خوشیاں ماند کرتے واقعات

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 13 اکتوبر 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

عید کا دن مسلمانوں کے لیے خوشی و مسرت کا تہوار ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے مسرت و شادمانی کے اس تہوار پر اکثر و بیشتر ناخوشگوار سانحے اور واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں سے کچھ قدرتی آفات اور کچھ ہماری اپنی حکمت عملی کا نتیجہ اور بلائی گئی مصیبتیں اور مصائب ہوتے ہیں جن کا دائرہ کار علاقائی و قومی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک وسیع ہوتا ہے، کبھی سیلاب، زلزلے اور جنگوں کی تباہ کاریاں رونما ہوتی ہیں، کبھی اندرونی و بیرونی فسادات، خون خرابہ، خلفشار اور سازشیں عید کی خوشیوں کو ماند کر دیتی ہیں۔

اس عید کے موقع پر بھی لاکھوں آئی ڈی پیز اور سیلاب کے متاثرین اپنے گھروں سے بے گھر ہیں، بھارتی جارحیت سے لاکھوں شہری متاثر ہوئے اور بڑی تعداد میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے، امدادی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں دہشت گردی کے واقعات کے علاوہ ڈرونز حملوں نے درجنوں شہریوں کی جانیں لے لیں، کرکٹ اور ہاکی ٹیموں کی پہ درپہ شکست نے بھی شائقین کے دلوں کو مرجھا دیا اور پھر کچی شراب کے استعمال سے ہلاکتوں نے درجنوں خاندانوں میں صف ماتم بچھاکر مجموعی طور پر عید کی خوشیوں کو ماند کر ڈالا۔

عین عید کے دنوں میں بھارتی جنگی جارحیت کے نتیجے میں 30 شہری شہید اور درجنوں زخمی و معذور ہوگئے، ایک ہی رات میں ایک گاؤں پر 150 سے زائد مارٹر گولے برسائے گئے، بھارت کی جانب سے 40 سے زائد مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں 75 ہزار سے زائد شہری، ان کے مال مویشی اور دیگر املاک متاثر ہوئے، 20 ہزار سے زائد نقل مکانی پر مجبور ہوئے، لوگ امدادی کیمپوں میں بھی پڑے ہیں، اسکول ودیگر معاملات زندگی بھی متاثر ہوئے ہیں، مسلمہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور سیز فائر کی خلاف ورزی پر بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے اور اس معاملے کو سلامتی کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

آیندہ کے لائحہ عمل کی تیاری کے لیے نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بھی ہو رہا ہے، آئی ایس پی آر کے مطابق متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کا گروپ بھی پاکستان آرہا ہے۔ دوسری جانب بھارتی حکومت اپنی فوجی جارحیت روکنے کے بجائے الزامات کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی پر کاربند نظر آتی ہے۔ بھارت میں انتہاپسند ریلیاں نکال رہے ہیں، پاکستانی سفارتخانے پر مظاہرے اور وزیراعظم پاکستان کے پتلے نذرآتش کیے جا رہے ہیں۔

نریندر مودی ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں، پاکستان کو کھل کر دھمکیاں دی جا رہی ہیں، اس کے نائب ہائی کمشنر کو طلب کرکے احتجاج کیا گیا ہے، اقوام متحدہ میں بھارتی عہدیدار پاکستان پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ بھارتی جارحیت پر ردعمل کے حوالے سے ہمارے بعض سیاستدانوں کا رویہ شرمناک، مایوس کن اور قومی تشخص کے خلاف ہے جو مفاد پرستانہ اور محض پوائنٹ اسکورنگ پر مبنی ہے، کوئی سیاستدان حکومت اور وزارت خارجہ پر تنقید کر رہا ہے تو کوئی ایٹم بم کی طاقت کے اظہار کا مشورہ دے رہا ہے۔

حالانکہ حکومتی معاملات خودکش بمباروں کی طرح نہیں چلائے جاسکتے۔ دونوں ملک ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں۔ ماضی کے تقریباً تمام سیکریٹری اور وزیر خارجہ حزب اختلاف کی جماعتوں میں بیٹھے ہیں۔ بڑھکیں مارنے والے سابق سول و فوجی حکمرانوں کا ماضی بھی سب کے سامنے ہے، کسی نے بڑھکیں مارنے کے بعد خود واجپائی کی میز پر جاکر اس سے مصافحہ کیا تو کسی نے اسی سال مسئلہ کشمیر کے حل کی خوشخبری سنانے کے دعوے کیے، گھن سو گھن سو کشمیر گھن سو کے نعرے بھی لگائے گئے۔

پاک بھارت تنازعات کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے، جس کے لیے کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جس کی چیئرمین بے نظیر بھٹو اور نوابزادہ نصراللہ خاں کے علاوہ طویل عرصے سے مولانا فضل الرحمن کے حوالے ہے، مگر اس کی کارکردگی بیرونی دوروں، وہاں کی یونیورسٹیز، مختلف فورم، تعلیمی اداروں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے خطابات اور لیکچرز سے آگے نظر نہیں آئی۔

عید کے موقع پر دوسرا واقعہ کچی شراب کے استعمال سے 32 زندگیوں کے اتلاف کا پیش آیا، درجن سے زیادہ کی حالت تشویشناک ہے، جن کے گردے اور بینائی ختم ہوچکے ہیں، ملک کے دیگر حصوں میں بھی کچی شراب پینے سے درجن بھر ہلاکتیں رونما ہوئی ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کو شراب کی فروخت پر قانونی پابندی ہے مگر اس کے باوجود شراب خانوں، اڈوں اور کچی شراب کی بھٹیوں سے حسب حیثیت دیسی سے درآمد شرابیں ہر خواہشمند کی دسترس میں ہیں۔

حالیہ واقعے کے بعد تو بعض ہندو اور عیسائیوں نے بھی شراب کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے، حسب روایت اس سانحے کے بعد ہلاکتوں کے 20 مقدمات قائم کرکے 5 پولیس افسران معطل کردیے گئے ہیں، متعلقہ وزیر شراب کی تیاری میں استعمال کی جانے والی اسپرٹ کے لائسنس منسوخ کرکے آیندہ کچی شراب فروخت نہ ہونے کا عندیہ دے کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوگئے ہیں، وزیراعلیٰ نے بھی شراب کی بھٹیاں اور اڈے مسمار کرنے کا فرمان جاری کردیا ہے۔ ان وقتی طفل تسلیوں کے نتیجے میں حسب روایت کوئی ذمے دار کیفر کردار تک نہیں پہنچے گا، چند ہفتوں بعد یہ دھندہ دوبارہ مزید توانائیوں اور مہنگے نرخوں و رشوتوں کے ساتھ شروع ہوجائے گا اور ملوث افراد اور اداروں کی آمدنی میں اضافے کا سبب بنے گا۔

2 ماہ قبل عید کے موقع پر سمندر کی نذر ہوجانے والے نصف صد کے قریب افراد کے ذمے داروں کا بھی تعین نہیں ہو پایا، نہ کسی قسم کے حفاظتی اقدامات دیکھنے میں آئے ہیں، دو سال گزرنے کے باوجود بلدیہ فیکٹری میں رات بھر جل کر خاکستر ہونے والے ڈھائی سو محنت کشوں کے ذمے دار افراد اور ادارہ بھی کسی احتساب سے مبرا ہیں۔

عید کے موقع پر آسٹریلیا کے خلاف خراب کارکردگی کو برقرار رکھتے ہوئے قومی کرکٹ ٹیم نے بھی اپنے مداحوں کی عید کی خوشیوں کو کرکرا کردیا، جس پر تبصرہ کرتے ہوئے کرکٹ لیجنڈ لٹل ماسٹر حنیف محمد نے آبدیدہ آنکھوں سے کہا کہ آج کرکٹ ٹیم کو کھیلتا دیکھ کر اس کی حالت زار پر رنج ہوتا ہے، اگر میں نے سچ بولا تو سارے لوگ میرے بیٹے شعیب محمد اور پوتے زر محمد کے دشمن بن جائیں گے، میرے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے، صرف دعا ہی کرسکتا ہوں۔

دوسری جانب پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کی حالت زار بھی قابل رحم ہے، ایشین گیمز میں قوم کو جو اس سے توقع ہوچلی تھی وہ فائنل میں غیر متوقع شکست سے مایوسی میں بدل گئی ہے، خبریں بھی آئی ہیں کہ قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں اور کوچز کو تین ماہ سے معاوضہ ادا نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے کچھ کھلاڑی سخت ناراض اور مایوسی کا شکار تھے، یہ شکست اسی کا شاخسانہ معلوم ہوتی ہے۔

کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ ہو یا ہاکی فیڈریشن کی چیئرمین شپ، یہ آسامیاں حکمرانوں سرکردہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے لیے بڑی کشش کی حامل ہیں، یہاں تک کہ سابق وزیراعظم بھی ان دونوں محکموں کے چیئرمین رہ چکے ہیں، کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ کی رسہ کشی کے مناظر اقتدار کے ایوانوں سے عدالت عظمیٰ تک ہر شہری خود دیکھ چکا ہے، کاش ہمارے حکمران، سیاستدان اور ارباب اختیار اپنے مقاصد اور مفادات کے حصول میں قوم کے مفادات اور خوشیوں کو بھی مدنظر رکھیں، اگر انھیں کچھ دے نہیں سکتے تو کم ازکم انھیں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے تو محروم نہ کریں۔ ہم جیسے دل دکھے پاکستانی تو اس کے لیے حنیف محمد کی طرح صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔