے۔ جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش دوسرے، بھوٹان تیسرے، پاکستان چوتھے، بھارت پانچویں، سری لنکا چھٹے، افغانستان ساتویں اور مالدیپ آٹھویں نمبر پر ہے۔

تشدد، مسلح تصادم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یہ سب کچھ امن کے متضاد عوامل ہیں۔ جن کی وجہ سے ایک اور انسانی المیہ سرحدوںکے اندر اور سرحدوں کے باہر ہجرت کی صورت میں جنم لیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق دنیا میں ایک کروڑ 67 لاکھ مہاجرین اپنے ممالک کو چھوڑ کر دیگر ملکوں میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی دنیا میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعدادکی میزبانی کر رہا ہے اور اب ملک میں آئی ڈی پیز کی بھی تعداد قابلِ ذکر ہے۔ جو جون 2014 تک IDMC کے مطابق 11 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر امن اسلحہ کے استعمال سے خراب ہوتا ہے تو اُس کی بحالی اور اس کا قیام بھی اسلحہ کے استعمال اور اُس کی موجودگی ہی سے ممکن ہے۔ شاید یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ جتنی رقم دنیا بھر میں فوجی ضروریات اور انتظامات پرخرچ کی جاتی ہے۔ اس کا اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر حصہ بھی اگر تعلیم، صحت، خوراک ، پینے کے صاف پانی اور سینی ٹیشن جیسی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی پر خرچ کیا جائے تو شاید 1747 ارب ڈالر مالیت کے فوجی اخرجات کی نوبت ہی نہ آئے۔دنیا کو بسانے اور اُجاڑنے کے اخراجات کا موازنہ اس امر کی زیادہ بہتر وضاحت کرتا ہے۔

2010 میں اقوامِ متحدہ نے ترقیاتی اور انسانی فلاح وبہبود اور امداد پر 24 ارب ڈالر خرچ کئے۔ یہ رقم دنیا میں انسانی ترقی کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے یقیناً کم ہے۔ اقوام متحدہ نے 2020 تک بنیادی سماجی ضروریات کی یونیورسل کوریج کے حصول کے لئے 206 سے 216 ارب ڈالر سالانہ ضرورت کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن جو عالمی برادری اپنی فلاح کے لئے اقوامِ متحدہ کو فنڈز اُس کی ضرورت کے مطابق آج بھی مہیا نہیں کرتی وہ کس طرح 2020 کے ترقیاتی اہداف کے حصول کے لئے اس کی مالی ضروریات پورا کرے گی؟ اس کے برعکس دنیا کے معاشی وسائل کا ایک بڑا حصہ فوجی اخراجات پر ہر سال صرف کیا جاتا ہے۔ جس کی مالیت 2013 میں 1747 ارب ڈالر تھی۔

جنوبی ایشیاء کے چھ ممالک جو سارک تنظیم کے ارکان ہیں۔ ان ممالک نے 2013 کے دوران 60231 ملین ڈالر فوجی اخراجات کئے۔ خطے کی سطح پر بھارت فوجی اخراجات کے حوالے سے سرفہرست رہا جبکہ پاکستان دوسرے، سری لنکا تیسرے، بنگلہ دیش چوتھے، افغانستان پانچویں اور نیپال چھٹے نمبر پر رہے۔ خطے میں 1992  سے 2011 تک فوجی اخراجات میں مسلسل اضافہ جاری رہا جس کے بعد 2011 سے 2012 کے دوران اس میں کمی ہوئی لیکن اگلے سال اس میں پھر اضافہ ہوا۔

گزشتہ عشرے (2004-13 ) میں ہونے والے اضافہ کی ایک وجہ افغانستان کے فوجی اخراجات کا آغاز اور اس میں مسلسل اضافہ ہے۔ افغانستان دنیا کے اُن 23  ممالک میں اس عرصے کے دوران اول نمبر پر رہا جنہوں نے اپنے فوجی اخراجات میں دگنا سے لے کر چھ گنا تک اضافہ کیا۔ 557 فیصد کا اضافہ افغانستان کے ملٹری بجٹ میں 6 گنا اضافہ کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اور 2012-13 کے دوران دنیا بھر میں سب سے زیادہ انفرادی فیصد اضافہ بھی افغانستان کے فوجی اخراجات کیصورت میں سامنے آیا۔ جہاں ایک سال کے دوران ان اخراجات میں 77 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

دنیا میں ایک سال کے دوران فوجی اخراجات میں 26 فیصد اضافہ عالمی سکیورٹی کی صورتحال کی واضح نشاندہی کر رہا ہے کیونکہ کئی پرانے تنازعات کی موجودگی میں نئے تنازعات بھی جنم لے رہے ہیں جو حال سے مستقبل تک عالمی امن کو متاثر کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان تنازعات میں پاک بھارت آبی تنازعہ نہایت اہم ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستانی دریائوں پر ڈیموں کی تعمیر نے اس تنازعہ کی بنیاد ڈالی اور پاکستان کے پانی کو روکنے اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے سیلابی پانی چھوڑنے کے واقعات اس تنازعہ کی شدت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

اسی طرح ISIS اور داعش کی صورت میں ابھرتے چیلنجز بھی مستقبل میں عالمی سکیورٹی کے لئے کسی آزمائش سے کم نہ ہوں گے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے تنازعات کا بیج بویا جا رہا ہے۔ اور جب ان کی فصل پکے گی تو عالمی امن کی کیا صورتحال ہوگی۔ اس کی ایک جھلک پولیٹیکل سائنٹسٹ James G. Blight  اور سابق امریکی ڈیفنس سیکرٹری  Robert McNamara  کی اس پیش گوئی سے واضح ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی میں دنیا بھر میں جنگوں سے وابستہ اموات کی تعداد اوسطً30  لاکھ سالانہ تک ہو سکتی ہے۔

امن کی بربادی نام ہے ڈر اور خوف کا اور انسان میں ڈر اور خوف کا مادہ ہی اسے اپنی اصلاح کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ ماضی سے سبق سیکھنا اور مستقبل میں ان غلطیوں کو دوہرانے سے بچنا ہی دانشمندی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ انسان پھر بھی نہیں سمجھتا اور اپنی تخریب کا سامان کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔