عید کے دوران اور عید کے بعد

پاکستان میں سیلاب آیا تو ہندوؤں نے بطور شغل اپنی طرف سے مزید پانی چھوڑ دیا اور کہا کہ یہ غلطی ہو گئی ہے۔


Abdul Qadir Hassan October 10, 2014
[email protected]

تین دنوں والی عید پانچ دنوں پر پھیل گئی کیونکہ سرکار نے اس تہوار پر جن چھٹیوں کا اعلان کیا تھا ملازمین ان کو کھینچ کھانچ کر پانچ دنوں سے بھی آگے لے گئے اور یہ اکثر ہو رہا ہے کہ جب چھٹیاں ہوتی ہیں تو ہفتہ اتوار ملا دیا جاتا ہے اور ان کو لمبا کر لیا جاتا ہے۔ حکومت کا نظام چونکہ خطرناک حد تک ڈھیلا ہو چکا ہے اور کرپشن ہزار رنگوں میں موجود ہے اس لیے سرکاری ملازمین کو یہ جرأت ہوتی ہے کہ وہ اس ڈھیلے ڈھالے سرکاری نظام کو اپنے مطلب کے مطابق ڈھال لیں۔

اس کی ایک سرکاری مثال بھی موجود ہو گئی ہے۔ نریندر مودی صاحب کی آمد کے بعد بھارت نے ہمارے ساتھ ہنسی مذاق شروع کر دیا ہے۔ مودی صاحب پرلے درجے کے کٹر ہندو ہیں مسلمانوں کے اس حد تک دشمن کہ ان کا قتل عام لازم سمجھتے ہیں اور یہ وہ گجرات میں اپنے اقتدار کے دوران کر چکے ہیں۔ ان کا یہ نظریہ ہے کہ سرزمین ہند صرف ہندوؤں کی ہے اور یہاں کوئی ہندو بن کر ہی رہ سکتا ہے اور وہ جو اس زمین پر حکومت کرتے رہے ان کے لیے تو معافی کا ہر خانہ بند ہے اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ کے موقع پر اسے یوں بیان کیا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ان کی ہزار سالہ حکومت کا بدلہ لے لیا ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان میں سیلاب آیا تو ہندوؤں نے بطور شغل اپنی طرف سے مزید پانی چھوڑ دیا اور کہا کہ یہ غلطی ہو گئی ہے لیکن ابھی چند روز پہلے میں نے ٹی وی پر ایک ہندو کو دیکھا جو بڑے طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں بتا رہا تھا کہ یہ کوئی غلطی نہیں تھی سچ تھا اور پھر انھی دنوں پاکستان پر گولہ باری شروع کر دی جس سے ہمارے ستر اسی گاؤں خالی کر دینا پڑے اور لاکھوں پاکستانی بے گھر ہو گئے۔

جب یہ سفاکانہ سلسلہ جاری تھا تو پاکستانی پہلے حیرت زدہ ہو کر اور پھر احتجاجاً کہنے لگے کہ ہمارے ایٹمی طاقت والے اربوں کھربوں پتی حکمران کہاں ہیں۔ احمق پاکستانیوں کو ڈیڑھ دو سال پہلے کی بات بھی یاد نہ رہی جب بھاری اور بہت ہی بھاری تعداد میں ووٹ لینے کے بعد ہمارے وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ پاکستانیوں نے یہ ووٹ بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے دیے ہیں۔ بعد میں جب ن لیگ کی حکومت آ گئی تو پتہ چل گیا کہ یہ بات کس طرح صحیح اور سچی تھی ہم مفلس اور بھوکے عوام کے خرچ پر جب حال ہی میں وزیر اعظم بھارت کے دورے پر گئے تو اسی خرچ پر وہ فولاد کے ایک کاروباری سے ملاقات کے لیے بھی گئے اور اس کے لیے اپنے ایک صاحبزادے کو بھی لندن سے بطور خاص بلوا لیا جو کاروبار کرتے ہیں۔

سوداگراں فولاد کی یہ ملاقات مجھے اس وقت بری طرح یاد آئی جب میاں زاہد سرفراز نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ہم اپنی اسٹیل مل بھارت کو فروخت کر رہے ہیں۔ بعد میں تازہ خبر یہ ہے کہ مل قریب قریب بند ہے اور بری حالت میں ہے۔ ہماری حکومت کا یہ اسٹائل ہے کہ جب وہ کسی قومی اثاثے کو بیچنا چاہتی ہے تو پہلے اسے خراب کرتی ہے تا کہ پاکستانی بھی کہیں کہ یہ تو پہلے سے ہی خراب تھا۔ میاں زاہد کی بات سے اندازہ ہوا کہ بھارتی فولادی کاروباری سے ملاقات کہیں اسی سلسلے میں تو نہیں تھی ویسے حالت تو پاکستان کی بھی ناگفتہ بہ اور خراب ہے۔

ہماری حکومت ایک عرصہ سے زوال سے دوچار ہے اور کسی نہ کسی مضبوط سہارے پر زندہ رہنے کا عادی یہ ملک اس وقت کسی سہارے کی تلاش میں سرگرداں ہے لیکن اس وقت اس کے سامنے کوئی قابل اعتماد سہارا موجود نہیں ہے۔ یہ زمانہ کاروبار کا زمانہ ہے اس میں لینا دینا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس کیا رہ گیا ہے جو ہم کسی کو دے سکیں۔ قدرت نے اس ملک کو ایک ایسے خطہ زمین پر استوار کیا کہ اس کی جغرافیائی طاقت بھی کسی قدرتی وسیلے کی طرح ہے۔ کسی نہ کسی بڑی طاقت کا نشانہ بنے رہنے والا افغانستان ہماری جغرافیائی نعمت کے قدموں میں ہے۔

وہ جو کہا جاتا ہے کہ افغانستان جنگ کرتا ہے یا جنگ کی تیاری کرتا ہے تو یہ درست ہے اس ملک میں ابھی تک امریکی قدموں کے نشان ہی نہیں خود امریکی بھی حسب ضرورت موجود ہیں اور ان کے خلاف کسی نہ کسی دن افغانی بھڑک اٹھیں گے لیکن یہ تو جب ہو گا، دیکھا جائے گا لیکن پاکستان کے جغرافیہ کے علاوہ اگر یہاں کوئی حکومت پاکستانی کام کی ہوئی تو وہ افغانستان جانے والی ہر حکومت کو اپنی درگاہ پر سلام کیے بغیر جانے کی اجازت نہیں دے گی مگر ان دنوں تو ہماری حکومت ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ وہ جسے کسی حکومت کی رٹ کہتے ہیں افسوس کہ دکھائی نہیں دیتی۔ امن و امان ایک تماشہ بن گیا ہے اتنے پاکستانی بھارت کی گولیوں سے نہیں مرتے جتنے کچی شراب پی کر مر جاتے ہیں اور یہ جو دھرنے ہیں یہ تو کسی ایسے ملک میں ہی دیے جا سکتے ہیں ۔

جس کی قوم کو ہر وقت میلے ٹھیلے درکار ہوں خواہ جیب میں ایک پیسہ بھی نہ ہو بلکہ برطانیہ کی رعایا ایک دوسرے ملک کا پورا شہری اور پاکستان کا بھی آدھا شہری جب ملک کا ایک لیڈر ایسا ہو اور اسے برداشت کیا جاتا ہو تو باقی کے حال کا آپ خود اندازہ کر لیں۔ قوم باوجود ان غلط سلط لیڈروں کے فِٹ ہے اور جب اسے کوئی پاکستانی لیڈر مل گیا تو وہ اپنا آپ دکھا دے گی اور کسی بھارت کو خود بھی جواب دے دے گی کہ ادھر مت دیکھو۔ بھارت کے دانشور اور وکیل جناب نورانی کے بقول اگر ہم کسی مسجد میں سفیدی بھی کرا دیں تو یہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے اب کیا ارادے ہیں لیکن حکمران اگر سوداگراں فولاد ہوں تو قوم انتظار ہی کر سکتی ہے۔

مقبول خبریں