عمران خان اور بہت کچھ
لاہور کی سیاسی تاریخ سے قریب قریب بے خبر عمران خان کو شاید اندازہ نہ ہو کہ اس نے سیاست کے کتنے بڑے مرکز ....
لاہور میں عمران خان کے بہت بڑے جلسے کی وجہ سے سیاسی لاہور ان دنوں خبروں میں سرفہرست ہے۔ برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں کو ہندوستان کے دو شہر بہت پسند تھے ایک کلکتہ اور دوسرا لاہور۔ کرسمس کا تہوار وہ انھی دو شہروں میں منانا پسند کرتے تھے کلکتہ تو شاید اس لیے بھی کہ ہندوستان پر قبضہ میں پہلا اڈہ بنگال کا یہی شہر تھا۔ دوسرے وہ مشرقی ہندوستان اور رقص و موسیقی والے بنگال کا مرکزی شہر تھا لیکن لاہور کی ایک تاریخ تھی اور اس شہر کی خاص ادائیں اور رنگینیاں تھیں۔ مغلوں کی طرح انگریزوں کو بھی یہ شہر بہت پسند رہا۔ مغل ملکہ عالم نور جہاں نے لاہور کے عشق میں ایک شعر کہا تھا
لاہور را بجاں برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
کہ لاہور کو ہم نے جان کی قیمت دے کر خریدا ہے یوں کہیں کہ جان دے کر ایک جنت خرید لی ہے''۔ اس شہر کو ایک حسینہ عالم کی طرف سے اس عقیدت سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔ آخر اس شہر کو کتنا پیار درکار ہے اور ملکہ ہند سے بڑھ کر اور کون ہے جو اس شہر پر فریفتہ ہو تو اسے چین ملے، یہ شہر پورے ہندوستان کی سیاست کا مرکز رہا اور ثقافت کا بھی۔ بمبئی کے فلمساز کی فلم کا پہلا شو جب لاہور میں چلتا تو وہ ٹیلی فون پکڑ کر بیٹھ جاتا اور جب اہل لاہور کی طرف سے اسے فلم کی پسندیدگی کی خوشخبری ملتی تو وہ نعرے لگاتا کہ اس کی فلم کامیاب ہو گئی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال سیاست کا بھی رہا ہے۔ لاہور میں جس کی سیاست چل گئی وہ لیڈر بن گیا۔ ایک مثل مشہور ہے کہ لاہور میں جس حکیم کا دواخانہ اور حکمت نہیں چلی اور جس کھانے والے کا ہوٹل نہیں چلا وہ کہیں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس میں سیاست کا بھی اضافہ کر لیں۔
عمران خان نے لاہور میں جلسہ کیا۔ اس نیم یا نوخیز سیاستدان کے پہلے جلسوں اور دھرنوں کی طرح یہ جلسہ بھی کسی سیاسی پیغام سے خالی اور بس ایک جلسہ ہی تھا لیکن بہت ہی بڑا جلسہ تھا۔ لاہور کے در و دیوار نے اتنا بڑا جلسہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ جلسہ گاہ کے قرب و جوار میں میناروں کا ہجوم حیرت زدہ رہ گیا اور شاہی قلعہ کی فصیلیں اس یلغار سے خوفزدہ ہو گئیں۔ میں نے ٹی وی پر یہ جلسہ دیکھا لیکن لوگوں نے بتایا کہ تم نے کچھ نہیں دیکھا جلسہ گاہ ہی نہیں قریب کی سڑکیں بھی بھری ہوئی تھیں اور لوگ جگہ نہ ملنے کی وجہ سے واپس جا رہے تھے۔
لاہور کی سیاسی تاریخ سے قریب قریب بے خبر عمران خان کو شاید اندازہ نہ ہو کہ اس نے سیاست کے کتنے بڑے مرکز کو فتح کیا ہے اور اپنی نوخیز سیاست کے کلے کہاں گاڑے ہیں۔ ہمارے جیسے لاہور کی سیاست کے پرانے تماشائی نے جب مستند لوگوں کی زبانی اس جلسے کی آن بان کے قصے سنے تو دکھ ہوا کہ ہم اس شہر کے روائتی جلسوں کے تو عینی شاہد رہے لیکن جب یہاں جلسوں کی تاریخ بن رہی تھی تو ہم غیر حاضر تھے یعنی مشورے بذریعہ ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہے تھے۔ یہ اسکرین جو اس جلسے کے چند دلفریب چہروں اور پر جوش حاضرین تک محدود تھی جب کہ اس سمندر کی ٹھاٹھیں بہت دور دور تک اٹھ رہی تھیں اور ایک دنیا کو حیرت میں ڈبو رہی تھیں یہ دنیا بھی لاہور کی جس نے ان جلسوں کو دیکھ دیکھ کر بینائی کمزور کر لی ہے۔
خوش نصیب عمران خان اگر صرف 'گو نواز گو' ہی چاہتا ہے تو جتنے جلسے کر لے نواز 'گو' نہیں ہو گا کیونکہ جلسوں کے ذریعہ کوئی جا نہیں سکتا البتہ عمران خان اگر حکومت عملاً معطل کر سکتا ہے اور ان جلسوں سے حکومت کو بے بس کر سکتا ہے تو دوسری بات ہے۔ عمران نے ابھی تک اپنے حاضرین کو اس راستے سے آگاہ نہیں کیا اور اس راستے پر لے کر نہیں چلا جو نواز کے جانے کا راستہ ہے۔ نواز حکومت عوام کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہے اس کے بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب جگ بیتی ہے لیکن اس حکومت کی ملک کے بارے میں جو خطرناک پالیسیاں ہیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت ہے تو کیا عمران خان کے سامنے کچھ رکاوٹیں ہیں جو اسے خاموش رکھ رہی ہیں۔
یہ سوداگروں کی حکومت ضرور ہے جو تاریخ میں انسانی علوم کے ماہرین نے ایک غلط اور نقصان دہ حکومت قرار دی ہے لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ جدید دور میں اگر کوئی حکومت سوداگری ملک کے مفاد میں ملک کے لیے کرتی ہے تو یہ سب جائز ہے لیکن سوداگری اگر ذاتی مفاد کے لیے ہو اور ملک میں اقتدار کے بل بوتے پر کی جائے تو یہ ملک دشمنی بھی کہی جا سکتی ہے۔ سرکاری دورے پر کسی ملک میں جانا اور یوں وہاں کے فولاد کے کسی کاروباری سے قومی خرچ پر ملنا اور اس ملاقات میں شمولیت کے لیے دساور سے اپنے کاروباری بیٹے کو بھی بلا لینا معافی کے قابل نہیں ہے اب ایک لیڈر میاں زاہد سرفراز نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ پاکستان کی اسٹیل مل بھارت کے ہاتھ بیچی جا رہی ہے ایک اور قومی ادارے پی آئی اے کے بارے میں پہلے سے ہی خبریں آ رہی ہیں.
اس طرح کئی دوسرے ادارے بھی ختم کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب قومی نہیں ذاتی سوداگری ہے لیکن قوم کے نام خرچ اور قومی اثرورسوخ کے تحت۔ یوں تو ہم نے آدھا ملک گنوا دیا اور اس کے منصوبہ سازوں میں سے ایک کو وزیراعظم تک بنا دیا اور یحییٰ خان کے نمبر دو جنرل عمر کے تین صاحبزادے اچانک وارد ہو گئے ہیں ان میں سے ایک حکومت کی جماعت میں دوسرا عمران خان کی جماعت میں اور تیسرا بھی کسی اہم منصب پر فٹ ہو گیا ہے اس سب کے باوجود ہم کسی بہتر ملک کی امید رکھتے ہیں۔
عمران خان احتیاط سے کام لیں اپنے دائیں بائیں بھی دیکھیں کہ ان کے پاس کون سا مال ہے اور کوئی پاکستانی ان پرانے استادوں سے کیا توقع رکھ سکتا ہے۔ عمران کو ان کے بھرپور جلسوں پر مبارک باد لیکن ہواؤں میں اڑ جانے والے ان جلسوں کے اونچے نعروں اور بے مغز تقریروں سے ہماری کون سی بگڑی بن سکتی ہے۔ عمران کے جلسوں کے سوداگر بہت پر جوش ہیں اور اپنا حصہ مانگتے ہیں۔